قومی یادگاریں قوم اور پاکستان کی عظمت کا نشان ہوتی ہیں اور قوم کی نمائندگی کرتی ہے، اسے کسی واقعہ یعنی قومی اہمیت کا احترام کرنے کیلئے تعمیر کیا جاتا ہے، پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے مطابق پاکستان میں 1997 میں نو قومی یادگاریں تھیں لیکن 2016 میں پاکستان کی گیارہ جگہوں کو قومی یادگار قرار دیا گیا ۔
مزار قائد
کراچی کے عین وسط میں سفید رنگ کے سنگ مرمر سے بنی ہوئی یہ عمارت پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ ہے، یہ مزار پوری دنیا میں کراچی کی پہچان ہے، اس عمارت کو 1960 سے 1970 کے درمیان میں تعمیر کی۔ اسکا ڈیزائن مشہور پاکستانی آرکیٹیکچر "یحییٰ مرچنٹ” نے بنایا تھا۔
مزار میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم محترم لیاقت علی خان اور جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح بھی قائد کے ساتھ دفن ہیں۔
مینارِ پاکستان
مینار پاکستان لاہور، پاکستان کی ایک قومی یادگار ہے، جسے لاہور میں عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1940ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ اس کو یادگار پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔
اس کا ڈیزائن ترک ماہر تعمیرات نصر الدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا۔ اور 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔
زیارت ریزیڈنسی ، کوئٹہ
زیارت ریزیڈنسی کوئٹہ میں وادی زیارت کے خوبصورت اور پر فضاء مقام پر واقع ہے، لکڑی سے تعمیر کی گئی یہ خوبصورت رہائش گاہ اپنے بنانے والے کے اعلیٰ فن کی عکاس ہے، قیام پاکستان کے بعد اس رہائش گاہ کی تاریخی اہمیت میں اس وقت اضافہ ہوا، جب14جولائی1948کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ناسازی طبع کے باعث یہاں تشریف لائے۔
اس عمارت کو اب عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں قائد اعظم کے زیر استعمال ر ہنے والی ا شیاء کو نمائش کے لئے ر کھا گیا ہے۔
پاکستان یادگار ، اسلام آباد
پاکستان یادگار اسلام آباد پاکستان میں ایک قومی یادگار ہے، جو ملک کے چاروں صوبوں اور تین علاقوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یادگارکھلے پھول کی شکل میں ایک تیزی سے ترقی پزیر ملک کے طور پر پاکستان کی پیش رفت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یادگار کی چار اہم پنکھڑیاں چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتی ہیں (بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب ، اور سندھ)، جبکہ تین چھوٹی پنکھڑیاں تین علاقوں کی نمائندگی کرتی ہیں ، جس میں گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور قبائلی علاقہ جات شامل ہیں۔
فضا سے یادگار ایک ستارہ (وسط میں) اور ایک چاند (پنکھڑیوں کی دیواروں سے بنا) کی طرح دکھتا ہے، جو پاکستانی پرچم میں ستارہ و ہلال کی نمائندگی کرتا ہے۔
وزیر مینشن ، کراچی
قائد اعظم کی جائے پیدائش کی حیثیت سے تاریخی اہمیت رکھنے والی یہ عمارت کھارادر میں واقع ہے، یہاں قائد اعظم کے والد جناح پونجا 1874سے 1900 تک کرائے پر رہے تھے، دومنزلہ اس عمارت کو میوزیم کا درجہ دیا گیا ہے۔ قومی ورثہ کی یہ عمارت خستہ حالی کا شکار ہے۔ 2008 میں اس کی آرائش اور تزئین کی گئی تھی۔
علامہ اقبال کا مزار
علامہ اقبال کا مزار کا شمار پاکستان کی قومی یادگاروں میں ہوتا ہے، یہ پاکستان کے شہر لاہور میں واقع ہے، اس عمارت کی طرز تعمیر افغان اور مورش طرز تعمیر پر بنیاد رکھتی ہے اور اسے مکمل طور پر لال پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے۔
قائداعظم ہاؤس ، کراچی
قائداعظم ہاؤس جس کو فلیگ سٹاف ہاؤس بھی کہا جاتا ہے، عمارت انگریزی طرزِ تعمیر کی خوبصورت جھلک پیش کرتی ہے، پاکستان کے بانی، قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے جدید پاکستان پر مرتب ہونے والے مثبت اثرات کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا جانے والا میوزیم ہے۔
یہ عمارت محمد علی جناح کی سابقہ رہائش گاہ ہے، جو یہاں 1944ء سے اپنی وفات یعنی 1948ء تک رہائش پزیر رہے۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح یہاں 1964ء تک رہائش پزیر رہیں۔ یہ عمارت حکومت پاکستان نے 1985ء میں اپنی تحویل میں لے لی اور اس عمارت کو بطور میوزیم محفوظ کر دیا گیا۔
شاہی قلعہ ، لاہور
قلعہء لاہور جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتا ہے۔
قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ یونیسکو نے اس قلعے کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
مکلی قبرستان ، ٹھٹہ
ٹھٹھہ کے قریب واقع علاقہ مکلی تاریخی قبرستان کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہے، اس قبرستان کے ساتھ ایک صدیوں پرانی تہذیب منسلک ہے، اس میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔
شالا مار باغ ، لاہور
شالا مار باغ کا شمار دنیا کے عظیم الشان باغوں میں ہوتا ہے، اس باغ کا سنگ بنیاد 1637ء میں رکھا گیا۔ اس پر چھے لاکھ روپے کے لگ بھگ لاگت آئی اور یہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں مکمل ہوا۔