برصغیر کی مرفہ الحال ریاست حیدر آباد دکن کے سید علی بلگرامی کا تذکرہ آج اگرچہ شاذ ہی ہوتا ہے، مگر وہ اپنے دور کی ایک نہایت بلند پایہ علمی اور ادبی شخصیت تھے۔ انھیں شمس العلماء کے خطاب سے سرفراز کیا گیا تھا۔ سید علی بلگرامی نے ایک مصنّف، محقق اور مترجم کی حیثیت سے متعدد تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔
سید علی بلگرامی 1851ء میں پیدا ہوئے تھے۔ لکھنؤ، پٹنہ کی جامعات اور جامعہ لندن سے تعلیم حاصل کرنے والے سید علی بلگرامی کو علم و فنون کا بڑا مربی اور سرپرست بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے قلم سے نصف درجن سے زائد تحقیقی کتابیں سامنے آئیں جن میں سے چند نام فارسی کی قدر و قیمت بہ مقابلہ سنسکرت، رسالہ در تحقیق کتاب قلیلہ و دمنہ، تمدنِ عرب (ترجمہ) اور تمدنِ ہند (ترجمہ) ہیں۔ 3 مئی 1911ء کو سید علی بگرامی اس دارِ فانی کو چھوڑ گئے تھے۔
سید علی بلگرامی کے جدِ امجد مولوی گورنر جنرل ہند کے دربار میں نواب وزیر آف اودھ کے نمائندے تھے۔ بلگرامی صاحب کے والد زین الدّین حسن 1878 میں ریاست حیدرآباد میں کمشنر انعام بن کر آئے تھے اور یہیں علی بلگرامی نے خاصا وقت گزارا۔ انھوں نے 1866ء میں فارسی و عربی کے ساتھ دیگر تعلیم گھر پر ختم کی اور بعد میں اعلی تعلیم کے لیے انگلستان گئے۔ علی بلگرامی نے فطری ذہانت اور حافظہ سے متعدد زبانیں سیکھیں اور حیدرآباد میں قیام کے دوران مرہٹی اور تیلگو بھی سیکھ لی تھی۔ فرانسیسی زبان میں گفتگو کرتے تھے اور قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ مشہور ہے کہ وہ چودہ زبانیں ایسے لہجے میں بولتے تھے کہ یہ سب گویا ان کی مادری زبانیں ہیں۔
سید علی بلگرامی انگلستان اور یورپ میں قیام کے بعد ہندوستان لوٹے تو انھیں انسپکٹر جنرل معدنیات مقرر کر دیا گیا۔ 1902ء میں وہ جامعہ کیمبرج میں مرہٹی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ سید علی بلگرامی کو گورنمنٹ آف انڈیا نے ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں 1893ء میں شمس العلماء کا خطاب دیا تھا۔ برطانوی جامعہ نے ان کو پی ایچ ڈی اور ڈاکٹر آف لیٹرز (ڈی لٹ) کی ڈگریاں دیں۔ آل انڈیا ایجویشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ جو اس زمانے میں علی گڑھ میں ہوا تھا اس میں علی بلگرامی نے ایک تحقیقاتی مقالہ کلیلہ و دمنہ پڑھا۔ انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے کام کرکے یہ معلوم کیا کہ یہ کتاب اصل میں کہاں سے نکلی، کہاں کہاں گھومی، کس کس زبان میں اس کا ترجمہ ہوا اور اس میں کیا کیا تبدیلیاں ہوتی گئی اور اصل سے موجودہ نسخے کتنے مختلف ہوتے گئے۔ ڈاکٹر گستاؤ لی بان کی دو فرانسیسی تصانیف تمدنِ ہند اور تمدنِ عرب کا اردو ترجمہ ان کے شاہکار مانے جاتے ہیں۔ ایلورا کے غاروں پر ان کا تحقیقی کام بھی قابل ذکر ہے جس میں انھوں نے بڑی چھان بین کے بعد اس حیرت انگیز تاریخی ورثے پر معلوماتی کتابچہ لکھا جو بعد میں اس شعبہ میں آنے والوں کے لیے مددگار اور مفید ثابت ہوا۔
سید علی بلگرامی مرگِ ناگہاں سے دوچار ہوئے کہ ہردوئی میں ایک رات کھانا کھانے کے بعد جب وہ اپنے اہلِ خانہ سے محوِ گفتگو تھے تو اسی اثنا میں حرکتِ قلب بند ہوگئی۔