جمعہ, جنوری 31, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 16

وبالِ جاں

0
coffee cafe tea sad man

میرے ڈاک والے بکسے میں ایک موٹا لفافہ میرا منتظر تھا۔ میں نے اسے کھولا اور رقم گنی۔ یہ پوری تھی۔ اس میں ایک رقعہ بھی تھا جس پر آدمی کا نام اور تفصیل کہ وہ مجھے کہاں مل سکتا تھا۔ اس میں، اس کی ایک پاسپورٹ سائز تصویر بھی تھی۔ میں نے خود پر لعنت بھیجی۔مجھے نہیں معلوم کہ مجھ سے ایسا کیوں ہوا۔ میں پیشہ ور ہوں اور ایک پیشہ ور کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، لیکن یہ بس منہ پر آ ہی گئی۔

مجھے بندے کا نام پڑھنے کی ضرورت پیش نہ آئی، میں نے تصویر سے ہی اس بندے کو پہچان لیا تھا۔ گریس۔ پیٹرک گریس، یہ امن کا نوبل انعام یافتہ ایک اچھا آدمی تھا۔ واحد اچھا بندہ جسے میں جانتا تھا۔ اور اگر اچھے بندوں کی بات کی جائے تو دنیا میں شاید ہی کوئی اور ہو، جو اس کا مقابلہ کر سکے۔

میں پیٹرک سے صرف ایک بار ہی ملا تھا۔ اور یہ ملاقات اٹلانٹا کے ایک یتیم خانے میں ہوئی جہاں وہ ہم سے جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے۔ ہم سارا سال گندگی اور غلاظت میں گزارتے اور وہ ہمیں پیٹ بھر کھانا بھی نہ دیتے۔ اور اگر کوئی احتجاج میں اپنا منہ کھولتا تو وہ ہماری پٹائی چمڑے کی پیٹی سے کرتے۔ اکثر تو وہ یہ تکلیف بھی گوارا نہ کرتے کہ اس پیٹی کا بکسوا الگ کر دیں۔ لیکن جب وہاں گریس آیا تو انہوں نے یہ بات یقینی بنائی کہ ہم سب صاف ستھرے ہوں۔۔۔ ہم اور وہ موتری بھی، جسے وہ یتیم خانہ کہتے تھے۔ اس کے آنے سے پہلے، ڈائریکٹر نے ہمیں تنبیہہ کی کہ اگر کسی نے بھی منہ کھولا تو اسے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑنا تھا۔ اس کی تقریر سے ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ وہ جو کہہ رہا تھا، وہ اس نے کرکے بھی دکھانا تھا۔

گریس، جب، ہمارے کمرے میں داخل ہوا تو ہم چوہوں کی طرح خاموش اور دبکے ہوئے تھے۔ اس نے ہم سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ہم آگے سے کچھ بھی نہ بو لے۔ ہر لڑکے نے اس سے تحفہ وصول کیا، اس کا شکریہ ادا کیا اور واپس اپنے بستر پر چلا گیا۔ مجھے ایک ڈارٹ بورڈ ملا۔ میں نے جب اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ میرے قریب ہوا۔ میں دبک گیا۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ شاید مجھے مارنے لگا تھا۔ گریس نے پیار سے میرے بالوں کو سہلایا اور بغیر کچھ بولے، میری قمیض اوپر اٹھائی۔ میں ان دنوں میں خاصی بکواس کیا کرتا تھا۔ گریس نے میری کمر پر نظر ڈال کر اس کا اندازہ کر لیا تھا۔ اس نے پہلے تو کچھ نہ کہا، لیکن پھر اس کے منہ سے مسیح کا نام تین چار بار نکلا۔ بالآخر اس نے میری قمیض چھوڑی اور مجھے گلے لگا لیا۔ اور جب اس نے مجھے گلے لگایا تو اس نے یقین دلایا کہ آئندہ کسی نے بھی مجھے ہاتھ نہیں لگانا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ لوگ بلا جواز آپ کے ساتھ اچھی طرح سے پیش نہیں آتے۔ مجھے لگا کہ یہ ایک طرح کا مکر تھا؛ اس نے کسی بھی لمحے اپنی پیٹی اتارنی تھی اور مجھے پیٹنا تھا۔ جتنی دیر اس نے مجھے گلے لگائے رکھا، میں یہ خواہش کرتا رہا کہ وہ وہاں سے چلا جائے۔ وہ چلا گیا اور اسی شام ہمارے یتیم خانے کا سارا عملہ بدل دیا گیا اور ہمیں ایک نیا ڈائریکٹر بھی مل گیا۔ اور تب سے کسی نے بھی مجھے دوبارہ ہاتھ نہ لگایا، سوائے اس سیاہ فام کے، جسے میں نے’جیکسن وِل‘ میں مار بھگایا تھا۔ کیا یہ ایک ایسا کام تھا جسے میں نے بغیر کسی معاوضے کے کیا تھا؟ اس کے بعد تو کسی کی بھی جرأت نہ ہوئی کہ میری طرف انگلی بھی اٹھا سکے۔

میں اس کے بعد پیٹرک گریس سےکبھی نہ مل پایا۔ لیکن میں اس کے بارے میں اخبارات میں بہت کچھ پڑھتا رہا۔ ان لوگوں کے بارے میں، جن کی اس نے مدد کی اور ان سارے اچھے کاموں کے بارے میں، جو وہ کرتا تھا۔ وہ ایک اچھا آدمی تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس سے اچھا انسان کہیں اور نہ تھا۔ وہ اس بد رنگ اور مکروہ دنیا میں واحد آدمی تھا، جس کا میں دین دار تھا۔ اور اب دو گھنٹے بعد ہی مجھے اس سے دوبارہ ملنا ہے۔ اور دو گھنٹے بعد ہی مجھے اس کے سَر میں ایک گولی داغنی ہے۔

میں اکتیس برس کا ہوں۔ میں جب سے اس کام میں پڑا ہوں، مجھے اب تک انتیس ٹھیکے مل چکے ہیں۔ ان میں سے چھبیس کو تو میں ایک ہی ہلّے میں پار کر گیا تھا۔ میں جن کو قتل کرتا ہوں، انہیں جاننے کی کبھی کوشش نہیں کرتا۔ اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں انہیں کیوں مار رہا ہوں۔ دھندا، دھندا ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میں ایک پیشہ ور قاتل ہوں۔ اور کام میں میری ساکھ بہت اچھی ہے۔ اور ایسے پیشے میں، جیسا کہ میرا ہے، اچھی ساکھ ہی اہم ہوتی ہے۔ آپ اخبار میں اشتہار نہیں دیتے یا ایسے لوگوں کے لیے خصوصی بھاﺅ نہیں لگاتے جن کے پاس اچھی مالیت والے کریڈٹ کارڈ ہوں۔ اس دھندے میں آپ تبھی کامیاب ہوتے ہیں جب لوگوں کو آپ پر اعتماد ہو کہ آپ ان کا کام کر دیں گے۔ اسی لیے میری یہ پالیسی ہے کہ میں، اپنے معاہدے سے کبھی نہیں پھرتا۔ جب بھی کوئی بندہ میرا ریکارڈ دیکھتا ہے تو اسے سوائے مطمئن گاہکوں کے اور کچھ نہیں ملتا؛ مطمئن گاہگ اور سخت گیر کھرا پن۔

میں نے کیفے کے بالکل سامنے گلی میں ایک کمرہ کرایے پر لیا اور اس کے مالک کو دو ماہ کا کرایہ پیشگی دیتے ہوئے بتایا کہ میرا باقی کا سامان پیر وار کو پہنچنا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ اسے وہاں پہنچنے میں لگ بھگ آدھا گھنٹہ لگنا تھا، مطلب قتل کرنے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے اپنی بندوق جوڑی اور اس کی انفرا۔ ریڈ روشنی میں اس کا نشانہ بٹھایا۔ چھبیس منٹ ابھی باقی تھے۔ سگریٹ سلگا کر میں اس کوشش میں تھا کہ کسی شے کے بارے میں کچھ نہ سوچوں۔ میں نے سگریٹ پی کر اس کا بچا ہوا ٹکڑا کمرے کے ایک کونے میں پھینکا۔ اس جیسے بندے کو کون مارنا چاہے گا؟ وہ یا تو کوئی جانور ہو سکتا ہے یا کوئی ایسا بندہ جو مکمل طور پر پاگل ہو چکا ہو۔ میں گریس کو جانتا ہوں۔ اس نے مجھے تب گلے لگایا تھا جب میں ابھی بچہ تھا۔ لیکن دھندا تو دھندا ہے۔ ایک بار جب آپ احساسات کو در آنے دیتے ہیں تو سمجھیں دھندے میں آپ کا انت ہو گیا۔ اس کونے سے جہاں سگریٹ کا ٹکڑا گرا، قالین سے دھواں اٹھنے لگا۔ میں بستر سے اٹھا اور سگریٹ کے ٹکڑے کو مسلا۔ ابھی اٹھارہ منٹ باقی تھے۔ اٹھارہ منٹ اور، اور پھر یہ کام ختم ہو جانا تھا۔ مجھے فٹ بال کے بارے میں خیال آیا، ڈین مارینو۔۔۔ 42 ویں اسٹریٹ کی وہ طوائف بھی جو مجھے کار کی اگلی سیٹ پر بٹھا کر فلیتو کرنے لگتی ہے۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ میں کسی بھی شے کے بارے میں نہ سوچوں۔

وہ بالکل وقت پر آیا۔ اس کی اچھل اچھل کر چلنے والی چال اور کندھوں تک لمبے بالوں نے مجھے اس کو پہچاننے میں مدد دی۔ وہ کیفے کے باہر ایک انتہائی روشن جگہ پر پڑی میز کے پاس ایسے بیٹھا کہ اس کا چہرہ بالکل میرے سامنے تھا۔ یہ درمیانی دوری والے نشانہ کے حوالے سے ایک کامل زاویہ تھا۔ اور میں اسے آنکھیں بند کرکے بھی لگا سکتا تھا۔ انفرا۔ ریڈ کا نقطہ اس کے سر کے ایک طرف بائیں سے تھوڑا آگے تھا۔ میں اسے دائیں طرف اس وقت تک موڑتا رہا جب تک وہ بالکل وسط میں نہ پہنچ گیا اور تب میں نے اپنی سانس روک لی۔

اور جب، میرے لیے سب کچھ تیار تھا، ایک بوڑھا آدمی دو تھیلوں میں اپنا متاعِ حیات لیے، گھومتا گھماتا وہاں پہنچا۔۔۔ ایک عام بے گھر بندہ، جن سے یہ شہر بھرا پڑا ہے۔ جیسے ہی وہ کیفے کے سامنے پہنچا، اس کے تھیلوں میں ایک کا دستہ ٹوٹا اور تھیلا نیچے گر گیا اور اس میں موجود سارا کاٹھ کباڑ باہر نکلنے لگا۔ مجھے نظر آیا کہ گریس کے جسم میں ایک تناﺅ آیا اور اس کے منہ کے ایک کونے میں اینٹھن پیدا ہوئی، اور وہ ساتھ ہی بوڑھے کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ فٹ پاتھ پر گھٹنوں کے بل جھکا اور ردی اخبار اور ٹین کے خالی ڈبے اکٹھے کرتے ہوئے تھیلے میں واپس رکھنے لگا۔ میری شِست اس پر بندھی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ اب میرا تھا۔ لال نقطہ اب اس کے ماتھے کے وسط میں یوں چمک رہا تھا جیسے کسی انڈین کے ماتھے پر روغنی ٹیکا لگا ہو۔ یہ چہرہ جو کہ اب میرا تھا، بوڑھے کو دیکھ کر مسکرایا تو اس پر ایک چمک آئی۔ ایسی چمک جو کسی گرجا گھر میں دیوار پر ٹنگی مقدس مذہبی پیشواﺅں کی پینٹنگز میں ان کے چہروں پر ہوتی ہے۔

میں نے شِست سے نظر ہٹائی اور اپنی انگلی کو غور سے دیکھا۔ یہ ٹریگر کی پکڑ پر کانپ رہی تھی۔ یہ نہ صرف باہر بلکہ سُن بھی تھی۔ میں اس انگلی کے ساتھ کام پورا نہیں کر سکتا تھا۔ خود کو دھوکہ دینے کی ضرورت نہیں ، مجھ سے یہ کام ہونا ہی نہ تھا۔ میں نے سیفٹی کیچ لگایا، بولٹ کو واپس دھکیلا اور گولی اپنے چیمبر میں واپس چلی گئی۔

میں بندوق کو اس کے بکسے میں رکھا اور اسے ساتھ لیے کیفے کی طرف بڑھا۔ اب یہ بندوق نہیں تھی، یہ اس کے پانچ بے ضرر حصے تھے۔ میں گیا اور گریس کی میز پر اس کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا اور ایک کافی منگوائی۔ اس نے مجھے فوراً پہچان لیا۔ اس نے مجھے پچھلی بار تب دیکھا تھا جب میں فقط گیارہ برس کا لڑکا تھا لیکن اسے، مجھے پہچاننے میں کوئی دِقت نہ ہوئی۔ اسے میرا نام تک یاد تھا۔ نوٹوں سے بھرا لفافہ میز پر رکھ کر میں نے اسے بتایا کہ کسی نے، اسے قتل کرنے کے لیے میری خدمات کرایے پر لیں تھیں۔ میری کوشش تھی کہ خود کو ٹھنڈا رکھوں اور ایسا ظاہر کروں کہ جیسے میں نے یہ کام کرنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ گریس مسکرایا اور اس نے کہا کہ اسے یہ پتہ تھا۔ اور یہ کہ یہ بندہ وہ خود ہی تھا جس نے لفافے میں مجھے پیسے بھجوائے تھے کیونکہ وہ مرنا چاہتا تھا۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ میں اس سے اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ میں ہکلایا اور پوچھا کہ کیوں؟ کیا اسے کوئی مہلک بیماری لاحق تھی؟ ”بیماری؟“ ،اس نے قہقہہ لگایا۔ ” ہاں، ایک طرح سے۔ تم یہ کہہ سکتے ہو۔“ اس کے منہ کے ایک کونے میں پھر سے اینٹھن ابھری، ویسی ہی جیسی میں کھڑکی میں سے، پہلے بھی دیکھ چکا تھا، اور پھر اس نے بولنا شروع کیا؛

”میں جب بچّہ ہی تھا، یہ بیماری تب سے مجھے لاحق ہے۔ اس کی نشانیاں بہت واضح تھیں، لیکن کسی نے بھی اس کا علاج کرانے کی کوشش نہ کی۔ میں ہمیشہ اپنے کھلونے دوسرے بچّوں کو دے دیتا تھا۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا، میں نے کبھی کوئی شے چرائی نہ تھی۔ مجھے کبھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ اسکول میں لڑائی کے دوران جوابی حملہ کروں۔ مجھے ہر بار یہ پتہ ہوتا کہ میں نے اپنا دوسرا گال ہی آگے کرنا تھا۔ میرے دل کی اچھائی ایک مجبوری کی طرح دن بدن بڑھتی گئی لیکن کوئی بھی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس کے برعکس اگر میں اندر سے برا ہوتا تو وہ مجھے کسی نہ کسی طور اسے کم کرنے پر مائل کرتے یا کچھ اور کرتے۔ وہ اسے ختم کرنے کی بھی کوشش کرتے۔ لیکن جب آپ اچھے ہوتے ہیں ؟۔۔۔ تو ہمارے سماج میں لوگوں کو یہ بات زیادہ راس آتی ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں اسے وصول کرتے رہیں۔۔۔ اور جواب میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے چند تعریفی کلمات کہتے رہیں۔ یوں میری حالت مزید بگڑتی گئی۔ یہ اس حد تک بگڑ گئی کہ میں تسلی سے کھانا بھی نہیں کھا سکتا اور میں ہر نوالہ چبانے کے بعد رُک جاتا اور ڈھونڈتا کہ مجھ سے زیادہ بھوکا کہیں کوئی اور تو نہیں۔۔۔ تاکہ میں اپنا کھانا اس سے بانٹ کر کھا سکوں۔ اور تو اور راتوں میں میرا سونا حرام ہو گیا۔ خود ہی سوچو کہ ایک بندہ، نیو یارک میں رہتے ہوئے سونے کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے، جبکہ اس کے گھر سے ساٹھ فٹ کے فاصلے پر پارک میں، بینچوں پر بیٹھے لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں؟

اس کے منہ کے کونے پر اینٹھن پھر سے چھائی اور اس کا سارا بدن لرز اٹھا۔ ”میں اس طرح زندہ نہیں رہ سکتا، نیند کے بغیر، کھانے کے بغیر، محبت کے بغیر، زندگی کیسے گزر سکتی ہے۔ ایسا بندہ جس کے پاس محبتیں لٹانے کے لیے وقت ہے، جب کہ اس کے گردا گرد بے تحاشہ تکلیفیں ہیں، زبوں حالی ہے؟ یہ ایک برا خواب ہے۔ میرے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرو۔ میں نے تو ایسا کبھی نہیں چاہا تھا۔ یہ تو ایک طرح کا ’ ڈائی بُک‘ ہے، فرق بس اتنا ہے کہ شیطان کی جگہ آپ میں ایک فرشتہ گھس جائے۔ لعنت ہے۔ اگر شیطان مجھ میں گھسا ہوتا تو کسی نہ کسی نے مجھے کب کا ختم کر دینا تھا۔ لیکن یہ فرشتہ پن؟“ گریس نے ہولے سے آہ بھری اور اپنی آنکھیں بند کیں۔

” سنو۔“ ، وہ پھر سے بولنے لگا، ” یہ ساری رقم لو۔ جاﺅ اور کسی چھت یا بالکنی میں جا کر اپنی جگہ سنبھالو اور اپنا کام ختم کرو۔ ظاہر ہے کہ میں یہ کام خود نہیں کر سکتا۔ اور میرے لیے زندہ رہنا ہر آنے والے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مہربانی کرو، اوپر کسی چھت پر جاﺅ اور یہ کام کر دو۔ میں تم سے التجا کرتا ہوں۔“ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ یہ ایک اذیت بھرا چہرہ تھا، ویسے ہی جیسے صلیب پر لٹکے ہوئے مسیح کا ہو۔۔۔۔ بالکل مسیح جیسا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے پتہ ہی نہ تھا کہ میں کیا کہوں۔ میں، جس کے پاس ہمیشہ جواب ہوتا تھا، اقرار لینے والے پادری کے لیے، مئے خانے میں بیٹھی ایک طوائف کے لیے یا کسی وفاقی پلسیے کے لیے، لیکن اس کے لیے؟ میں اس کے سامنے یتیم خانے والا وہی ایک ننھا، ڈرا ہوا بچّہ تھا، جو ہر غیر متوقع حرکت پر دبک جاتا تھا۔ اور وہ ایک اچھا بندہ تھا اور میں اسے کبھی بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔ میں تو اسے مارنے کی کوشش بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میری انگلی نے تو ٹریگر کے گرد لپٹنا ہی نہیں تھا۔

”مسٹر گریس، میں معذرت خواہ ہوں۔“ میں کافی دیر بعد ہولے سے بولا، ” میں یہ نہیں۔۔۔“
” تم مجھے مار بھی نہیں سکتے۔“ ، وہ مسکرایا ، ” چلو ٹھیک ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ تم پہلے نہیں ہو۔ تم سے پہلے بھی دو بندے اور تھے جنہوں نے مجھے لفافہ لوٹا دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب بد دعا کا حصہ ہے۔ تم، یتیم خانہ اور سب۔۔۔ “، اس نے کندھے اچکائے، ” اور میں روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہوں۔ ایسے ہی مجھے خیال آیا تھا کہ شاید تم میری بھلائی کا بدلہ چکا دو گے۔“

”مسٹر گریس، میں معذرت خواہ ہوں۔“ میں نے پھر سے سرگوشی کی۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے، ” کاش کہ میں ایسا کر سکتا۔۔۔“

”اس کا ملال مت کرو۔“ اس نے کہا، ” میں سمجھتا ہوں۔ کچھ نہیں بگڑا۔ چھوڑو دفع کرو۔“، اور جب اس نے مجھے کافی کا بل اٹھاتے دیکھا تو وہ منہ ہی منہ میں مسکرایا۔ ” کافی میرے کھاتے میں، اور میں اس پر اصرار کرتا ہوں، تمہیں پتہ ہی ہے کہ ایسا کرنا ہی تو میری بیماری ہے۔“ مڑا تڑا نوٹ جیب میں واپس رکھتے ہوئے، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چل دیا۔ جب میں چند قدم آگے بڑھ گیا تو اس نے مجھے آواز دی۔ میں اپنی بندوق وہیں بھول گیا تھا۔

میں، دل ہی دل میں خود پر لعنت بھیجتا، اسے لینے واپس گیا اور مجھے لگا جیسے میں اس پیشے میں نووارد ہوں۔

تین دن بعد، ڈیلس میں کوئی سینیٹر میرے ہاتھوں مرا۔ یہ مشکل کام تھا۔ دو سو گز کی دوری، آدھا چھپا آدھا نظر آتا بندہ، اوپر سے ایک طرف کو کھینچتا ہوا کا دباﺅ، پھر بھی وہ فرش پر گرنے سے پہلے مر چکا تھا۔

(ایٹگر کریٹ کا عبرانی افسانہ جس کا ترجمہ قیصر نذیر خاورؔ نے کیا ہے)

رشتے کے تنازع پر ساس کو قتل کرنے پر مجرم کو سزائے موت

0

کراچی: رشتے کے تنازع پر ساس کو قتل کرنے والے مجرم کو عدالت نے سزائے موت دیدی، رشتےدار کو زخمی کرنے پر قید کی سزا بھی سنائی گئی۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج غربی کی عدالت میں مذکورہ کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے رشتے کے تنازع پر ساس کی جان لینے والے شخص کو سزائے موت کا حکم سنایا، رشتےدار کو زخمی کرنے پر مجرم فرید کو 7 سال قید کی بھی سزا سنائی گئی۔

 

10 سالہ بچی سے زیادتی کرنے والے مجرم کو سزائے موت کا حکم

 

علاوہ ازیں مفرور ملزم بشیر احمد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے، مفرور ملزم کی گرفتاری سے متعلق ہر 15 روز بعد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

2018 میں 2 افراد نے ساس کو قتل کیا تھا، مقتولہ کے بھائی نے پیرآباد تھانے میں مذکورہ قتل کا مقدمہ درج کرایا تھا۔

سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے والے 4 افراد کو سزائے موت

امداد روکنے پر حماس نے اسرائیل کو خبردار کر دیا

0

حماس نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی جانب سے بھیجی گئی امداد کو روکنے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

خبر ایجنسی کے مطابق حماس کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی غزہ کو امداد کی فراہمی میں تاخیر سے یرغمالیوں کی رہائی متاثر ہو سکتی ہے اسرائیل غزہ کو امداد کی فراہمی میں جان بوجھ رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

حماس اب تک 7 اسرائیلیوں کو رہا کر چکا ہے جن کے بدلے 290 فلسطینی رہا ہوئے ہیں۔ حماس کی جانب سے مزید 3 اسرائیلی شہریوں کو کل رہا کیے جانے کا امکان ہے۔

دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امدادی کاموں میں مصروف انروا پر پابندی کی امریکا نے حمایت کر دی ہے، یو این میں امریکی نمائندے نے کہا انروا اسرائیلی پابندی کے اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے، اس لیے امریکا اسرائیل کے انروا کو بند کرنے کے فیصلے کی حمایت کرتا ہے۔

الجزیرہ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے صحافیوں کو بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ کے نئے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی نے پتا چلایا ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کے تقریباً 50 ملین ڈالرز کی فنڈنگ سے غزہ میں مانع حمل اشیا بھیجی گئی ہیں۔

کیرولین لیویٹ نے یہ دعویٰ منگل کے روز ایک نیوز کانفرنس میں کیا، جو کہ دنیا بھر میں امدادی پروگراموں کے لیے امریکی فنڈنگ ​​کو روکے جانے کے حق میں کی گئی تھی، انھوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی فنڈنگ ​​میں بھی کٹوتی کی جائے گی۔

تاہم، دوسری طرف امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کی ’مانع حمل فنڈنگ‘ سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے 2023 کے لیے پورے مشرق وسطیٰ میں کوئی ’کنڈوم فنڈ‘ جاری نہیں کیا۔

یو ایس ایڈ کی جانب سے ستمبر 2024 کی ایک میڈیا ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے لیے 336 ملین ڈالر کی انسانی امداد کیسے خرچ کی جائے گی، اور اس میں مانع حمل یا خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

چیمپئنزٹرافی ٹکٹس کی چند گھنٹوں میں فروخت، پی سی بی کا اہم بیان آگیا

0

لاہور: آئی سی سی چیمپیئنزٹرافی 2025 کے ٹکٹس آن لائن فروخت کیلئے پیش کیے گئے، پاکستان سمیت متعدد ٹیموں کے میچز کے ٹکٹ مکمل فروخت ہوگئے۔

تفصیلات کے مطابق پہلےمرحلےمیں 30 فیصد ٹکٹس آن لائن فروخت کےلیے پیش کیے گئے، پاکستان، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، انگلینڈ اور بنگلادیش کے میچز کے ٹکٹس مکمل فروخت ہوگئے، ایونٹ کا پہلا میچ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان 19 فروری کو کراچی میں ہوگا۔

آسٹریلیا اور انگلینڈ کا میچ 22 فروری کو لاہور میں ہوگا، پاکستان اور بنگلادیش کا میچ 27 فروری کو راولپنڈی میں شیڈول ہے۔

چیمپئنز ٹرافی کے ٹکٹ فروخت کرنے والی ویب سائٹ کریش کر گئی!

دوسرے مرحلے میں چیمپئنزٹرافی 2025 کے فزیکل ٹکٹس 3 فروری سے فروخت ہوں گے، پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ ٹکٹوں کی فروخت پر عوامی ردعمل خوش آئند ہے۔

پی سی بی نے کہا کہ چند گھنٹوں میں ٹکٹس کی فروخت شائقین کی دلچسپی کی عکاس ہے، پاکستانی شائقین اپنی ٹیم کیساتھ کھڑےہیں جو اچھی خبر ہے، زیادہ سے زیادہ تماشائیوں کو میچز دکھانے کی سہولت فراہم کریں گے۔

احمد الشرع نے روس کو بڑی پیشکش کر دی

0

شام کے نئے سربراہ احمد الشرع نے بشارالاسد کی حوالگی کے بدلے روس کو شام میں اڈے برقرار رکھنے کی پیشکش کر دی۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کی نئی قیادت سے نئے تعلقات کیلئے روس کے وفد نے شام کا دورہ کیا ہے۔ روس کے اعلیٰ سطح کے وفد نے شام کے نئے سربراہ احمدالشرع سے ملاقات لہ۔

خبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ ملاقات میں شامی سربراہ نے فرار ہونے والے صدربشارالاسد کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہوئے بشارالاسد کے بدلے روسی اڈے برقرار رکھنے کی پیشکش کی۔

پیشکش میں کہا گیا کہ روس شام میں فوجی اڈے برقرار رکھ سکتا ہے اگر بشارالاسد کو حوالے کرے۔ احمدالشرع نےروس سےاڈوں کےبدلےشام کی تعمیرنو میں کردار کا بھی مطالبہ کیا۔

دوسری جانب ہفتہ وارپریس بریفنگ میں کریملن کے ترجمان کا بشارالاسد کی حوالگی پرجواب سےگریز کیا ہے۔

دوسری جانب فرانس کا کہنا ہے کہ یورپی یونین بشار حکومت کے خاتمے کے بعد شام پر عائد کچھ پابندیاں اٹھا لے گی۔

فرانس کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ شام پر یورپی یونین کی بعض پابندیاں دسمبر میں صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد دمشق کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے یورپی یونین کے وسیع تر اقدام کے حصے کے طور پر ہٹا دی جائیں گی۔

فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نوئل نے کہا کہ شام کے حوالے سے ہم آج توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں اور مالیاتی اداروں پر عائد بعض پابندیوں کو ہٹانے یا معطل کرنے کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔

پہلے مجھ میں تنقید کی برداشت بہت کم تھی مگر اب بڑھ گئی ہے، علی امین گنڈاپور

0
پہلے مجھ میں تنقید کی برداشت بہت کم تھی مگر اب بڑھ گئی ہے، علی امین گنڈاپور

پشاور: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ پہلے مجھ میں تنقید کی برداشت بہت کم تھی لیکن وقت کے ساتھ اب بڑھ گئی ہے۔

پریس کلب کابینہ کی حلف برداری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ صحافت ایک بہت ہی ذمہ داری والا شعبہ ہے، جب سے ہماری حکومت آئی ہے صحافی برادری کو اپنا بھائی سمجھا ہے، ہم نے صحافی بھائیوں کو میرٹ پر گرانٹ دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور کے استعفے سے متعلق پارٹی کا اہم فیصلہ

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ میں پیچھے کی طرف جانے پر فوکس نہیں کرتا آگے جاتا ہوں، غلطی سے سیکھنے والا عقل مند آدمی ہوتا ہے، رائے قائم کرنے سے پہلے انسان کو سوچنا چاہیے، جو سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں ان کی بات پر سوالیہ نشان نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا تھا کہ اپنی ساکھ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا، ہم نے بہت لڑائیاں کی ہیں اس کا انجام بھی دیکھا ہے۔

وزیر اعلیٰ کے پی نے مزید کہا کہ جب صوبوں کا موازنہ نہیں ہوگا تو پتا نہیں چلے گا کون کیا کر رہا ہے؟ صحافیوں سے کہتا ہوں چینل پر صوبوں کی کارکردگی سے متعلق پروگرام رکھیں، ایک شخص ہر صوبے سے آئے اور پوچھیں جس بندے کو ووٹ دیا وہ کام کیا کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست عبادت ہے لیکن آج اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ صرف کرپشن ہے، صحافت کو حق اور سچ کیلیے استعمال کرنا چاہیے اپنی ذات کیلیے نہیں، ہم نے اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے اور بہتری لانی ہے۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ معیار کو قائم کرنے کیلیے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے، خیبر پختونخوا حکومت نے 49 فیصد ریونیو بڑھایا ہے۔

کراچی: ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث گروہ سرجانی ٹاؤن سے گرفتار

0

کراچی: ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث 5 رکنی گروہ کو سرجانی ٹاؤن سے گرفتار کرلیا گیا، ملزمان ٹھکانے پر لوگوں سے چھینا گیا سامان رکھ رہے تھے۔

تفصیلات کے مطابق کراچی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 5 ڈکیتوں کو گرفتار کیا ہے، ملزمان گبول گوٹھ میں چوری اور چھینے گئے سامان رکھ رہےتھے، ایس ایس پی طارق الہیٰ مستوئی نے بتایا کہ پولیس موقع پر پہنچی تو ملزمان نے فائرنگ کی۔

ایس ایس پی نے کہا کہ پولیس کی جوابی فائرنگ کے بعد 5 ملزمان گرفتار ہوگئے جبکہ 3 فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، ملزمان سے چھینی گئی موٹرسائیکلیں، موبائل فون اور اسلحہ برآمد کرلیا گیا ہے۔

کراچی پولیس چیف کا زمینوں پر قبضوں میں کمی کا دعویٰ

ملزمان موٹر سائیکلوں کے نمبر تبدیل کرکے فروخت کردیا کرتے تھے، ملزمان موبائل فون کو بلوچستان میں فروخت کرتے تھے۔

ایس ایس پی نے بتایا کہ گرفتار ملزمان کا گینگ کراچی سے بلوچستان تک آپریٹ کرتا ہے، گرفتار ملزمان میں انصار علی عرف جعلی پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔

سوڈان میں طیارہ گرنے سے متعدد افراد ہلاک

0
بر

جنوبی سوڈان میں طیارہ گرنے سے کم از کم 20 افراد ہلاک ہو گئے۔

یونٹی اسٹیٹ کے وزیر اطلاعات نے بتایا کہ جنوبی سوڈان کے شمال میں ایک طیارے کے حادثے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

یہ طیارہ بدھ کو دارالحکومت جوبا کے لیے ٹیک آف کرنے کے فوراً بعد صبح 10:30 بجے (08:30 GMT) یونٹی اسٹیٹ میں آئل فیلڈز کے قریب گرا۔

حکام نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ طیارہ ہوائی اڈے سے 500 میٹر کے فاصلے پر گر کر تباہ ہوا جس میں 21 افراد سوار تھے جس میں سے صرف ایک کے زندہ بچنے کی اطلاعات ہیں۔

وزیر نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والا شخص جنوبی سوڈانی انجینئر ہے جو آئل فیلڈ میں کام کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ طیارہ گریٹر پاینیر آپریٹنگ کمپنی (GPOC) کی طرف سے چارٹرڈ اور لائٹ ایئر سروسز ایوی ایشن کمپنی کے ذریعے چلایا جاتا ہے جو علاقے میں معمول کے مشن پر تھا۔

کراچی پولیس چیف کا زمینوں پر قبضوں میں کمی کا دعویٰ

0
کراچی پولیس چیف کا زمینوں پر قبضوں میں کمی کا دعویٰ

کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے زمینوں پر قبضوں کے واقعات میں کمی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2023 کے مقابلے میں زمینوں پر قبضے کی کم شکایات ملی ہیں۔

جاوید عالم اوڈھو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 2024 میں زمینوں پر قبضے اور تجاوزات کی شرح میں کمی ہوئی، قبضے و دیگر معاملات پر پولیس افسران پر بھی مقدمات ہوئے اور سزائیں ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس میں جرائم سے متعلق زیر وٹالیرنس ہے، یہ نہیں کہتا کہ آباد نے جھوٹی شکایات لگائی ہیں، قبضے کی آباد کی شکایات کسی خاص بلڈر سے متعلق ہو سکتی ہے۔

’2024 میں زمینوں پر قبضے کی شکایات جلد منظر عام پر لاؤں گا۔ لینڈ گریبنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ محکمہ پولیس میں جتنی سزائیں ہیں کہیں اور نہیں۔ پولیس حکومت کا ذیلی شعبہ ہے لیکن کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے۔‘

اگست 2024 میں سندھ میں 24 ہزار ایکڑ جنگلات کی زمین پر بااثر شخصیات کے قبضے کا انکشاف ہوا تھا۔

کراچی میں ایک شہری علی نواز انڑ نے سندھ ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ گمبٹ سوبھودیرو میں جنگلات کی 24 ہزار ایکڑ زمین پر با اثر شخصیات کا قبضہ ہے۔

سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ جنگلات و دیگر کو نوٹس جاری کر دیے تھے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکریٹری قانون اور جنگلات سے رپورٹ بھی طلب کر لی تھی اور کہا تھا کہ اگر آئندہ سماعت تک پیش رفت نہ ہوئی تو احکامات جاری کریں گے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ بااثر شخصیات جنگلات کی زمین پر کاشت کاری کر کے لاکھوں کما رہے ہیں۔

سیکریٹری جنگلات اینڈ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ عدالت میں پیش ہوئے تھے اور کاربن کریڈٹ کی مد میں غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے ملنے والے فنڈز کی رپورٹ پیش کی گئی تھی۔

عدالت نے سیکریٹری جنگلات کو زمینوں پر قبضے ختم کرانے کیلیے تمام اقدامات کی ہدایت کی تھی۔

عدالت نے کہا تھا کہ جنگلات کی زمینوں سے قبضہ ختم کرانے کیلیے رینجرز اور سیشن جج کی مدد لی جائے، کے پی اور پنجاب میں جنگلات کی زمین کی حفاظت کے لیے فورس موجود ہے۔

سیکریٹری جنگلات نے عدالت کو بتایا تھا کہ قانون میں ترمیم کر کے جنگلات کی حفاظت کیلیے فورس بنائی جا رہی ہے۔

پسند کی شادی کرنے والا فیکٹری چوکیدار قتل

0
چوکیدار قتل

کراچی: ڈیڑھ سال قبل اپنی رشتہ دار سے بھاگ کر پسند کی شادی کرنے والے فیکٹری چوکیدار کو قتل کردیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ 19 سالہ عمران منگھو پیر کی فیکٹری میں چوکیدار تھا، مقتول بنارس کا رہائشی ہے جس کا آبائی تعلق خیبرپختونخوا سے تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان نے سال سے بند ماربل فیکٹری میں گھس کر چوکیدار کو قتل کیا، مقتول  نے ڈیڑھ سال قبل اپنی رشتہ دار سے بھاگ کر شادی کی تھی۔

پولیس کا مزید کہنا ہے کہ ڈیڑھ سال قبل عمران کے بھائی کو بھی قتل کیا گیا تھا، عمران کا قتل ذاتی رنجش کا شاخسانہ لگتا ہے، واقعے کی تفتیش جاری ہے۔

15 سالہ ٹک ٹاکر لڑکی کا قتل ، قاتل کون نکلا؟

دوسری جانب کوئٹہ میں منع کرنے کے باوجود ٹک ٹاک ویڈیو بنانے پر 15 سالہ لڑکی حرا کو باپ اور ماموں نے قتل کردیا، بلوچی اسٹریٹ کے رہائشی انوار الحق نے بیٹی کو ماموں سے فائرنگ کرواکر قتل کیا۔

پولیس نے لڑکی کے باپ اور ماموں کو گرفتار کرلیا اور دوران تفتیش ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا ہے، پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے کیس سیریس کرائم انویسٹگیشن وونگ کے حوالے کردیا ہے۔