لندن: مختلف عقائد کے پیش روؤں کی طرف سے قیامت کی پیشگوئیاں کرنے کا سلسلہ کچھ نیا نہیں بلکہ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، سائنسدان آج بھی علم کے بل بوتے پر ایسی پیشنگوئیاں کرنے لگے ہیں، حال ہی میں سائنسدانوں کی طرف سے قیامت کی نئی تاریخ بھی سامنے آگئی ہے، جس کے مطابق 16مارچ 2880ء کو دنیا نیست و نابود ہوسکتی ہے۔
قیامت کی اس نئی تاریخ کی وجہ بیان کرتے ہوئے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ ایک سیارچہ زمین سے ٹکرائے گا اور تاحال ہم اسے روکنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے، ایک کلومیٹر قطر رکھنے والا یہ سیارچہ ہر دوگھنٹے 6 منٹ بعد تیزی سے گھوم رہا ہے، جو زمین کو نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن قیامت کے بارے میں یہ پیش گوئی کافی دور ہے، قیامت سے متعلق پہلے کی جانے والی چند پیشگوئیوں اور قریب ترین پشین گوئی کے متعلق آپ کو آگاہ کرتے ہیں۔
پہلی بار 999 میں مسیحی عقائد رکھنے والے افراد نے قیامت کی پیش گوئی کی، جس کے باعث لوگ اپنے گھر اور کام کاج چھوڑ کر باہر نکل آئے لیکن قیامت کا وقت گزر گیا اور نیا سال آگیا، یہ پیشن گوئی کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ پیشگوئی حضرت عیسیؑ کی عمر کے لحاظ سے کی گئی تھی، لیکن عمر کا اندازہ غلط نکلا۔
ماہر فلکیات نے فروری 1524ء میں زحل اور مشتری کی غیرمعمولی صف بندی کو دیکھ کر قیامت کی پیشگوئی کی، جس پر لوگ بڑے بڑے میدانوں میں نکل آئے لیکن وقت گزر گیا۔
دنیا کے معروف ترین ٹیلی ویژن پروگرام کے میزبان نے 1980ء میں آئندہ دو سال میں قیامت آنے کی پیش گوئی کی، پیٹ روبرٹسن کا کہنا تھا کہ ’’میں دعوی سے کہتا ہوں کہ 1982کے اواخر میں قیامت آ جائے گی۔‘‘ مگر دنیا تاحال پوری آب و تاب کے ساتھ چل رہی ہے۔
متعدد نقادوں نے 2000ء کو قیامت کا سال کہا، جس کی توجیح بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تین بارصفر نہ صرف کمپیوٹر جیسے آلات کو کنفیوژ کر رہی ہیں بلکہ یہ 1900ء کی دوبارہ ترتیب بھی ہے۔
امریکی پادری ہیرلڈ کیمپنگ کی طرف سے 21مئی 2011ء کو قیامت آنے کی پیشگوئی کی گئی۔ یہ پادری گزشتہ برس دسمبر میں چل بسا، لیکن دنیا قائم ہے۔
قدیم مایا تہذیب کے ماننے والوں نے اپنی مذہبی تعلیمات کے بل بوتے پر 21دسمبر 2012ء کو قیامت کا روز قرار دیا، لیکن انسانیت تاحال باقی ہے۔
ورلڈ بائبل سوسائٹی کے بانی صدر ڈاکٹر ایف کینٹ کی پیشگوئی کے مطابق دنیا 2018ء سے 2028ء کے درمیان ختم ہو جائے گی اور ایسا انھوں نے اپنی مذہبی تعلیمات کے بل بوت پر کہا ہے۔