ہفتہ, دسمبر 14, 2024
اشتہار

کورونا کے خلاف قوت مدافعت سے متعلق نیا انکشاف

اشتہار

حیرت انگیز

امریکا میں ہونے والی سائنسی تحقیق میں شواہد سامنے آئے ہیں کہ مریضوں میں کووڈ 19 کے خلاف مدافعت 8 ماہ تک برقرار رہ کر وائرس سے لڑسکتی ہے۔

امریکی لاجولا انسٹیٹوٹ آف امیونولوجی کی تحقیق کے مطابق کوروناوائرس کے نتیجے میں بیمار ہونے والے مریضوں میں اینٹی باڈیز اور میموری خاص مقدار میں خلیات میں 8 ماہ تک رہ سکتے ہیں، مریض بیماری سے صحت یاب ہونے کے بعد آٹھ ماہ تک وائرس سے محفوظ رہیں گے۔

تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صحت یاب مریضوں میں کورونا کے اسپائیک پروٹین کے خلاف اینٹی باڈیز 6 ماہ بعد بھی مستحکم ہوتی ہیں جبکہ اس پروٹین کے لیے مخصوص میموری بی سیلز کی سطح بھی بیماری کے 6 ماہ بعد زیادہ ہوتی ہے، جس سے اندازہ لگایا گیا کہ قوت مدافعت کا دورانیہ 8 ماہ تک ہوسکتا ہے۔

- Advertisement -

البتہ مریضوں میں میموری ٹی سیلز کی تعداد میں 4 سے 6 ماہ کے دوران کمی آنے لگتی ہے، مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ مقدار باقی بچ جاتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سائنس میں شایع ہوچکے ہیں۔

محققین نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ بہت زیادہ بیماری ہونے والے مریضوں میں مدافعتی نظام کئی برسوں تک بھی مضبوط رہ سکتا ہے، اس تحقیق میں امریکا سے تعلق رکھنے والے کورونا کے 188 مریضوں کے 254 خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، مذکورہ مریضوں میں وائرس کی شدت معمولی، معتدل اور سنگین تھیں۔

وہ ادویات جو کورونا مریضوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتیں

مریضوں پر مشاہدے سے دریافت ہوا کہ وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح بیماری کے بعد ایک سے 8 ماہ تک مستحکم رہتی ہیں لیکن بعد میں ان کی سطح میں کمی واقع ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی سے قوت مدافعت میں پائیداری رہتی ہے، میموری ٹی سیلز کو ایسے اینٹی جنز کے طور پر جانا جاتا ہے جو کسی مخصوص وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتے ہیں، مریضوں میں اینٹی باڈیز اور میموری بی سیلز کی سطح زیادہ دیکھی گئی جو طویل المعیاد قوت مدافعت کی ضمانت ہیں۔

طبی تحقیق میں مجموعی طور پر 64 فیصد کیسز میں پانچوں مدافعتی ردعمل کو دریافت کیا گیا جو بیماری کے بعد ایک یا 2 ماہ کے اندر بنتا ہے، جبکہ 5 سے 8 ماہ بعد 43 فیصد تک کم ہوجاتا ہے، البتہ 95 فیصد مریضوں میں 5 میں سے 3 مدافعتی خلیات موجود ہوتے ہیں جو وائرس سے بچاؤ کے طور پر کام آتے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں