پیر, مئی 20, 2024
اشتہار

معروف مزاح نگار کرنل محمد خان کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں کرنل محمد خان نے اپنی تخلیق کو جس طرح ظ‌رافت کے ساتھ افادی بنایا ہے، وہ بہت مزاح نگار کرسکے ہیں۔ ان کا فن محض وقت گزاری کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ وہ ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ آج کرنل محمد خان کی برسی ہے۔

کرنل محمد خان کے اسلوب کی خصوصیات اس کی خیال آفرینی، فکر انگیزی اور لطافت و شگفتگی ہے جو مزاح نگاری میں ان کا امتیازی وصف بھی ہے۔ کرنل محمد خان کی ادبی شہرت کا سفر ان کی ایک تصنیف بجنگ آمد سے شروع ہوا جو قارئین میں بہت مقبول ہوئی۔ اردو زبان کے اس معروف مزاح نگار نے 23 اکتوبر 1999 کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

متحدہ ہندوستان کے ضلع چکوال کے چھوٹے سے علاقے بلکسر میں پیدا ہونے والے کرنل محمد خان کا سنہ پیدائش 1910 ہے۔ 1966 میں کی پہلی تصنیف بجنگ آمد کی اشاعت ہوئی تھی۔ اس کتاب کی مقبولیت کے بعد کرنل محمد خان نے اپنے قارئین کو مزید دو کتابیں بسلامت روی اور بزم آرائیاں پڑھنے کو دیں۔ کرنل محمد خان کی ایک کتاب تراجم پر مشتمل تھی جو بدیسی مزاح کے نام سے منظرِ‌عام پر آئی۔

- Advertisement -

کرنل محمد خان تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانوی فوج سے وابستہ ہوگئے اور بجنگ آمد اسی زمانے کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے مزاح کے پیرائے میں سوانح رقم کی اور یہ کتاب فوج میں اُن کی شمولیت اور مختلف واقعات کے علاوہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران پیدا ہونے والی صورتِ حال اور مصنّف کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا پُر لطف بیان ہے۔ یہ کتاب ان کے زورِ قلم کی عمدہ مثال ہے۔ اس کتاب میں کرنل محمد خان نے چھٹیوں‌ پر اپنے گاؤں لوٹنے پر اپنے استقبال اور اپنی والدہ سے بولے گئے ایک جھوٹ کو نہایت پُراثر انداز میں کچھ یوں‌ بیان کیا ہے۔

”خبر مشہور ہو گئی کہ کپتان آگیا ہے، محمد خان آگیا ہے۔ کتنا دبلا پتلا تھا، اب دیکھو کیسا جوان نکلا ہے، صاحب بن گیا ہے، “سرگٹ” بھی پیتا ہے، مسکوٹ میں کھانا کھاتا ہے، نوکری پہرہ بھی معاف ہے۔

گاؤں کے چھوٹے بڑے کام چھوڑ کر ملاقات کو آنے لگے۔ ہم نے پہلے دو دن میں کوئی ایک ہزار معانقے کیے ہوں گے اور بس اتنی ہی ہمارے گاؤں کی مردانہ آبادی تھی۔ چھاتی دکھنے لگی، لیکن دل کو ایک عجیب سکھ حاصل ہوا۔ مہینے بھر میں صرف چند روز اپنے گھر کھانا کھایا اور وہ بھی والدہ کے اصرار پر کہ مجھے اپنے بیٹے کو جی بھر کر دیکھ لینے دو اور بہت دیر دیکھ چکیں تو وہ کچھ کہا جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے۔

“بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو نا؟”

میں والدہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اگر اس پیکرِ محبت کا وجود نہ ہوتا تو کیا مجھے وطن واپسی کا یہی اشتیاق ہوتا؟ بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

“جی ہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں۔” اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔

ویسے سچ یہ تھا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ ایک لاکھ چھوڑ کر بھی ہمیں اپنے ماتحت ڈھونڈنے کے لیے چراغ بلکہ سرچ لائٹ کی ضرورت تھی، لیکن وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟“

کرنل محمد خان قیامِ پاکستان کے بعد پاک فوج سے منسلک رہے، وہ شعبۂ تعلیم میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے اور اسی عہدے سے ریٹائر‌ ہوئے۔

بطور مزاح نگار کرنل محمد خان نے طنز سے معاشرتی ناہمواریوں کو نشانہ بنایا ہے، مگر ان کا وصف یہ ہے کہ وہ زندگی کو بالعموم خندہ پیشانی سے دیکھتے ہیں اور ناہمواریوں کو بھی خوش مزاجی سے قبول کرتے ہیں۔ کرنل محمد خان نے سفر نامے بھی لکھے اور اس میں بھی وہ اشیا اور مظاہر کو شوخ و شنگ نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے سفر کی روداد کو انشائی لطافت سے پیش کرتے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں