جب قومی ترانے میں جذبہ حب الوطنی اور ملی وحدت کا جنون شامل ہو تو قومی ترانے کی مدھر دھن اور سر آزادی کے پروانوں کو مدہوش کر نے کے ساتھ لطف اندوزکرنے کا ساماں بھی ہوتے ہیں۔
آج 13 اگست 1954 کا دن پاکستان کی آزادی کے ساتھ ایسا جڑا ہوا ہے جیسے مٹی میں سوندھا پن۔ یہ وہ دن ہے جب ریڈیو پاکستان پر پہلی بار اپنی مخصوص دھن کے ساتھ بیک وقت 11 گلوکاروں کی آواز میں قومی ترانے کو نشر کیا گیا۔
حفیظ جالندھری کے لکھے گئے قومی ترانے کے لیے سازندے اور اکتارے کے ساتھ سارنگی اور بانسری کی ایسی سریلی دھنوں کو شامل کیا گیا کہ آج تک قومی ترانے کے سر تال پاکستانی قوم کے ہرفرد کے کانوں میں رس گھولتی ہیں۔
ترانہ تحریر کرنے کے لئے قومی ترانہ کمیٹی نے معروف شاعر ابو الاثرحفیظ جالندھری کو چنا جنہوں نے 1952 میں قومی ترانہ تحریر کر کے قومی ترانہ کمیٹی کو ارسال کردیا۔
قومی ترانہ میں استعمال ہونے والے زیادہ تر الفاظ اردو اور فارسی میں یکساں مستعمل ہیں۔
اس قومی ترانے کی دھن مرتب کرنے کے لیے میوزک ڈائریکٹر احمد غلام چھاگلہ کو چنا گیا جو قومی ترانے کی دھن مرتب کر کے پاکستان کی تاریخ میں امر ہوگئے۔
یوم آزادی کی تقریبات میں قومی ترانے اور اس کی دھن کے رس گھولتے سر اپنی مخصوص دھن میں جشن آزادی کے تقدس اوراہمیت کو اور بڑھا دیتے ہیں۔
قومی ترانے میں کل 21 موسیقی کے آلات استعمال کیے گئے ہیں اور 38 مختلف سروں کے سنگم سے ترانہ تشکیل دیا گیا ہے اور اس کا دورانیہ کل 80 سیکنڈ ہے۔
قومی ترانے کو پہلی بار 11 گلوکاروں نے مل کر گایا تھا جن میں احمد رشدی، شمیم بانو، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آراء، نسیمہ شاہین، زوار حسین، رشیدہ بیگم، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وصی علی شامل ہیں۔