ہوم بلاگ صفحہ 3

کنگنا رناوت کیخلاف درج مقدمات کی تفصیلات سامنے آگئیں

0
کنگنا رناوت کیخلاف درج مقدمات کی تفصیلات سامنے آگئیں

ممبئی: بالی وڈ اداکارہ اور نریندر مودی کی جماعت کی طرف سے لوک سبھا الیکشن میں حصہ لینے والی کنگنا رناوت کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

کنگنا رناوت ریاست ہماچل پردیش کے شہر مندی سے الیکشن لڑیں گی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (پی جے پی) نے اپنی امیدوار کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری کی ہیں۔

بالی وڈ اداکارہ کے خلاف زیادہ تر کیس ممبئی اور مہاراشٹر میں درج ہیں۔

سپریم کورٹ کے احکامات اور الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق امیدوار کو C-7 فارم میں معلومات درج کرنا لازمی ہے۔ علاوہ ازیں، دو اخبارات میں اس متعلق اشتہار بھی دیا جاتا ہے۔

مقدمات کی تفصیلات:

1- نغمہ نگار جاوید اختر نے کنگنا رناوت کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے جو ممبئی کے اندھیری میں درج ہے۔

2- مصنف آشیش کول نے فلم مانیکرنیکا ریٹرنز دی ’لیجنڈ ڈیڈا‘ کی کہانی چوری کرنے پر کے باندرہ پولیس اسٹیشن میں بالی وڈ اداکارہ کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔

3- کاسٹنگ ڈائریکٹر ساحل اشرف سید کی شکایت کے بعد باندرہ کورٹ نے کنگنا رناوت اور ان کی بہن رنگولی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ اداکارہ اور ان کی بہن پر الزام ہے کہ انہوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے اور سوشل میڈیا پر پوسٹس کے ذریعے مہاراشٹر حکومت کا نام بدنام کیا۔

4- کسانوں کی احتجاجی تحریک کے دوران بالی وڈ اداکارہ نے سوشل میڈیا پر خاتون کسان مہندرا کور کو ’شاہین باغ کی دادی‘ کہہ کر پکارا تھا۔ خاتون کسان نے پنجاب کے بھٹنڈا میں ان کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔

5- اداکار آدتیہ پنچولی کی اہلیہ زرینہ وہاب نے بھی کنگنا رناوت کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے۔

6- بی جے پی امیدوار نے ایک انٹرویو میں آدتیہ پنچولی پر بدسلوکی کا الزام لگایا تھا۔ آدتیہ نے اس معاملے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔

7- کسانوں کی احتجاجی تحریک کے دوران کنگنا رناوت نے سوشل میڈیا پر زرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے کسانوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اس پر رمیش نائک نے کرناٹک ہائی کورٹ میں بالی وڈ اداکارہ کے خلاف نسل، مذہب اور زبان کی بنیاد پر نفرت پھیلانے کا مقدمہ دائر کیا تھا۔

8- کنگنا رناوت کے خلاف ممبئی کی سیشن کورٹ دندوشی میں بھی مقدمہ درج ہے۔

ویکسین لگوانے والوں کا اچانک رش کیوں لگ گیا؟

0

دبئی: متحدہ عرب امارات کی کچھ ایئر لائنز نے ملک سے عمرہ کے لیے سعودی عرب جانے والے مسافروں کے لیے انفلوئنزا ویکسینیشن کے نئے اصول پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔

فلو کی ویکسین لازمی قرار دیے جانے کے بعد اسپتالوں نے ویکسین لگوانے والوں کا رش رلگ گیا ہے۔

اس ہفتے کے شروع میں UAE کی وزارت صحت اور روک تھام (MOHAP) نے عمرہ اور حج کے لیے جانے والے تمام مسافروں کے لیے انفلوئنزا کی ویکسینیشن کو لازمی قرار دیا تھا۔

رمضان میں عمرہ زائرین کیلیے 3 اہم شرائط

ساتھ ہی ویکسینیشن پروٹوکول اور صحت سے متعلق احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔

وزارت کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ عمرہ کے مسافروں کو 26 مارچ 2024 سے شروع ہونے والی انفلوئنزا کی ویکسینیشن کا ثبوت دکھانا ہوگا۔

وزارت نے ویکسین کی افادیت اور قوت مدافعت کو یقینی بنانے کے لیے عمرہ روانگی سے کم از کم 10 دن پہلے ویکسین لگانے کی بھی سفارش کی ہے۔

اتحاد ایئرویز نے جمعرات کو کہا کہ تمام مسافروں کو، سوائے مخصوص زمروں کے، ابوظہبی سے جدہ کا سفر کرنے والے کے پاس انفلوئنزا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ ہونا ضروری ہوگا۔

ابوظہبی ایئر لائن نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں صحت کے حکام کی طرف سے لاگو کردہ ضوابط کے مطابق منگل 26 مارچ سے اگلے نوٹس تک، ابوظہبی سے جدہ جانے والے اتحاد ایئرویز کے تمام مہمانوں کے پاس انفلوئنزا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ ہونا ضروری ہو گا۔

1857ء کی خونچکاں داستان غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

0

سر زمینِ ہند و پاک میں انگریزوں کی حکمرانی کا سنگِ بنیاد پلاسی کے میدان میں رکھا گیا۔ بعد ازاں قریباً نوے برس میں یہ اجنبی حکومت پورے ملک پر مسلط ہو گئی اور مزید سو برس تک عنان فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں رہی۔ اس عہد کا ایک نہایت اہم واقعہ 1857ء کا وہ ہنگامۂ خونین تھا جسے اہلِ وطن ابتدا ہی سے جنگِ آزادی قرار دیتے رہے۔ لیکن خود انگریزوں نے اسے ‘‘غدر‘‘ کا نام دیا۔ یہی نام مدّت تک تاریخ کی درسی کتابوں میں استعمال ہوتا رہا۔

مرزا غالب نے اپنی فارسی اور اردو تصانیف نظم و نثر میں اس واقعے پر جو کچھ لکھا اگر اسے الگ کتاب کی شکل میں مرتب کیا جائے تو یقین ہے کہ ایک ضخیم جلد تیار ہو جائے۔ فارسی نثر کی ایک کتاب جس کا نام ‘‘دستنبو‘‘ ہے صرف اسی واقعہ سے متعلق ہے۔ لیکن میں آج جو نقشہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ محض مرزا کے مکاتیب سے جستہ جستہ اقتباسات لے کر تیار کیا ہے۔

تمہید کے طور پر عرض کر دینا چاہئے کہ اس ہنگامے کا آغاز 11 / مئی 1857ء کو پیر کے دن ہوا تھا۔ چار مہینے اور چار دن انگریز شہر سے بے دخل رہے۔ 14/ ستمبر 1857ء کو وہ دوبارہ دہلی میں داخل ہوئے۔ 18/ ستمبر کو شہر مکمل طور پر ان کے قبضے میں آ گیا۔ مرزا اس پوری مدت میں ایک دن کے لیے بھی باہر نہ نکلے۔ ان کا مکان بلی ماراں میں تھا جہاں شریک خانی حکیموں کے مکانات تھے۔ اس خاندان کے بعض افراد سرکار پٹیالہ میں ملازم تھے۔ جب انگریزی فوج دوبارہ دہلی میں داخل ہوئی تو اہل شہر گھر بار چھوڑ کر دہلی دروازے ترکمان دروازے اور اجمیری دروازے سے باہر نکل گئے۔ بلی ماراں کے دروازے پر والیٔ پٹیالہ نے شریف خانی خاندان کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ بٹھا دیا تھا۔ اس طرح مرزا کی حفاظت کا بھی بندوبست ہو گیا اور انہیں گھر بار چھوڑ کر باہر نہ نکلنا پڑا۔

مرزا کے مکاتیب میں اس واقعے کے متعلق سب سے پہلی تحریر نومبر 1857 ء کی ہے جب کہ انگریز شہر پر قابض ہو چکے تھے۔ حکیم غلام نجف کو لکھتے ہیں :

‘‘میاں حقیقتِ حال اس سے زیادہ نہیں کہ اب تک جیتا ہوں۔ بھاگ نہیں گیا۔ نکالا نہیں گیا۔ کسی محکمے میں اب تک بلایا نہیں گیا۔ معرض باز پرس میں نہیں آیا۔ آئندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔‘‘

پھر 9/ جنوری 1857ء کو تحریر فرماتے ہیں :

‘‘جو دم ہے غنیمت ہے۔ اس وقت تک مع عیال و اطفال جیتا ہوں۔ بعد گھڑی بھر کے کیا ہو کچھ معلوم نہیں۔ قلم ہاتھ میں لئے بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر لکھ نہیں سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ‘‘

یہ اگرچہ چند فقرے ہیں جن میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ لیکن لفظ لفظ بتا رہا ہے کہ اس وقت حالات کتنے نازک تھے اور بے یقینی کس پیمانہ پر پہنچی ہوئی تھی۔

یہ ہنگامہ درحقیقت ایک خوفناک زلزلہ تھا جس نے سب کچھ تہہ و بالا کر ڈالا۔ جس ماحول میں مرزا نے اپنی زندگی کے ساٹھ برس گزارے تھے اس کی بساط لپیٹی جاچکی تھی اور اس کی جگہ بالکل نیا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ مرزا کے دل پر اس وسیع اور ہمہ گیر انقلاب کا اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ 1857ء کے پیشتر کے دور اور بعد دور کو دو الگ الگ عالم سمجھنے لگے تھے۔ یا کہنا چاہئے کہ ہندوؤں کے طریق تعبیر کے مطابق ان کے نزدیک ایک جنم ختم ہو گیا تھا، اور دوسرا جنم وجود میں آ گیا تھا۔ اپنے عزیز ہندو شاگرد ہر گوپال تفتہ کو تحریر فرماتے ہیں:

‘‘صاحب۔ تم جانتے ہو کہ یہ کیا معاملہ ہے اور کیا واقعہ ہوا۔ وہ ایک جنم تھا جس میں ہم تم باہم دوست تھے، اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر و محبت در پیش آئے۔ شعر کہے۔ دیوان لکھے اس زمانے میں ایک بزرگ تھے اور ہمارے تمہارے دلی دوست تھے۔ منشی نبی بخش ان کا نام اور حقیر ان کا تخلص۔ نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ اشخاص۔ نہ وہ معاملات نہ وہ اختلاط نہ و انبساط۔ بعد چند مدّت کے پھر دوسرا جنم ہم کو ملا۔ اگرچہ صورت اس جنم کی بعینہ مثل پہلے جنم کے ہے۔ یعنی ایک خط میں نے منشی صاحب کو بھیجا۔ اس کا جواب آیا۔ ایک خط تمہارا کہ تم بھی موسوم بہ منشی ہر گوپال و متخلص بہ تفتہ ہو، آیا اور میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کا نام دلّی اور اس محلّے کا نام بلی ماراں کا محلّہ۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں سے نہیں پایا جاتا۔‘‘

میں عرض کر چکا ہوں کہ انگریزی فوج کے داخلے کے ساتھ ہی اہل شہر باہر نکل گئے تھے۔ اور پورا شہر بے چراغ ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے اس کے بعد عام دار و گیر کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مرزا فرماتے ہیں: ‘‘مبالغہ نہ جاننا امیر غریب سب نکل گئے جو رہ گئے وہ نکالے گئے۔ جاگیردار پنشن دار، دولت مند، اہلِ حرفہ کوئی بھی نہیں۔ مفصل لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ملازمانِ قلعہ پر شدت ہے۔ باز پرس اور دار و لیر میں مبتلا ہیں۔‘‘

‘‘اپنے مکان میں بیٹھا ہوں۔ دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے۔ شہر میں ہے کون جو آوے ؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پائے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست (یعنی مارشل لا) یاز دہم مئی سے آج تک یعنی پنجشنبہ پنجم دسمبر 1857ء تک بدستور ہے۔ کچھ نیک و بد کا حال مجھ کو نہیں معلوم۔ ‘‘

مرزا کے ایک شاگرد، منشی شیو نارائن آرامؔ نے آگرے سے ایک اخبار نکالا تھا۔ مرزا سے استدعا کی کہ اس کے لیے خریدار بہم پہنچائیے۔ جواب میں فرماتے ہیں:

‘‘یہاں آدمی کہاں ہیں کہ اخبار کے خریدار ہوں۔ مہاجن لوگ جو یہاں بستے ہیں وہ یہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ گیہوں کہاں سستے ہیں۔ بہت سخی ہو گئے تو جنس پوری دے دیں گے۔ کاغذ (یعنی اخبار) روپیہ مہینے کا کیوں مول لیں گے۔ ‘‘

میر مہدی مجروح نے اسی زمانے میں ایک غزل بھیجی اس کے مقطع کا آخری مصرع یہ تھا:

‘‘میاں یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے ‘‘

اس مصرع نے مرزا کے سازِ درد کا ہر تار ہلا دیا۔ فرماتے ہیں:

‘‘اے میر مہدی۔ تجھے شرم نہیں آتی ‘‘میاں یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے۔ ‘‘

‘‘اے، اب اہل دہلی ہند ہیں یا اہلِ حرفہ ہیں۔ خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں ان میں سے تو کسی کی تعریف کرتا ہے۔ ۔ ۔ اے بندۂ خدا اردو بازار نہ رہا۔ اردو کہاں ؟ دلّی کہاں واللہ اب شہر نہیں ہے، کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار نہ نہر۔ ‘‘

نواب علاؤ الدین خان کو لکھتے ہیں :

‘‘میری جان۔ یہ وہ دلّی نہیں جس میں تم پیدا ہوئے۔ ایک کیمپ ہے۔ مسلمان اہلِ حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ، باقی سراسر ہنود۔ ‘‘

جنگِ آزادی میں اگرچہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے یکساں حصہ لیا تھا لیکن انگریزوں کی نظروں میں اصل مجرم صرف مسلمان تھے۔ چنانچہ وہی زیادہ تر دار و گیر کے ہدف بنے۔ انہیں کو بالعموم پھانسیاں ملیں۔ انہیں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں۔ شہر سے باہر نکلنے میں بھی ہندو اور مسلمان برابر تھے۔ لیکن ہندوؤں کو بہت جلد گھروں میں آباد ہونے کی اجازت مل گئی۔ مسلمان بدستور باہر پڑے رہے۔ یا جن کو کسی دوسرے شہر میں ٹھکانا نظر آیا، وہاں چلے گئے۔ مرزا لکھتے ہیں :

‘‘واللہ ڈھونڈھے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا۔ کیا امیر، کیا غریب کیا اہل حرفہ، اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہندو البتہ کچھ کچھ آباد ہو گئے ہیں۔

ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔

‘‘ابھی دیکھا چاہئے مسلمانوں کی آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں۔ ‘‘

مدت تک مسلمانوں کو شہر میں آباد ہونے کا حکم نہ ملا۔ تو ان میں سے بعض نے شہر کے باہر ہی جگہ جگہ عارضی مکان بنانے شروع کر دیے۔ اس پر حکم ہوا کہ سب مکان ڈھا دیے جائیں اور اعلان کر دیا جائے کہ آئندہ کوئی مکان نہ بنائے۔ مرزا لکھتے ہیں :

‘‘کل سے یہ حکم نکلا ہے کہ یہ لوگ شہر سے باہر مکان وکان کیوں بناتے ہیں۔ جو مکان بن چکے ہیں انہیں گروا دو۔ آئندہ کو ممانعت کا حکم سنا دو۔ آج تک یہ صورت ہے دیکھیے۔ شہر کے بسنے کی کون سی مہورت ہے۔ جو رہتے ہیں وہ بھی خارج کئے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے ہیں وہ شہر میں آتے ہیں۔ الملک للہ والحکم للہ۔ ‘‘

مرزا نے ایک عجیب عبرت افزا واقعہ لکھا ہے۔ جن مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط ہوئی تھیں ان میں ایک حافظ محمد بخش تھے جن کا عرف ‘‘مموں‘‘ تھا۔ بعد میں وہ بے قصور ثابت ہوئے اور جائیداد کی بحالی کا حکم مل گیا۔ انہوں نے کچہری میں درخواست دی کہ میری جائیداد پر قبضہ دلایا جائے۔ انگریز حاکم نے نام پوچھا۔ عرض کیا محمد بخش۔ چونکہ درخواست میں عرف بھی درج تھا اس لیے حاکم نے پوچھا ‘‘مموں ‘‘ کون ہے؟ عرض کیا کہ نام میرا محمد بخش ہے۔ لوگ مجھے ‘‘مموں، مموں ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ صاحب نے سن کر فرمایا:

‘‘یہ کچھ بات نہیں۔ حافظ محمد بخش بھی تم۔ حافظ مموں بھی تم۔ سارا جہاں بھی تم جو دنیا میں ہے وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں ؟ مسل داخل دفتر ہوئی۔ میاں اپنے گھر چلے آئے۔‘‘

ادیتی راؤ حیدری نے سدھارتھ سے شادی کی خبروں پر خاموشی توڑ دی

0
ادیتی راؤ حیدری

بالی ووڈ کی معروف اداکارہ ادیتی راؤ حیدری نے سدھارتھ سے شادی کی خبروں پر خاموشی توڑ دی۔

بھارتی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اداکارہ ادیتی راؤ حیدری سے سدھارتھ سے خاموشی سے شادی کرلی ہے تاہم اب اداکارہ نے انسٹاگرام پوسٹ میں اس کی وضاحت کردی ہے۔

اس سے قبل خبریں گردش کررہی تھیں کہ ادیتی اور سدھارتھ نے خاموشی سے شادی کرلی ہے تاہم اس حوالے سے جوڑے کی جانب سے کوئی تصدیق سامنے نہیں آئی تھی۔

ادیتی اور سدھارتھ نے 2021 میں فلم ماہا سمودرم میں ساتھ کام کیا تھا جس کے بعد دونوں کی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔

تاہم اب ادیتی راؤ حیدری اور سدھارتھ نے جمعرات کو انسٹاگرام پوسٹ کے ذریعے اپنی منگنی کی تصدیق کر دی ہے۔

دونوں اداکاروں نے انسٹاگرام پر اپنی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے مشترکہ بیان میں مداحوں کو منگنی کی خوشخبری سنائی۔ تصویر میں دونوں کے ہاتھوں میں منگنی کی انگوٹھی دیکھی جاسکتی ہے۔

ادیتی راؤحیدری کی پہلی شادی اداکار ستیہ دیپ مشرا کے ساتھ ہوئی تھی لیکن بعد میں دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی تھی۔

اداکار سدھارتھ نے 2003 میں میگھنا نارائن سے پہلی شادی کی تھی ان کی شادی بھی زیادہ نہیں چل سکی اور 2007 میں دونوں کر درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔

سڑک کی تعمیر نہ ہونے پر علاقہ مکینوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا

0
سڑک کی تعمیر نہ ہونے پر علاقہ مکینوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا

بھارت کی ریاست اتراکھنڈ کے دومک گاؤں کے رہائشیوں نے مرکزی سڑک کی تعمیر نہ ہونے پر لوک سبھا الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گاؤں والوں نے سیند سے دمک اور کلگوٹ تک سڑک کی تعمیر کیلیے مشترکہ کمیٹی تشکیل دے دی۔ کمیٹی کے کنوینر اور گاؤں کے سابق سربراہ پریم سنگھ سنوال نے بتایا کہ لوگوں نے سڑک کی تعمیر کا مطالبہ کرنے کیلیے 1990 سے اب تک دو بار انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔

پریم سنگھ سنوال نے بتایا کہ دومک کے مکینوں نے 2019 کے لوک سبھا الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا تاہم ضلعی انتظامیہ نے سڑک کی تعمیر کیلیے پولنگ سے ایک ہفتہ قبل گاؤں میں مشینیں بھیجی تھیں جس کے باعث بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لیا تھا۔

ان کے مطابق جیسے ہی الیکشن ختم ہوئے انتظامیہ گاؤں سے تمام مشینیں لے کر چلی گئی اور اب پانچ سال ہونے کے باوجود سڑکی کی تعمیر نہیں ہو سکی۔

انہوں نے بتایا کہ گاؤں والوں نے جنوری میں احتجاج کیا تھا تاہم وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی مداخلت اور یقین دہانی کے بعد احتجاج ملتوی کر دیا گیا تھا لیکن تعمیراتی کام ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔

پریم سنگھ سنوال کے مطابق ہم نے 15 مارچ کو ضلع مجسٹریٹ کو ایک میمورنڈم ارسال کر دیا جس میں الیکشن کے بائیکاٹ کے بارے میں بتایا گیا لیکن ہمیں اب تک جواب موصول نہیں ہوا۔

جنگ کے بعد غزہ پر کون حکومت کرے گا؟ حماس کا اہم بیان

0

حماس کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ پر فلسطینیوں کی حکومت اور انتظام ہو گا۔

حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ نے کہا کہ غزہ کے مستقبل سے متعلق تمام فیصلے فلسطینیوں کے معاہدے سے کیے جانے چاہئیں۔

ال یحییٰ نے ایرانی پریس ٹی وی کو بتایا کہ "غزہ کا انتظام اور حکمرانی فلسطینی عوام کریں گے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر حکومت تشکیل دی جانی چاہیے اور یہ کہ اسرائیل فلسطینیوں اور اس کی "تحریک مزاحمت” کے خلاف کوئی اختیار مسلط نہیں کر سکے گا۔

یحییٰ نے کہا کہ حماس الفتح کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے لیکن فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ نہیں اور اس کے باوجود وہ فلسطینی ریاست کی تشکیل کے لیے پُرعزم ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں محدود اختیارات رکھنے والی فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے وزیراعظم محمد مصطفیٰ کی پیش کردہ نئی حکومت کی منظوری دے دی ہے۔

نئے حکومتی ارکان اتوار کو عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔

مصطفیٰ نے کہا کہ نئی حکومت کی "اعلی قومی ترجیح” غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی کابینہ "غزہ کی ذمہ داری سنبھالنے سمیت اداروں کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے ویژن مرتب کرنے پر کام کرے گی۔

وفاق نے خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے اہم قدم اٹھا لیا

0

پشاور: حکومت نے خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے اہم قدم اٹھا لیا، سی ٹی ڈی کی استعداد کار بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے آج جمعرات کو پشاور میں سی ٹی ڈی ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا، جہاں انھوں نے ڈیٹا سینٹر، کرائم سین یونٹ، سی آئی اے یونٹ اور دیگر شعبوں کا معائنہ کیا، ایک اجلاس بھی منعقد کیا گیا جس میں سربراہ نیکٹا رائے طاہر، آئی جی کے پی اختر حیات گنڈاپور نے بھی شرکت کی، اور ایڈیشنل آئی جی شوکت عباس نے ادارے کی کارکردگی اور آئی جی کے پی نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز پر بریفنگ دی۔

اجلاس میں سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کی استعداد کار بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ سی ٹی ڈی کے پی کو ضروری ڈیٹا تک رسائی کی سہولت دی جائے گی، صوبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ فٹ پر ہے۔

انھوں نے کہا سائبر سیل کو وسعت دی جائے گی اور اس سلسلے میں ہر ممکن معاونت کریں گے، ڈیٹا شئیرنگ کا بھی مؤثر میکنزم بنایا جائے گا، محسن نقوی نے کہا خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی کا ادارہ مؤثر انداز میں کام کر رہا ہے۔

اشنا شاہ اور حمزہ امین نے پہلی ملاقات کی کہانی سنادی

0
اشنا شاہ

شوبز انڈسٹری کی معرف اداکارہ اشنا شاہ اور شوہر حمزہ امین نے پہلی ملاقات کی کہانی سنادی۔

اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام ’شانِ سحور‘ میں اشنا شاہ اور حمزہ امین نے شرکت کی اور بتایا کہ وہ کسی دوست کے ذریعے پہلی بار ملے تھے۔

حمزہ امین نے بتایا کہ ہم ایک دوسرے کے ذریعے ملے تھے، اشنا شاہ نے بتایا کہ وہ دوست بھارت میں تھے اور حمزہ پاکستان آئے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا کہ آپ اشنا سے سے ملیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری پہلے واٹس ایپ پر گفتگو ہوئی تھی، حمزہ نے میری تصاویر دیکھی تھیں پھر ہم نے دو دن باتیں کی اس کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔

میزبان نے پوچھا کہ وہ دوست آپ لوگوں کا رشتہ کروانا چاہ رہے تھے۔

اشنا شاہ نے کہا کہ میرے خیال میں ان کو لگا تھا کہ صحیح جوڑ بنے گا، حمزہ کو پتا بھی نہیں تھا کہ میں اداکارہ ہوں۔

حمزہ امین نے بتایا کہ میں اشنا سے شادی سے پہلے شوبز انڈسٹری کو فالو بھی نہیں کرتا تھا نہ مجھے کچھ معلوم تھا اور میرے خیال سے اشنا کو گالف سے متعلق کچھ علم نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب پہلی مرتبہ اشنا کی تصویر دیکھی تو خوبصورت لگی تھیں، میں نے کہا کہ ان سے ضرور ملنا ہے لیکن میں جلدی نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے تھوڑا انتظار بھی کیا۔

واضح رہے کہ اشنا شاہ اور حمزہ امین گزشتہ سال فروری میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے جس کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھیں۔

اشنا شاہ نے شادی لباس کے پر تنقید کیے جانے پر سوشل میڈیا سے عارضی طور پر کنارہ کشی بھی اختیار کرلی تھی۔

فلسطین میں نئی حکومت بن گئی

0

فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے نئی حکومت کی منظوری دے دی۔

مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں محدود اختیارات رکھنے والی فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے وزیراعظم محمد مصطفیٰ کی پیش کردہ نئی حکومت کی منظوری دے دی ہے۔

نئے حکومتی ارکان اتوار کو عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔

مصطفیٰ نے کہا کہ نئی حکومت کی "اعلی قومی ترجیح” غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی کابینہ "غزہ کی ذمہ داری سنبھالنے سمیت اداروں کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے ویژن مرتب کرنے پر کام کرے گی۔

محمود عباس کے دیرینہ اقتصادی مشیر مصطفیٰ نے سابق وزیر اعظم محمد شطیہ کی جگہ لی ہے جنہوں نے اپنی حکومت کے ساتھ فروری میں غزہ پر اسرائیل کی جنگ اور مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے درمیان تبدیلی کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔

پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر تحقیقات کیلیے حکومت کے انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا

0
پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر تحقیقات کیلیے حکومت کے انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط پر تحقیقات کیلیے وفاقی حکومت کے انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا۔

پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا جس کے اعلامیے میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی نے حساس معاملے پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات پر تشویش کا اظہار کیا اور معاملے کو لارجر بینچ کے سامنے رکھنے اور کھلی عدالت میں کارروائی کے مطالبے کا اعادہ کیا۔

اعلامیے کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط حکومت کے خلاف فردِ جرم ہے، ریٹائرڈ جج کے ذریعے تحقیقات شفاف تحقیقات سے بھونڈا مذاق ہے، خط میں ججز نے عدلیہ کے وجود کو لاحق بنیادی چیلنج کو بے نقاب کیا۔

پی ٹی آئی نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ پر ڈاکے پر وجود میں آنے والی حکومت بینفشری ہے، ملک میں جاری لاقانونیت اور مداخلت کی بڑی بینفشری حکومت ہے۔

کور کمیٹی نے کہا کہ چوری کے مینڈیٹ پر بیٹھا وزیر اعظم شہباز شریف ایسی تحقیقات کروانے کے قابل نہیں، چیف جسٹس پاکستان عدلیہ کے مستقبل کیلیے ساتھی ججز کو انصاف فراہم کریں۔

اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ ججز کے مطالبے کی روشنی میں جوڈیشل کانفرنس طلب کی جائے، ہر سطح کے ججز کو موضوع پر حقائق قوم کے سامنے رکھنے کا موقع دیا جائے۔

وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

اس سلسلے میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ وزیر اعظم اور چیف جسٹس پاکستان میں اہم قومی مسائل پر بات ہوئی، چیف جسٹس نے وزیر اعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا، وزیر اعظم کل کابینہ کے سامنے معاملہ رکھیں گے۔

اعظم نذیر تارڑ نے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ خط پر کمیشن بنے اور غیر جانبدار ریٹائرڈ شخصیت اس پر رپورٹ مرتب کرے، اس معاملے پر کمیشن بنائیں گے اور معاملہ کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت غیر جانبدار عدالتی شخصیت کو انکوائری سپرد کی جائے گی۔