پیر, جون 23, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 2277

ویڈیو: رضوان نے جو کہا وہ کر دکھایا!

0

قومی ٹیم کے نئے کپتان محمد رضوان نے جو کہا وہ کر دکھایا۔

اعتماد ہو تو محمد رضوان جیسا! دورہِ آسڑیلیا پر جانے سے پہلے محمد رضوان نے کہا تھا کہ آسٹریلیا میں کافی عرصے سے نہیں جیتے مگر اس کامطلب یہ نہیں کبھی نہیں جیت سکتے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں واضح پیغام دیا گیا تھا کہ ہمیں لڑنا ہے سینئرز اور نئے ٹیلنٹ کے ساتھ ٹیم نے جان لڑانی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج تک ہم نے آسٹریلیا کو ان کی سرزمین پر نہیں ہرایا تو ہمیشہ ایسا نہیں ہو گا، چیزیں تبدیل ہوں گی اور ہم تاریخ بنائیں گے۔

پاکستان نے آسٹریلیا کو 22 سال بعد اسی کی سر زمین پر ون ڈے سیریز ہرا دی کپتان محمد رضوان نے اس فتح کا کریڈٹ پوری ٹیم کو دیا ہے۔

واضح رہے کہ محمد رضوان کا وائٹ بال کپتان مقرر ہونے کے بعد پہلا اسائنمنٹ دورہ آسٹریلیا ہے۔ کینگروز کے دیس آنے سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ آسٹریلیا میں کافی عرصے سے نہیں جیتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کبھی نہیں جیت سکتے۔

رضوان نے جو کہا وہ کر دکھایا اور سیریز میں دو صفر سے فتح اپنے نام کی۔ اب ان کا دوسرا امتحان تین ٹی 20 میچوں کی سیریز ہے جس کا آغاز 14 نومبر سے ہوگا۔

پہلا میچ برسبین میں 14 نومبر کو، دوسرا میچ سڈنی میں 16 نومبر جب کہ تیسرا اور آخری میچ ہوبارٹ میں 18 نومبر کو کھیلا جائے گا۔ تینوں میچز پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے شروع ہوں گے۔

فلم ’عشق‘ کے سیکوئل سے متعلق عامر خان اور اجے دیوگن نے دل کی بات بتا دی

0
فلم ’عشق‘ کے سیکوئل سے متعلق عامر خان اور اجے دیوگن نے دل کی بات بتا دی

ممبئی: معروف بالی وڈ اسٹارز عامر خان اور اجے دیوگن نے فلم ’عشق‘ کے سیکوئل کیلیے دوبارہ سے ایک ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق عامر خان اور اجے دیوگن نے فلم ’تیرا یار ہوں میں‘ کی تشہیر سے متعلق تقریب میں شرکت کی جس میں فلمساز اندرا کمار کے بیٹے امان ایکٹنگ ڈیبیو کرنے والے ہیں۔

اس موقع پر عامر خان نے کہا کہ جب بھی میں اجے دیوگن سے ملتا ہوں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے، ہماری ملاقات اکثر نہیں ہوتی لیکن جب بھی ہم ملتے ہیں تو بہت گرمجوشی اور پیار سے ملتے ہیں، مجھے۔

اجے دیوگن نے کہا کہ عامر خان کے ساتھ فلم ’عشق‘ میں کام کرتے ہوئے اچھا وقت گزرا، فلم کی ہدایت کاری اندرا کمار نے کی تھی اور اس میں کاجول اور جوہی چاولہ بھی مرکزی کردار میں تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ’عشق‘ کے سیٹ پر بہت مزہ کیا، ہمیں ایک بار پھر ساتھ میں کام کرنا چاہیے۔ اس پر عامر خان بولے کہ ہاں ہمیں کرنا چاہیے۔

اپنی گفتگو میں عامر خان نے بتایا کہ کس طرح اجے دیوگن نے انہیں بچایا جب شوٹنگ کے دوران ایک بندر نے حملہ کیا تھا۔

اس پر اجے دیوگن نے کہا کہ یہ سب عامر کی وجہ سے ہوا تھا کیونکہ وہ بندر پر پانی پھینک رہا تھا اور پھر لڑکی کی طرح ’بچاؤ بچاؤ‘ چلاتے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگا۔

تقریب میں دونوں فلم اسٹارز نے ’تیرا یار ہوں میں‘ میں امان کیلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

امید اور توقعات…

0

امید اور ناامیدی، توقعات اور ان کے پورے ہونے پر خوشی یا مراد پوری نہ ہونے پر رنجیدہ ہونا انسان کی فطرت ہے اور یہ وہ موضوع ہے جو آج بھی ہم مختلف کتابوں اور ویڈیوز کی شکل میں پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن یہ قدیم طرزِ انشا میں ایک خوب صورت مضمون ہے جس کے مصنّف ماسٹر رام چندر ہیں۔

ماسٹر رام چندر متحدہ ہندوستان کے برطانوی راج کے ایک عالم فاضل، مدرس اور قابل مضمون نگار تھے۔ مضمون ملاحظہ کیجیے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مدار کار خانۂ عالم کا امید و توقع کے ساتھ مربوط ہے۔ کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں پایا جاتا کہ جو امید و توقع سے خالی ہو۔ کوئی شخص یہ توقع کرتا ہے کہ مجھے دار عقبیٰ میں یہ یہ نعمتیں اور خوشیاں حاصل ہوں گی اور واسطے کامیابی کے اپنے اوقات کو عبادت حق تعالیٰ میں صرف کرتا ہے۔ کسی کو یہ امید ہے کہ مجھے دنیا میں یہ اسباب خوشی اور راحت کے نصیب ہوں گے اور وہ واسطے ان مطالب کے مساعی ہے۔

ہم خاصہ طبیعتِ انسانی کا دیکھتے ہیں کہ اسے امید و توقع میں بڑی خوشی رہتی ہے اور وہ اس امید میں اپنے نفس پر بڑی تکالیف اور محنتیں اختیار کرتا ہے۔ جن لوگوں کو یہ آرزو ہوتی ہے کہ ہم نیک نامی حاصل کریں اور مراتبِ عالیہ کو پہنچیں، وہ اپنے تئیں بڑی بڑی مہلکہ مصائب میں ڈالتے ہیں اور ان مصیبتوں کو راحت خیال کرتے ہیں۔ جن لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم بہت سا روپیہ اور عزت حاصل کریں وہ بڑے بڑے دور دراز ملکوں کا سفر اختیار کرتے ہیں اور اپنے نفس پر جبر کر کے محنت سے منھ نہیں پھیرتے۔

اگر سکندر فتوحِ ممالک کی کوشش، نہ توقع کرتا تو وہ سفر بحری اور بری نہ اختیار کرتا اور سرحد ہندوستان تک نہ پہنچتا۔ بعضے لوگوں کا ہم یہ حال دیکھتے ہیں کہ جب ان کو امید کی طرف سے مایوسی ہوجاتی ہے تو اپنی زندگانی کو تلف کر دیتے ہیں اور اپنے تئیں اپنے ہاتھ سے ہلاک کرتے ہیں۔ اہلِ خطا کا تاریخوں میں یہ حال دیکھا ہے کہ وہاں کے لوگوں میں یہ رسم ہے کہ جب ان پر فقر وفاقہ گزرتا ہے اور صفائی و عیش سے مایوسی ہو جاتی ہے یا اور کسی طرح کی مصیبت آتی ہے تو وہ اپنے تئیں ہلاک کرتے ہیں۔ اس طرح جب ان میں سے کسی کے ہاں اس حال میں لڑکا پیدا ہوتا ہے، وہ پہلے پہلے اس کی زندگانی سے مایوس ہو کر اس کو راستے میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر اس کو کسی نے وہاں سے اٹھایا تو اس کی جان باقی رہی، وگرنہ ہاتھی یا گھوڑوں کے پاؤں کے تلے دب کر مر جاتے ہیں۔

واقعی میں آدمی کے تئیں ایسا نہ چاہیے کہ تھوڑی سی مایوسی کے ساتھ اپنی جان کو تلف کردے۔ حقیقت میں دنیا جگہ آزمائش کی ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے صبر اور محنت کا امتحان کرتا ہے۔ مرد وہ ہے کہ مصیبت پر صبر کرے اور جو کچھ اس پر گزرے تحمل کرے، نہ یہ کہ اس کا متحمل نہ ہوکر اپنے تئیں ہلاک کر دے۔ جس شخص نے حال فرہاد کوہکن کا دیکھا ہوگا اس پر شہادت اس امر کی روشن ہوگی کہ اس کی جان کھونے کا یہی باعث ہوا کہ جب وہ کوہِ بے ستوں کو کاٹ چکا، اور اس کی امید بر آنے میں ایک دو دن کا عرصہ باقی رہا تو خسرو نے از راہ فریب ایک عورت کے ہاتھ یہ کہلا بھیجا کہ شیریں کا وصال ہوا۔ جب اس نے یہ خبر سنی تو وہ وصال شیریں سے مایوس ہوگیا اور اپنے سر میں تیشہ مار کے مر گیا۔

آدمی کے تئیں چاہئے کہ اس طرح کی امیدیں نہ کرے کہ جو اس کی نسبت محال اور غیر ممکن معلوم ہوتی ہوں۔ اس طرح کی امید کو خبط سمجھنا چاہئے۔ آدمی وہ امیدیں کرے جو جلدی حاصل ہو جاویں اور اس کی سعی اور کوشش اس میں بیکار نہ ہو۔ بعضے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بڑے ذی اقتداروں کا حال دیکھ کر یہ جانتے ہیں کہ ہمارے تئیں بھی یہی حاصل ہو۔ جب وہ ان کے عیش و عشرت اور کامیابی مقاصد کو دیکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ہمارے تئیں بھی یہ نعمتیں اور یہی حکومت اور اختیار حاصل ہو جاوے۔ حالانکہ وہ ہنر سے بے بہرہ اور کوشش سے بیزار ہیں۔ گھر بیٹھے چاہتے ہیں کہ ہم کو ملک دنیا کا مل جاوے۔ پس اس صورت میں سوائے رنج و الم اور کیا انہیں حاصل ہو سکتا ہے۔

بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کہیں سے مدفون خزانہ ہمارے ہاتھ لگ جاوے تو بہت خوب ہے اور خوب چین سے زندگی گزرے۔ اب دیکھو پانا خزانے کا کیسی بعید بات ہے اور شاید اس طرح دولت کسی بشر کو نصیب ہوتی ہوگی۔ بعض لوگ بتوقع کیمیاء کی اپنی بہت سی دولت اور روپیہ پھونک دیتے ہیں۔ کیمیاء بنانی تو نہیں آتی مگر اور گھر کے نقد کو بھی کھو دیتے ہیں اور اسی توقع میں مر جاتے ہیں۔

امریکا نے اسرائیل کو بلڈوزر کی ترسیل روک دی

0
اسرائیل کا ایران پر جوابی حملے سے متعلق اہم بیان

امریکا نے اسرائیل کو بلڈوزر کی ترسیل ’منجمد‘ کر دی۔

اسرائیلی اخبار Yedioth Ahronoth کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے غزہ کی پٹی میں گھروں کی مسماری کے دوران اسرائیل کو 130 بلڈوزر کی فراہمی کو منجمد کر دیا ہے۔

روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت دفاع نے ڈی 9 بلڈوزر خریدنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جو کیٹرپلر کی طرف سے تیار کردہ ہیوی ڈیوٹی تعمیراتی آلات کی ایک قسم ہے۔

اس کے مطابق، بلڈوزر کا مقصد بنیادی طور پر غزہ کی پٹی میں ڈھانچے کو تباہ کرنا تھا جس کی وجہ سے امریکا میں اہم اندرونی تنقید ہوئی جس کے نتیجے میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پر شدید دباؤ پڑا اور نتیجے میں ترسیل روک دی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت غزہ میں اسرائیلی فوج کے زیر استعمال کئی موجودہ D9 بلڈوزر کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔

اے نیّر: وہ خوب صورت آواز جو آج بھی ہماری سماعتوں میں‌ رس گھول رہی ہے

0
اے نیر

برصغیر بالخصوص پاک و ہند میں‌ثقافتی و تہذیبی مشغلوں میں موسیقی اور گلوکاری نمایاں اور اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ کلاسیکی گائیکی، غزل اور فلمی گیتوں کی بات کی جائے متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد کئی نام لیے جاسکتے ہیں جن کی سحر انگیز آواز نے کئی نسلوں‌ کو متاثر کیا اور آج بھی ان کو بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔ اے نیّر پاکستان کے انہی گلوکاروں میں سے ایک تھے۔

فلموں‌ کے پسِ پردہ گلوکار کے طور پر اے نیّر کا نام ہمیشہ بہترین گلوکاروں میں لیا جائے گا۔ انھوں نے فلموں کے علاوہ ٹیلی ویژن کے لیے کئی لازوال گیت اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔ اے نیّر 11 نومبر 2016ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

70ء کی دہائی میں بطور پلے بیک سنگر اے نیّر نے بڑی شہرت اور نام پایا۔ وہ غزل گائیکی کے بھی ماہر تھے۔ وہ ان فن کاروں میں‌ شامل ہیں‌ کہ جو کیریئر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی کام یابیوں‌ کا سفر طے کرلیتے ہیں۔ 1974ء میں اے نیر نے فلم ”بہشت‘‘ کے لیے پہلا گیت گایا اور راتوں رات مشہور ہوگئے۔

گلوکار اے نیر 17 ستمبر 1950ء کو ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آرتھر نیر تھا۔ فن کی دنیا میں انھوں نے اے نیّر کے نام سے شہرت پائی۔ انھیں بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا، لیکن وہ جس گھرانے کے فرد تھے وہاں‌ یہ سب معیوب بھی سمجھا جاتا تھا اور اے نیر کو بڑوں کی مخالفت کا ڈر تھا۔ اس لیے وہ چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے تھے۔ انھیں‌ سن کر خود بھی اسی طرح گانے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن پھر یہ ڈر اور مخالفت بہت پیچھے رہ گئی اور اے نیّر پاکستان کی فلم انڈسٹری کے مصروف گلوکار بن گئے۔

گلوکار کا پہلا فلمی گیت ”یونہی دن کٹ جائیں، یونہی شام ڈھل جائے‘‘ تھا جس میں‌ گلوکارہ روبینہ بدر نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ 1974ء میں بہشت ریلیز ہوئی اور یہ گانا بہت مقبول ہوا۔ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم ”خریدار‘‘ کا تھا جس کے بول تھے، ”پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔‘‘

اے نیّر نے اپنے دور کے نامور موسیقاروں کریم شہاب الدین، نثار بزمی، اے حمید، ایم اشرف، نوشاد اور ماسٹر عنایت حسین کے ساتھ کام کیا۔ ان کے گائے ہوئے کئی گیت اداکار ندیم اور وحید مراد پر عکس بند ہوئے اور اے نیّر نے تقریباً 80 فلموں کے لیے اپنی آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔ 1980 میں اے نیّر اپنے کریئر کے عروج پر تھے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن پر ان کے گائے ہوئے گیت روز نشر ہوا کرتے تھے۔ اے نیّر کے دیگر مقبول گیتوں میں ”بینا تیرا نام‘‘، ” یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا‘‘، ”ایک بات کہوں دلدارا‘‘، ”میں تو جلا ایسا جیون بھر‘‘، ”جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے‘‘ شامل ہیں۔ انھیں پانچ مرتبہ نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ یہ اے نیّر کے مقبول ترین گیت ہیں‌ جنھیں‌ آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔

اے نیّر مشہور گلوکار احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے۔ اے نیّر کی سریلی آواز پاکستانی فلم انڈسٹری اور دنیا بھر میں‌ موجود فن و ثقافت کے دلدادہ اور باذوق سامعین کبھی فراموش نہیں کرسکیں‌ گے۔

پی ٹی آئی کا امن کی بحالی کیلیے جامع پالیسی بنانے کا مطالبہ

0
صدر پی ٹی آئی کے پی جنید اکبر

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وفاقی حکومت سے ملک میں امن کی بحالی کیلیے جامع پالیسی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مرکزی رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ روز بلوچستان میں افسوسناک واقعہ ہوا، کیا حکومت ان واقعات کو روکنے کیلیے مؤثر پالیسی بنا رہی ہے؟

اسد قیصر نے کہا کہ مطالبہ کرتا ہوں ملک میں امن و امان کی بحالی کیلیے جامع پلان بنایا جائے، تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے متفقہ فیصلے کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کی جائیں، نوجوانوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے، تمام قیادت ان کی رہنمائی کرے، ہمیں امن، روزگار، ترقی اور خوشحالی کی ضرورت ہے۔

گزشتہ روز بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ریلوے اسٹیشن پر خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں 26 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوگئے۔

کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے دعویٰ کیا کہ ریلوے اسٹیشن پر ان کے خودکش بمبار نے دھماکا کیا۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر دھماکا خودکش تھا اور حملہ آور نے سات سے آٹھ کلو دھماکا خیز مواد جسم سے باندھ رکھا تھا۔

ویڈیو: خواجہ آصف نے بھکاری خواتین کی سرزنش کر دی

0
ویڈیو: خواجہ آصف نے بھکاری خواتین کی سرزنش کر دی

سیالکوٹ: وزیر دفاع خواجہ آصف نے سڑک پر بھکاری خواتین کی سرزنش کر دی جس کی ویڈیو اے آر وائی نیوز کو موصول ہوئی ہے۔

خواجہ آصف سیالکوٹ کے پیرس روڈ سے گزر رہے تھے کہ اس دوران کچھ بھکاری خواتین ان کی گاڑی کے پاس جمع ہوگئیں اور بھیک مانگی۔

اس پر خواجہ آصف نے ان کی سرزنش کی اور کہا کہ ’کچھ شرم اور حیا کریں۔ آپ کے مرد نہیں جو بھیک مانگ رہی ہو‘۔

قبل ازیں، وزیر دفاع نے نجی کرکٹ اکیڈمی کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی جہاں انہوں نے خطاب میں کہا کہ اسپورٹس کمپلیکس میں سہولتیں میسر ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے 2 کروڑ روپے لگا کر کشمیر پارک بنوایا، سیالکوٹ کا ہاکی اور کرکٹ میں بڑا نام ہے، ہم سیاستدان اتنی سیاست نہیں کرتے جتنی ہاکی میں ہے۔

یوکرین کا روس پر اب تک کا سب سے بڑا ڈرون حملہ

0
یوکرین کا روس پر اب تک کا سب سے بڑا ڈرون حملہ

یوکرین نے روس کے دارالحکومت ماسکو پر 34 ڈرونز سے حملہ کر دیا جو اس جنگ کے 2022 سے آغاز کے بعد سے سب سے بڑا ڈرون حملہ ہے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق روسی وزارت دفاع نے بتایا کہ اس کے دفاعی نطام نے تین گھنٹوں کے دوران ملک کے مغربی حملے و دیگر علاقوں پر مزید 36 ڈرونز حملے ناکام بنائے۔

روسی وزارت نے بتایا کہ یوکرینی حکومت کی طرف سے روس کی سرزمین پر ہوائی جہاز کی قسم کے ڈرون کا استعمال کرتے ہوئے دہشتگردانہ حملہ کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔

روسی فیڈرل ایئر ٹرانسپورٹ ایجنسی کے مطابق ڈومودیدوو، شیریمیٹیوو اور زوکووسکی کے ہوائی اڈوں نے ڈرون حملے کے بعد 36 پروازوں کا رُخ تبدیل کیا تاہم بعد میں فضائی آپریشن دوبارہ بحال کر دیا گیا۔

یوکرین کے ڈرون حملے میں ماسکو کے علاقے میں ایک شخص کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

ماسکو اور اس کے آس پاس کا علاقے کی آبادی لگ بھگ 21 ملین ہے اور یہ ترکیہ کے استنبول کے ساتھ یورپ کے سب سے بڑے میٹروپولیٹن علاقوں میں سے ایک ہے۔

یوکرین نے بتایا کہ روس نے 145 ڈرون حملے کیے جس جن میں سے 62 کو مار گرا دیا، اس نے روس کے برائنسک علاقے میں ایک اسلحہ خانے پر 14 ڈرون سے حملہ کیا۔

روسی ٹیلیگرام چینلز پر پوسٹ کی گئی غیر تصدیق شدہ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ آسمان پر ڈرون نظر آ رہے ہیں۔

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ روس یوکرین جنگ 24 گھنٹے کے اندر ختم کروا سکتے ہیں، لیکن یہ سب کیے ہوگا اس کی تفصیلات انہوں نے نہیں بتائی تھیں۔

جب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی صدارتی انتخاب میں کامیابی پر مبارکباد دینے کیلیے فون کیا تو ٹیسلا کے سی ای او اور ٹرمپ کے حامی ایلون مسک بھی کال میں شامل ہوئے۔

کراچی: تھانے میں خاتون کیساتھ ٹک ٹاک ویڈیو بنانا پولیس افسر کو مہنگا پڑ گیا

0
کراچی: تھانے میں خاتون کیساتھ ٹک ٹاک ویڈیو بنانا پولیس افسر کو مہنگا پڑ گیا

کراچی کے تھانہ کورنگی انڈسٹریل ایریا کے اندر خاتون کے ساتھ ٹک ٹاک کیلیے ویڈیو بنانا پولیس افسر کو مہنگا پڑ گیا۔

سوشل میڈیا پر تھانہ کورنگی انڈسٹریل ایریا کے اے ایس آئی صفدر کی خاتون کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بعد انہیں معطل کر دیا گیا۔

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اہلکاروں و افسران پر پولیس وردی میں ٹک ٹاک ویڈیو بنانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن اس کے باوجود اہلکاروں و افسران کی تھانے کے اندر بنائی ویڈیوز وائرل ہیں۔

ستمبر میں آئی جی سندھ غلام بنی میمن نے ٹک ٹاک بنانے والے پولیس ملازمین کے خلاف ایڈیشنل آئی جی کراچی، زونل ڈی آئی جیز و ایس ایس پیز کراچی کو سخت احکامات جاری کیے تھے۔

آئی جی نے ہدایت کی تھی کہ بے ہودہ، ذو معنیٰ وائس اوور، پلے بیک سانگ اور بدلحاظی پر مشتمل ویڈیو پر کارروائی کی جائے، ایسے پولیس ٹک ٹاکرز کے خلاف فی الفور محکمانہ اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایسی ویڈیوز بنا کر پولیس کی بدنامی کا باعث بننے والوں کی محکمے میں کوئی گنجائش نہیں، محکمہ پولیس ایک یونیفارم ڈسپلن فورس ہے پولیس وردی کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔

غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ مرد اور خواتین پولیس ملازمین کو ٹک ٹاک پر ویڈیو اپ لوڈ نہ کرنے کا پابند بنایا جائے جبکہ ویڈیو شیئر کرنے والے پولیس ملازمین کے خلاف بھی انضباطی کارروائی یقینی بنائی جائے، پولیس یونیفارم میں کسی بھی پلیٹ فارم سے ویڈیو بنانے کی ہر گزاجازت نہ ہوگی۔

راجندر سنگھ بیدی: قلم کا دھنی، ایک عاشق مزاج

0

راجندر سنگھ بیدی کی تحریریں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ گمبھیر، تہ دار اور پُرمعنی ہیں۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جنھیں ہم آئینہ خانہ کہیں‌ تو غلط نہیں کہ جس میں انسان کا اصل روپ ظاہر ہوتا ہے۔ فرد اور پیچیدہ رشتوں کے ساتھ وہ شخصیت کو اس خوبی سے پیش کرتے ہیں جسے احساس کی بلندی پر پہنچ کر ہی سامنے لایا جاسکتا ہے۔بیدی کے ہاں استعارہ اور اساطیری تصوّرات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

بیدی 1915ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا ابتدائی عرصہ لاہور میں گزرا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ایک محکمہ میں کلرک بھرتی ہوئے اور ملازمت کے ساتھ ادبی سفر بھی رکھا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ مشہور ہے کہ وہ محسن لاہوری کے نام سے انگریزی اور اردو میں نظمیں اور کہانیاں تخلیق کرنے لگے جنھیں کالج میگزین اور مقامی اخبارات میں جگہ ملی۔ بعد میں یہ سفر اپنے اصل نام سے جاری رکھا اور ان کے افسانوں کے مجموعے، مضامین اور خاکے بھی شایع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کو اپنے عہد کا بڑا اور صاحبِ طرز ادیب تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے طنزو مزاح بھی لکھا۔

بیدی نے تقریباً ستّر فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، ستیہ کام اور ابھیمان کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار و ماحول شناسی کی بنا پر سراہے گئے۔ بیدی نے فلم سازی میں بھی خود کو آزمایا اور گرم کوٹ، رنگولی، بھاگن اور آنکھیں نامی فلمیں بنائیں۔ ان کی کاوش دستک کو اعلیٰ فنی خوبیوں کی بنا پر 1970ء میں قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں اور ماحول کے ساتھ انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل پڑھنے کو ملتے ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت اور مرد کے کردار ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی، مہارانی کا تحفہ پر لاہور کے ادبی جریدے کی جانب سے سال کی بہترین مختصر کہانی کا انعام بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1940ء میں منظرِ عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ 1943ء میں شائع ہوا۔ بیدی کا مشہور اردو ناول ایک چادر میلی سی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا جس پر انھیں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

بیدی نے مختلف جرائد کے لیے لکھا، ادارت کی، اور ریڈیو کے لیے ڈرامے یا اسکرپٹ تحریر کیے، جب کہ 1946ء میں اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے، لیکن بٹوارے کے بعد 1947ء میں انھیں لاہور چھوڑنا پڑا۔

افسانہ نگار بیدی عاشق مزاج بھی تھے اور اسی سبب ان کی ازدواجی زندگی بھی متاثر رہی۔ رومانس اور دل لگی نے ان کی گھریلو زندگی میں تلخیوں‌ کا زہر گھول دیا تھا۔ اس نام وَر افسانہ نگار کی زندگی کے آخری ایّام کس مپرسی اور بے بسی کے عالم میں‌ بسر ہوئے۔ بیدی پر فالج کا حملہ اور بعد میں کینسر تشخیص ہوا اور 11 نومبر 1984ء کو وہ چل بسے۔

بیدی کے والدین کا تعلق سیالکوٹ سے تھا جہاں ان کا آبائی گھر تھا۔ والدہ کا نام سیوا دیوی تھا جو برہمن تھیں۔ لیکن بیدی کے والد ہیرا سنگھ سکھ تھے۔ یوں بیدی کو گھر کے اندر ایک مفاہمت کی فضا ملی۔ والد تلاشِ روزگار میں لاہور آ گئے تھے جہاں صدر بازار لاہور کے ڈاک خانے میں ملازمت کرنے لگے۔ بیدی کو لاہور کینٹ کے ایک اسکول میں داخل کرایا گیا اور چار جماعتیں پاس کرکے وہ خالصہ اسکول میں داخل ہوگئے جہاں سے 1931ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ان کی والدہ شدید بیمار ہو گئیں۔ فالج کی وجہ سے وہ بستر سے لگ گئی تھیں۔ راجندر سنگھ بیدی کے والد اپنی بیوی کی خدمت میں جتے رہے اور ڈاک خانے کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ تب، راجندر سنگھ بیدی نے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور اپنے والد کی جگہ ڈاک خانے کی ملازمت اختیار کر لی۔ اُس زمانے میں شادیاں کم عمری میں کر دی جاتی تھیں۔ 1934ء میں راجندر سنگھ کی شادی ستونت کور سے کر دی گئی۔ اُس وقت بیدی کی عمر صرف 19 برس تھی۔ ڈاک خانے کی ملازمت کے لمبے اوقات تھے۔ پھر بھی کام کے دوران جب کبھی وقت ملتا راجندر سنگھ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کہانیاں لکھتا رہتا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو کے اردو سیکشن سے ملازمت کی پیشکش ہوئی اور وہاں چلے گئے۔ ریڈیو پر بیدی کے فن کے جوہر خوب کھلے۔ لیکن 1943ء میں ریڈیو چھوڑ کر مہیش واری اسٹوڈیو سے وابستہ ہو گئے تاہم ڈیڑھ سال بعد ریڈیو لوٹ گئے۔ اس وقت تک بیدی افسانوں کی دنیا میں معروف ہوچکے تھے۔ لاہور میں بیدی اپنا ادارہ قائم کرکے خوش تھے، اور وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن لاہور سے جدا ہونا پڑے گا۔ ان کا اشاعتی ادارہ بھی فسادات کی نذر ہو گیا۔ وہ دہلی چلے گئے اور بعد میں جموں ریڈیو میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ 1948ء کی بات ہے۔ راجندر سنگھ بیدی زندگی کے کسی ایک رنگ سے کبھی مطمئن نہ ہوئے۔ ان کا تخلیقی وفور فلم کی دنیا میں لے گیا جہاں کہانیاں، مکالمے اور اسکرین پلے لکھنے کے بعد ہدایت کاری کے کوچے کا رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔

بیدی کی ذاتی زندگی میں ایک گہرا خلا تھا۔ فلم کی دنیا میں اداکاراؤں کے ساتھ دوستی اور بیدی کی شراب نوشی ان کی بیوی کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ بیمار رہنے لگی اور انتقال کر گئی۔ اسی دوران فلم ”آنکھوں دیکھی‘‘ مکمل ہوگئی لیکن جس فلم پر بیدی نے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا دی تھی، سینما کی زینت نہ بن سکی۔ آخر کار وہ بھی ہمیشہ کی نیند سو گئے۔

بیدی کو ان کے فن کے اعتراف میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہے۔