ہفتہ, مئی 3, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 3

سید علی بلگرامی: ایک بلند پایہ محقق اور مترجم

0

برصغیر کی مرفہ الحال ریاست حیدر آباد دکن کے سید علی بلگرامی کا تذکرہ آج اگرچہ شاذ ہی ہوتا ہے، مگر وہ اپنے دور کی ایک نہایت بلند پایہ علمی اور ادبی شخصیت تھے۔ انھیں شمس العلماء کے خطاب سے سرفراز کیا گیا تھا۔ سید علی بلگرامی نے ایک مصنّف، محقق اور مترجم کی حیثیت سے متعدد تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔

سید علی بلگرامی 1851ء میں پیدا ہوئے تھے۔ لکھنؤ، پٹنہ کی جامعات اور جامعہ لندن سے تعلیم حاصل کرنے والے سید علی بلگرامی کو علم و فنون کا بڑا مربی اور سرپرست بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے قلم سے نصف درجن سے زائد تحقیقی کتابیں سامنے آئیں جن میں سے چند نام فارسی کی قدر و قیمت بہ مقابلہ سنسکرت، رسالہ در تحقیق کتاب قلیلہ و دمنہ، تمدنِ عرب (ترجمہ) اور تمدنِ ہند (ترجمہ) ہیں۔ 3 مئی 1911ء کو سید علی بگرامی اس دارِ‌ فانی کو چھوڑ گئے تھے۔

سید علی بلگرامی کے جدِ امجد مولوی گورنر جنرل ہند کے دربار میں نواب وزیر آف اودھ کے نمائندے تھے۔ بلگرامی صاحب کے والد زین الدّین حسن 1878 میں ریاست حیدرآباد میں کمشنر انعام بن کر آئے تھے اور یہیں علی بلگرامی نے خاصا وقت گزارا۔ انھوں‌ نے 1866ء میں فارسی و عربی کے ساتھ دیگر تعلیم گھر پر ختم کی اور بعد میں اعلی تعلیم کے لیے انگلستان گئے۔ علی بلگرامی نے فطری ذہانت اور حافظہ سے متعدد زبانیں سیکھیں اور حیدرآباد میں قیام کے دوران مرہٹی اور تیلگو بھی سیکھ لی تھی۔ فرانسیسی زبان میں گفتگو کرتے تھے اور قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ مشہور ہے کہ وہ چودہ زبانیں ایسے لہجے میں بولتے تھے کہ یہ سب گویا ان کی مادری زبانیں ہیں۔

سید علی بلگرامی انگلستان اور یورپ میں قیام کے بعد ہندوستان لوٹے تو انھیں انسپکٹر جنرل معدنیات مقرر کر دیا گیا۔ 1902ء میں وہ جامعہ کیمبرج میں مرہٹی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ سید علی بلگرامی کو گورنمنٹ آف انڈیا نے ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں 1893ء میں شمس العلماء کا خطاب دیا تھا۔ برطانوی جامعہ نے ان کو پی ایچ ڈی اور ڈاکٹر آف لیٹرز (ڈی لٹ) کی ڈگریاں دیں۔ آل انڈیا ایجویشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ جو اس زمانے میں علی گڑھ میں ہوا تھا اس میں علی بلگرامی نے ایک تحقیقاتی مقالہ کلیلہ و دمنہ پڑھا۔ انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے کام کرکے یہ معلوم کیا کہ یہ کتاب اصل میں کہاں سے نکلی، کہاں کہاں گھومی، کس کس زبان میں اس کا ترجمہ ہوا اور اس میں کیا کیا تبدیلیاں ہوتی گئی اور اصل سے موجودہ نسخے کتنے مختلف ہوتے گئے۔ ڈاکٹر گستاؤ لی بان کی دو فرانسیسی تصانیف تمدنِ ہند اور تمدنِ عرب کا اردو ترجمہ ان کے شاہکار مانے جاتے ہیں۔ ایلورا کے غاروں پر ان کا تحقیقی کام بھی قابل ذکر ہے جس میں انھوں نے بڑی چھان بین کے بعد اس حیرت انگیز تاریخی ورثے پر معلوماتی کتابچہ لکھا جو بعد میں اس شعبہ میں آنے والوں کے لیے مددگار اور مفید ثابت ہوا۔

سید علی بلگرامی مرگِ ناگہاں سے دوچار ہوئے کہ ہردوئی میں ایک رات کھانا کھانے کے بعد جب وہ اپنے اہلِ خانہ سے محوِ گفتگو تھے تو اسی اثنا میں‌ حرکتِ قلب بند ہوگئی۔

حرا کو سپورٹ کرنے پر لوگ ’زن مرید‘ کہتے ہیں، مانی

0

اداکار و میزبان سلمان ثاقب شیخ المعروف مانی کا کہنا ہے کہ اہلیہ حرا کو سپورٹ کرتا ہوں تو لوگ زن مرید کہتے ہیں۔

اداکار مانی نے حال ہی میں احمد علی بٹ کے پوڈ کاسٹ ’ایکسکیوز می‘ میں شرکت کی جہاں انہوں نے مختلف موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اپنی بیوی کو بہت زیادہ سپورٹ کرتا ہے یہ زن مرید لگتا ہے، ہونا چاہیے اس میں کیا برائی ہے، اگر میری بیٹی بھی ہوتی تو چاہتا تھا کہ وہ ایتھلیٹ بن جائے اور اپنے پیرو پر کھڑی ہو۔

مانی نے کہا کہ جن معاشروں میں خواتین مردوں برابر کام کرتی ہیں ان میں نہ لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، نہ مالی مسائل ہوتے ہیں بلکہ خوشحالی ہوتی ہے، ہم نے زبردستی کا خاندانی سسٹم بنایا ہوا ہے کہ سب ساتھ مل کر رہیں گے، میں بہت پہلے بول چکا ہوں کہ یہ زبردستی کا سسٹم، اقدام جو ہے یہ وہ برصغیر کا مسئلہ ہے۔

اداکار نے کہا کہ ہم ویسٹرن نہیں اگر حرا نہیں ہوتی کوئی اور میری اہلیہ ہوتی اور اس میں ٹیلنٹ ہوتا تو میں اسے کرنے دیتا کیونکہ وہ یہ نہ کہے کہ میں نے کچھ کرنے نہیں دیا، میں چاہتا ہوں کہ کسی بھی لڑکی میں ٹیلنٹ ہے اسے آگے آنا چاہیے۔

مانی نے کہا کہ یہ بات والد صاحب سے مجھ میں آئی وہ خود اداکار تھے اور چاہتے تھے کہ بیٹی عائشہ بھی اداکارہ بنے، اس نے بھی تھیٹر میں اپنے زمانے میں اداکاری کی جب اس کی شادی ہوئی تو اس نے چھوڑ دیا، ہم یہ سلسلہ روکنا نہیں چاہتے اگر خاندان میں کسی لڑکی میں ٹیلنٹ ہے تو اسے روکنا نہیں چاہیے۔

دولہے نے جہیز میں ملے لاکھوں روپے واپس کرکے ایک روپے میں شادی کرلی

0

بھارت میں دولہے نے جہیز میں ملے 31 لاکھ روپے واپس کرکے ایک روپے میں شادی کرلی۔

جہیز کی وجہ سے بیٹیوں کی شادی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے، لڑکیاں جہیز کی لعنت کی وجہ سے گھر بیٹھی ہیں اور ان کی شادی نہیں ہورہی اور وہ کنواری ہی رہ جاتی ہیں۔

اسی دوران سہارنپور کے وکاس رانا نے جہیز میں ملنے والی 31 لاکھ روپے کی رقم اپنے سسرال والوں کو واپس کر دی۔ شادی کی رسومات صرف ایک ناریل اور ایک روپے کے سکے سے ادا کی گئیں۔

وکاس رانا نے جہیز کی بھاری رقم قبول نہ کر کے معاشرے کے لیے ایک مثال قائم کی ہے، نئی نسل کی اس سوچ کو ناصرف یوپی بلکہ ہریانہ میں بھی سراہا جا رہا ہے۔

ٹیکا کی تقریب کے وقت دلہن کے اہل خانہ نے دولہے کو شگن کے طور پر 31 لاکھ روپے دیے لیکن دولہا وکاس اور اس کے اہل خانہ نے جہیز کو سماجی برائی قرار دیتے ہوئے رقم لینے سے انکار کردیا اور اسے واپس کردیا۔

دولہا وکاس نے کہا کہ جہیز لینا اور دینا ایک سماجی برائی ہے۔ ان کے لیے دلہن ہی جہیز ہے۔ شری پال رانا نے بتایا کہ ان کا بیٹا وکاس رانا کرناٹک ہائی کورٹ میں وکیل ہے جبکہ بہو اگریکا تنور پوسٹ گریجویٹ ہے۔

آپ کو بتاتے چلیں کہ نانوٹا علاقے کے بھابسی رائے پور گاؤں کے رہنے والے شری پال رانا کے بیٹے ایڈوکیٹ وکاس رانا، جنہوں نے بی ایس پی کے ٹکٹ پر کیرانہ لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑا تھا، کی شادی ہریانہ کے لکھی گاؤں کی رہنے والی آگریکا تنور سے ہوئی تھی۔

وکاس رانا 30 اپریل کو شادی کی بارات کے ساتھ ہریانہ کے کروکشیتر پہنچے جہاں ایک ہوٹل میں شادی کی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔

ویڈیو: میچ کے دوران اسٹینڈ میں بیٹھا تماشائی 20 فٹ کی بلندی سے گر گیا

0

امریکا میں بیس بال میچ کے دوران اسٹینڈ میں بیٹھا تماشائی بیس فٹ کی بلندی سے زمین پر گر گیا۔

امریکا میں میجر لیگ میں بیس بال لیگ کا میچ جاری تھا اس دوران تماشائی جو اسٹینڈ میں بیٹھا میچ سے لطف اندوز ہورہا تھا اچانک 20 فٹ بلندی سے نیچے آگرا۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایمبولینس کے ذریعے تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔

انتظامیہ کا کہنا ہے اونچائی سے گرنے کی وجہ سے تماشائی کو شدید چوٹیں آئی ہیں، واقعےکی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

چلی اور ارجنٹائن میں 7.4 شدت کا خوفناک زلزلہ

0
زلزلہ ایک منٹ تک محسوس کیا گیا

چلی اور ارجنٹائن کے ساحلوں پر 7.4 شدت کا زلزلہ آیا ہے جس سے افراتفری مچ گئی۔

امریکی جیولوجیکل سروے (یو ایس جی ایس) کا کہنا ہے کہ چلی اور ارجنٹائن کے جنوبی ساحلوں پر 7.4 شدت کا زلزلہ آیا ہے۔

یو ایس جی ایس نے کہا کہ زلزلے کا مرکز کیپ ہارن اور انٹارکٹیکا کے درمیان ڈریک پاسیج میں ارجنٹائن کے شہر یوشوایا سے 219 کلومیٹر (173 میل) جنوب میں سمندر کے نیچے تھا۔

چلی کے حکام نے جمعہ کو جنوبی امریکی ملک کے انتہائی جنوب میں واقع آبنائے میگیلان کے پورے ساحلی حصے کے لیے انخلاء کا الرٹ جاری کیا ہے۔

چلی کی نیشنل سروس فار ڈیزاسٹر پریوینشن اینڈ ریسپانس نے عوام کو بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا کہ سونامی الرٹ کی وجہ سے، میگیلان کے ساحلی علاقوں کے لیے محفوظ زون میں انخلا کا حکم دیا جا رہا ہے۔

ارجنٹائن کے شہر یوشوایا میں، جسے دنیا کا سب سے جنوبی سمجھا جاتا ہے مقامی حکام نے بیگل چینل میں پانی کی ہر قسم کی سرگرمیاں اور نیویگیشن کو کم از کم تین گھنٹے کے لیے معطل کر دیا ہے تاہم کسی جانی و مالی نقصان یا انخلاء کی اطلاع نہیں ملی۔

پاکستان کی مسلح افواج دفاع وطن کے لیے عوام کے ساتھ متحد ہوکر کھڑی ہیں، آرمی چیف

0

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج دفاع وطن کے لیے عوام کے ساتھ متحد ہوکر کھڑی ہیں۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت اسپیشل کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی جس میں بھارت کے الزامات اور کشیدگی کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ خطے کی موجودہ صورت حال کا جامع جائزہ، پاک بھارت کشیدگی اور علاقئی سلامتی پر بھی غور کیا گیا۔

آرمی چیف نے مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت، ثابت قدم حوصلے اور آپریشنل تیاریوں کو سراہا اور تمام محاذوں پر چوکنا رہنے اور فعال تیاریوں کی اہمیت پر زور دیا۔

شرکا نے عزم ظاہر کیا کہ پاک فوج ہر قیمت پر مادر وطن کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں اور جارحیت یا مہم جوئی کے خلاف ملکی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

فورم نے بھارت کے غیرقانونی طور پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر اظہار تشویش کیا اور کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارتی افواج ایل او سی کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے، بھارتی فوج کی غیر انسانی اور بلا اشتعال کارروائیاں علاقائی کشیدگی کو بڑھاتی ہیں۔

کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکا نے بھارت کے سیاسی اور فوجی مقاصد کے لیے گھڑے خود ساختہ بحرانوں پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ بھارت اندرونی انتظامی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے بیرونی رنگ دیتا رہا ہے، بھارت یکطرفہ چالوں سے اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

شرکا نے بتایا کہ 2019 میں بھارت نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے لیے پلوامہ کا ڈرامہ رچایا، پہلگام کے حالیہ واقعے کا مقصد پاکستان کی توجہ مغربی سرحدوں سے ہٹانا اور پاکستان کی اقتصادی بحالی کے لیے جاری کوششوں سے توجہ ہٹانا ہے۔

کور کمانڈرز کے شرکا ن ےکہا کہ پاکستان دو عوامل میں فیصلہ کن اور پائیدار ترقی کی جانب گامزن ہے، بھارت کو مذموم ہتھکنڈوں کے ذریعے دہشت گرد پراکسیوں کو فعال کرنے میں ناکامی ہوگی، بھارت پہلگام واقعے کی آڑ میں سندھ طاس معاہدے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

شرکا نے کہا کہ جنگ مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کا یقینی اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، پاکستان کے عوام کی امنگوں کا ہر قیمت پر احترام کیا جائے گا۔

5 کپتانوں کو ایک کمرے میں بند کردیں پھر۔۔۔۔ عمر اکمل کا انوکھا مشورہ

0

پاکستانی کرکٹر عمر اکمل کا کہنا ہے کہ ٹیم میں پانچ کپتان تو میری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہوگئے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے عمر اکمل نے کہا کہ اگر شاہین آفریدی، بابر اعظم، محمد رضوان، آغا سلمان اور شاداب خان پلیئنگ الیون کا حصہ بن گئے تو کیا ٹیم اچھی کارکردگی دکھا سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ ان پانچوں کو بند کمرے میں بٹھا دیں اور چیئرمین پی سی بی کہیں کہ آپ لوگوں نے کپتانی کرلی لیکن ڈیلیور نہیں کیا اب اس کی باری آپ سب نے اس کو سپورٹ کرنا ہے۔

اس سے قبل انٹرویو میں عمر اکمل نے سابق ہیڈ کوچ وقار یونس سے اپنے اختلافات کے بارے میں دعوے کیے تھے۔

قومی ٹیم میں واپسی کی خواہش پر وہاب ریاض نے عمر اکمل سے کیا کہا تھا؟

اکمل نے کہا تھا کہ جہاں ٹیسٹ میچ میں سنچری بنانے کے بعد وقار یونس نے تعریف کرنے کے بجائے کہا کہ ’تم نے ٹیسٹ میں ٹی 20 کرکٹ کھیلنا شروع کردی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری اننگز میں جب جلدی آؤٹ ہوا تو وقار یونس کہنے لگے اب کہاں گئی تمہاری ٹی 20 کرکٹ۔

عمر اکمل کا کہنا تھا کہ اس طرح کے تبصروں نے نوجوان کھلاڑی طور پر ان کا حوصلہ پست کردیا۔

شاہانِ اودھ کے دربار کا رکاب دار

0

ہندوستان میں دلّی، لکھنؤ، دکن اور دیگر ریاستیں جب تک خود مختار اور خوش حال رہیں، وہاں کے نواب اور امراء کی شان و شوکت اور آن بان بھی سلامت رہی۔ ان کے دسترخوان بھی خوب سجائے جاتے تھے۔ شادی بیاہ اور تہوار وغیرہ تو ایک طرف عام دنوں میں بھی ضیافتیں نوابوں کے محل اور کوٹھیوں کی رونق میں اضافہ کرتی تھیں۔

اس دور میں ماہر طباخ اور رکاب دار ہندوستان میں موجود تھے جو نہایت لذیذ اور عمدہ کھانے تیار کرتے تھے طرح طرح کے نمکین اور میٹھے کھانے لطافت، نفاست اور کمال مہارت کے ساتھ بنائے جانے کے بعد جس طرح چُنے جاتے وہ بھی ایک فن تھا اسی دور کے ایک رکاب دار کا تذکرہ مرزا جعفر حسین نے یوں رقم کیا ہے:

اسی طرح ایک کلاس رکاب داروں کا حَسن گنج پار میں آباد تھا۔ یہ لوگ جاڑوں میں جوزی حلوا سوہن، پیڑیاں اور مختلف قسم کے حلوے اور گرمیوں میں چٹنیاں، رُب اور مربّے بناتے تھے۔ ہر رکاب دار کسی نہ کسی رئیس کی ڈیوڑھی سے وابستہ تھا۔ ہر زمانے میں دوسرے تیسرے روز سامان تیار کر کے لاتا اور ایک ہی ٹھکانے فروخت کر کے فرصت حاصل کر لیتا تھا۔ اس طبقے پر بھی بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں زوال آگیا تھا۔ لیکن ایک خوش نصیب رکاب دار کا واقعہ دل چسپ ہے۔ اس شخص کا نام اعظم علی یا عظیم اللہ تھا۔ یہ میرے گھرانے سے منسلک تھا۔ اسی سال جب کہ میں وکالت کے پیشے میں داخل ہوا تھا اُس نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اُس کی وکالت شیخ مستنصر اللہ صاحب مرحوم ڈپٹی کلکٹر کے اجلاس پر کر دوں۔ میں نے فوج داری کی عدالتوں سے غیر متعلق ہونے کی بنا پر بہت کچھ معذرت چاہی مگر وہ نہ مانا اور مجھے زبردستی اس لیے لے گیا کہ شیخ صاحب مرحوم سے میرے مراسم تھے۔

یہ مقدمہ قمار بازی کا تھا۔ عدالت نے مجھے دیکھا، پھر مؤکل کو گھورا اور مجھ سے فرمایا کہ یہ آپ کو اس لیے لایا ہے کہ اس کی سزا کم ہو جائے، میں اس پر کئی بار جرمانہ کر چکا ہوں آج پھر جرمانہ کر دوں گا۔ مگر آئندہ پھر چالان ہوا تو ضرور جیل کی سزا دوں گا۔ شیخ صاحب پرانے طرز کے حاکم تھے، اُن کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی یہ ساری کارروائی ان کے یہاں اردو میں ہوئی تھی۔ انھوں نے ہر حال پچاس روپیہ جرمانہ کیا، ملزم نے فوراً جمع کر دیا۔ مگر اسی وقت سے وہ مفرور ہوگیا۔ اس واقعہ کے تخمیناً آٹھ برس کے بعد میں نے حیدرآباد دکن کی ایک عالی شان دکان پر یہ بورڈ لگا دیکھا۔ ”شاہانِ اودھ کے دربار کا رکاب دار“ میں بے حد اشتیاق کے ساتھ دکان کے اندر چلا گیا تو دیکھا کہ میاں عظیم اللہ ایک تخت پر قالین، گاؤ اور تکیے کے فرش و آرائش سمیت ایک بڑی نفیس سٹک (حقہ کا حصّہ) کے دَم گھسیٹ رہے ہیں۔ انھوں نے بڑے احترام کے ساتھ میرا استقبال کیا اور میری بہت تواضع کی۔

حالات دریافت کرنے پر انھوں نے فرمایا کہ ”جوا چھوٹ نہیں سکتا تھا لہٰذا جیل جانے کے ڈر سے شہر چھوڑ دیا۔ یہاں آ کر دکان کھولی، حسن اتفاق سے سرکار نظام کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ اللہ کی رحمت سے کاروبار میں فروغ ہو گیا اور خدا کے فضل سے بہت آرام ہے۔“

وزیراعظم کی ہدایت پر ریلوے مسافروں کو ’وی آئی پی‘ سہولت فراہم

0
لاہور ریلوے اسٹیشن پر عوام کیلیے بڑی سہولت کا آغاز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وزیر ریلوے نے مسافروں کےلیے اہم اقدام کیا ہے۔

حکام کے مطابق کوئی بھی ریلوے مسافر لگژری سیلونز کی بکنگ کروا سکے گا اور مسافروں کی سہولت کیلئے کرایہ انتہائی مناسب رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم، وزرا، چیئرمین ریلوے کے سیلون مسافروں کیلئے دستیاب ہوں گے جب کہ چیف ایگزیکٹو افسر اور آئی جی ریلوے کے سیلون کی بھی بکنگ ہوسکےگی۔

پاکستان ریلوے کے پاس کئی لگژری سیلونز ہیں جو ماضی میں بھی کرایے پر دیے جاتے رہے ہیں جس سے لاکھوں روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔

ان وی آئی پی سیلونز سے مسافروں کو بھرپور سہولت فراہم کی جاتی رہی ہے تاہم پچھلے کچھ عرصے میں اس سہولت کو بند کر دیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا فالوورز کم ہونے پر لڑکی نے انتہائی قدم اٹھا لیا

0

بھارت میں 25 سالہ کانٹیٹ کری ایٹر امیشا اگروال نے سوشل میڈیا فالوورز کم ہونے پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق کانٹیٹ کری ایٹر میشا اگروال 24 اپریل کو اپنی 25ویں سالگرہ منانے سے دو قبل چل بسیں جس کی خاندان نے بھی تصدیق کردی ہے۔

میشا کے اہلخانہ نے بتایا جن کا سامنا میشا اگروال کو اپنی آخری دنوں میں کرنا پڑا، وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر اپنے فالوورز کم ہونے پر بے چین اور مایوس ہوگئی تھی۔

اہلخانہ نے بتایا کہ میشا نے انسٹاگرام اور اپنے فالوورز کے گرد دنیا بنائی تھی جس کا ایک ہی مقصد 10 لاکھ فالوورز تک پہنچنا اور لوگوں کی محبت حاصل کرنا تھا، جب اس کے فالوورز کم ہونے لگے تو وہ پریشان ہوگئی اور خود کو بیکار محسوس کرنے لگی۔

بہن نے بتایا کہ وہ بہت افسردہ تھی اکثر مجھے لگاتی اور روتی تھی اور کہتی تھی کہ اگر میرے فالوورز کم ہوگئے تو میں کیا کروں گی، میرا کیریئر ختم ہوجائے گا۔

میشا کی بہن کے مطابق اس نے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہ بطور جج اپنا کیریئر بنانے کی تیاری کررہی تھی جب میں نے اسے کہا کہ وہ انسٹاگرام کو محض تفریح کے طور پر دیکھیں اور خوشی پر توجہ دے اور پریشانی کو بھلا دے۔

خاتون کے مطابق میشا نے ان کی بات نہیں مانی اور انسٹاگرام اور فالوورز میں اس قدر مگن ہوگئی کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہماری دنیا سے چلی گئی۔