منگل, جون 17, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 3

’پاکستان نے اسرائیل پر ایٹمی حملے کا کوئی بیان جاری نہیں کیا‘

0
اسحاق ڈار

نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے اسرائیل پر ایٹمی حملے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے فلور آف دی ہاؤس پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف ملکی دفاع وسلامتی کیلئے ہے۔

نائب وزیراعظم نے برطانوی اخبار میل آن لائن کی خبر کی دوٹوک الفاظ میں تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان نے اسرائیل پر ایٹمی حملے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ایسی گمراہ کن اور جھوٹی معلومات قومی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں ایسی رپورٹس عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی متاثر کر سکتی ہیں تمام حلقے احتیاط برتیں اور تصدیق شدہ معلومات پر انحصار کریں، پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔

برطانوی اخبار نے بےبنیاد اور جھوٹی خبر دی کہ پاکستان اسرائیل پر ایٹمی حملہ کر سکتا ہے۔

دنیا کی کہانی اور تہذیب کا اجالا

0
civilization تہذیبیں قدیم تہذیب ہڑپہ

دنیا کی کہانی میں حضرت آدم ؑ کا زمانہ وہ وقت ہے جب آدمی جانور سے انسان ہوا۔

سائنس کے پجاری حضرت آدم ؑ کو نہیں مانتے۔ لیکن یہی لوگ جب پرانی قوموں کے عقیدوں اور دھرم کو بیان کرتے ہیں تو ہمیں ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں ایک ایسے بزرگ کا نام ملتا ہے جنہوں نے آدم ؑ کی طرح نیکی اور بدی کا پھل چکھ کر، یونانی سورما پرومے تھیئس کی طرح آسمان سے آگ لاکر اور آدمی کو کھیتی باڑی کا فن سکھا کر، یم کی طرح سورگ کا رستہ تلاش کر کے آدمی اور جانور میں ایسا فرق پیدا کر دیا کہ پھر یہ دونوں ایک سے نہ ہو سکیں۔

پرانی قوموں کی روایتوں، پرانوں یا دیومالا میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آدمی کو دنیا آباد کیے بہت دن نہیں ہوئے تھے جب ایک طوفان آیا، جس میں تھوڑے سے لوگوں کے سوا سب ڈوب گئے۔ اگلے وقتوں میں عقل کی دھار اتنی تیز نہیں تھی کہ جہاں پر رکھی جائے وہیں کاٹ دے۔ شاید لوگ اس دھار سے کاٹنے کے علاوہ اور کام بھی لینا چاہتے تھے اور اس لیے ہمیں مذہبی عقیدے اور قصے کہانیاں، تاریخ اور خیالی باتیں سب ایک میں گتھی ہوئی ملتی ہیں۔ یا یہ سمجھیے کہ یہ ایک باغ ہے جسے ہم اتنی دور سے دیکھ رہے ہیں کہ چمن میں چمن، رنگ میں رنگ، پھول میں پھول مل جاتا ہے۔ ان قصے کہانیوں میں کانٹ چھانٹ کرنا بے ادبی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں تو بس دیکھیے، لطف اٹھائیے اور سبق حاصل کیجیے۔

طوفان کی لہروں اور گردابوں میں جب دنیا متھی جا چکی تھی تو زندگی کی اکھڑی ہوئی جڑیں پھر جمنے لگیں اور کہیں کہیں پر خاصی مضبوط جمیں۔ دریائے نیل کی وادی میں، جنوبی عراق میں، ہندوستان میں دریائے سندھ کے کناروں پر اور چین میں دریائے ہوانگ ہو اور انگ ٹسی کیانگ کے دہانوں پر۔ لیکن دنیا کی آبادی بس انہیں بستیوں میں نہیں تھی، ایسی بھی بہت سی نسلیں تھیں جنہیں کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ملا۔ انہیں خانہ بدوش کہتے ہیں، گویا وہ اپنا گھر کاندھوں پر لادے، مویشیوں کو چراتے گھوما کرتی تھیں۔ جب ان کی تعداد بہت بڑھ جاتی یا وہ پھرتے پھرتے بڑی بستیوں کے پاس پہنچ جاتیں تو ان میں اور بستی والوں میں، جنہیں وہ ظاہر ہے لوٹنا چاہتے تھے خوب لڑائیاں ہوتیں۔ ان میں آخر کار خانہ بدوش ہی جیتتے تھے۔ وہ بستی والوں کو مار ہٹاتے اور خود ان کی جگہ آباد ہو جاتے۔ پھر تین چار سو برس بعد کسی اور قوم کے ہاتھوں یہ نئی بستی بھی اجاڑ کر نئے لوگوں سے بسائی جاتی۔

تہذیب کے پرانے مرکز گھڑے بھرپانی میں شکر کے دو چار ڈلے تھے۔ پانی ہلا دیا جاتا تو وہ گھل جاتے، پھر جب وہ ٹھہر جاتا تو شکر بیٹھ جاتی۔ لیکن پانی کو ہلانے والے کچھ نہ کچھ مٹھاس بھی اپنے ساتھ لاتے تھے۔ گھلنے کے بعد جو شکر جمع ہوتی وہ پہلے سے کچھ زیادہ ہی ہوتی اور گھڑے کا پانی بھی ذرا اور میٹھا ہی ہو جاتا۔ اس طرح تہذیب پھیلتی رہی۔ عراق، مصر، ہندوستان کے علاوہ بحر روم، جسے انگریزی میں (MEDITERRNEAN SEA) کہتے ہیں، کے ساحل پر فلسطین میں، شام میں، کریٹ کے جزیرے میں، اٹلی کے ضلع ایڑوریا میں، شمالی افریقہ میں آج کل کے شہر تونس کے قریب تہذیب کے مرکز قائم ہوئے۔

ہمارے عالم ابھی یہ نہیں طے کر پائے کہ مصر کی تہذیب سب سے زیادہ پرانی ہے یا جنوبی عراق کی سو میری تہذیب۔ لیکن یہ دونوں بہر حال آٹھ دس ہزار برس پرانی مانی جاتی ہیں۔ اور ہندوستان کے اندر ہڑپہ اور موہنجوڈارو میں جن بستیوں کے نشان ملے ہیں، ان میں سب سے پرانی ان سے کچھ کم نہ ہوں گی۔ مصر کے پرانے شہر تھیبز، ممفس اور ہیلی اوپولس، جنوبی عراق میں بابل اور شمال میں نینوا، کریٹ میں شہر کنوسوس تہذیب کے اس دور میں آباد ہوئے اور سیکڑو ں برس آباد رہے۔

اب سے کوئی ساڑھے چار ہزار برس پہلے ایک نئی نسل نے جس کا ہمیں نام تک معلوم نہیں ہے اور جو اپنے آپ کو آریہ یعنی پاک یا پوتر کہتی تھی خدا جانے کہاں سے نکل پڑی۔ اس نے جنوبی یورپ، عراق، ایران اور ہندوستان پر قبضہ کیا۔ پرانی تہذیب کو کچھ مٹایا، بہت کچھ اختیار کرکے اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ ہندوستانی، ایرانی، یونانی اور رومی آریہ تھے تو سب ایک ہی خاندان کے لوگ، مگر سب نے الگ الگ طبیعت اور مزاج پایا تھا اور سب نے دنیا میں مختلف یادگاریں چھوڑیں۔ آریوں کاسب سے پہلا سامراج ایران میں قائم ہوا اور شام سے لے کر ہمارے دریائے سندھ تک پھیلا۔ پھر اسے یونانی آریوں کے مشہور بادشاہ سکندر نے مٹایا اور اسی کے تھوڑے دن کے بعد ہندوستان میں موریا سامراج کی بنیاد پڑی۔

یہ ادھر ختم ہوا تھا کہ مغرب میں رومی سلطنت کا ستارہ چمکا۔ اسی زمانے میں نئی خانہ بدوش نسلوں نے منگولیاں کی چراگاہوں سے نکل کر ذرا سی مدت میں ہندوستان، ایران، ترکی اور مشرقی یورپ کو برباد اور پھر آباد کیا۔ یہ ہیں شروع سے حضرت عیسیٰؑ کے زمانے تک کی تاریخ کی موٹی موٹی باتیں۔ اب آئیے اسی زمانے پر دوسرے پہلو سے نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ان چھ سات ہزار برس میں انسان نے کتنی ترقی کی۔

جدید پتھر کا زمانہ ۸۰۰۰ ق م

پہلے مکان بنے ۷۰۰۰ ق م

سومیری تہذیب کی ابتدا ۶۰۰۰ ق م

سومیریوں نے لکھنا شروع کیا۔ مصر کا پہلا شاہی خاندان ۵۰۰۰ ق م

موہنجوڈارو اور ہڑپہ کے پہلے شہر بنے۔ فونیقی تہذیب کا آغاز

پہلے جہاز بنے ۳۰۰۰ ق م

عراق، مصر، ہندوستان اور بحر روم کے ساحل پر شہری زندگی، فونیقی تجارت کے ساتھ وہ ابجد پھیلی جو انہوں نے عراقی،، مصری طرز تحریر کو ملا کر تیار کی تھی۔

آریہ زبانیں پھیلیں ۲۰۰۰ ق م

ایران، ہندوستان اور یونان میں آریہ مذہب اور تہذیب کی بنا۔ فونیقی تہذیب کا خاتمہ۔ ایرانیوں اور یونانیوں کی جنگ ۵۰۰ ق م

سکندر اعظم ۳۲۰ ق م

ہم جسے تہذیب کہتے ہیں اس کے معنی ہیں دین ایمان کے، دھرم، قانون اور علم کے سائے میں اپنی زندگی بسر کرنا، اپنی محنت سے اس زندگی کو سرسبز رکھنا، نیک حوصلوں سے اس کو رونق دینا اور صنعت و تجارت کے ذریعہ سے وہ چیزیں حاصل کرنا جن سے آرام پہنچتا ہے یا جن کی خوبصورتی دل کو خوش کرتی ہے۔ ہر قوم اپنی زندگی اپنی طبیعت اور مذاق کے ڈھنگ پر بناتی ہے اور سنوارتی ہے، مگر پھر بھی آدمی تو ہر جگہ رہتا ہے اور اگر نام اور چند خصوصیات کا پردہ ہٹا دیا جائے تو ہمیں ہر جگہ قریب قریب ایک ہی سی زندگی نظر آئے گی۔ مصر، سومیریا، بابل، قدیم ہندوستان اور ایران میں مذہب امید اور خوف کی وہی دورخی تصویر تھی، اس میں ان قوتوں سے لگاؤ بڑھایا جاتا تھا جو زندگی کو قائم رکھتی اور اسے پروان چڑھاتی ہیں۔

ان قوتوں کو رام کرنے کی فکر کی جاتی تھی، جن سے نقصان اور موت کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن آدمی ان قوتوں کو پوری طرح جانتا پہچانتا نہیں۔ وہ اتنی بڑی ہیں اور اسے ہر طرف سے اس طرح گھیرے ہوئے ہیں کہ اس کی عقل حیران رہتی ہے۔ وہ انہیں طرح طرح کی شکلوں میں تصور کرتا ہے، طرح طرح کے نام دیتا ہے اور جس بات کو وہ صاف صاف کہہ نہیں سکتا اس لیے کہ وہ صاف صاف سمجھتا نہیں، اسے وہ ایک کہانی بنا دیتا ہے۔ پرانی قوموں کی دیو مالا میں ہزاروں ایسی کہانیاں ہیں اور ایسی ملتی جلتی کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب ایک ہی حقیقت کو بیان کرنے کی الگ الگ کوششیں ہیں۔

مذہب کے اس شاعرانہ پہلو کے ساتھ ہمیں ہر جگہ دھرم اور قانون بھی شروع ہی سے ملتے ہیں اور انہیں آپ دیکھیے تو وہ آج کل کے قانون سے بہت مختلف نہیں، بلکہ بعض باتوں میں آج کل سے بہتر بھی ہیں۔ مصر میں اوسی رس اور اس کے بعد کئی بادشاہوں نے، بابل میں شاہ ہموربی نے، یہودیوں کے لیے حضرت موسیؑ نے، کریٹ کے جزیرے میں مینوس نے مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی یعنی سماجی قانون بنائے۔

شاہ ہموربی کا قانون ایک پتھر پر نقش کیا ہوا ملا ہے۔ اس میں بعض جرم جیسے چوری، ایسے ہیں جن کی سزا آج کل بہت سخت معلوم ہوتی ہے۔ بعض باتیں ایسی ہیں کہ ہم ترقی کرکے بھی ان تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ مثلا یہ کہ شہر میں کسی کے یہاں ڈاکہ پڑے تو حکومت کا فرض ہے کہ مجرم کو پکڑ کر مال واپس پہنچائے یا اپنے پاس سے نقصان پورا کرے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ عورتوں کو بہت آزادی تھی، ان کے حق مردوں سے کسی طرح کم نہ تھے۔ ان کو جائیداد اور ورثے میں حصہ ملتا تھا۔ وہ کاروبار کر سکتی تھیں اور کرتی تھیں۔ اور مصر کی ملکہ ’’ہتھ سے پت‘‘ اور ملکہ تئی اور بابل کی ملکہ سمیرمس کے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں عورتیں راج پاٹ کی اہل مانی جاتی تھیں۔

مصری قصوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اپنی عورتوں سے ڈرتے اور دبتے تھے، اور یہ خیال صحیح نہ ہو تب بھی ہم یہ تو جانتے ہیں کہ مصر اور بابل میں عورتیں شادی کے بعد شوہر کی ذات یا اس کے خاندان میں گم نہیں ہو جاتی تھیں، بلکہ ان کا اصل رشتہ اپنے ماں باپ ہی سے رہتا تھا اور وہ آسانی سے طلاق لے سکتی تھیں۔

قانون کے بعد ہم اس زمانے کی زندگی اور شعبوں کو دیکھیں تو بڑی حیرت ہوتی ہے۔ مصر اور بابل میں حکومت کی طرف سے آب پاشی کا پورا انتظام تھا۔ دریاؤں سے نہریں کاٹ کاٹ کر دور تک پانی پہنچایا گیا تھا اور سیلاب اور بارش کے پانی کو جمع رکھنے کے لیے بڑے بڑے تالاب بنے تھے۔ جان و مال کی حفاظت کو ہر بستی میں پولس اور شہروں میں فوج تھی۔ اور ہم تک مصر اور بابل کے کئی ایسے قصے پہنچے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ خود قاعدے اور قانون کا بہت لحاظ کرتے تھے اور سرکاری ملازموں کو ظلم و زیادتی سے روکتے رہتے تھے۔ مقدموں کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالتیں موجود تھیں اور ان کا مرتبہ ایسا تھا کہ وہ اپنا فرض خوبی سے انجام دی سکتی تھیں۔

قانون اور ملکی انتظام کی طرح اس علم کی، جس پر ہم ناز کرتے ہیں اسی زمانے میں داغ بیل ڈالی گئی۔ مصر اور بابل میں لکھنے کا طریقہ ایجاد کیا گیا۔ بابل والے مٹی کی تختیاں بناکر جب وہ گیلی ہوتیں اسی وقت ان پر ایک نکیلے اوزار سے گڑو گڑو کر لکھتے تھے، پھر ان تختیوں کو سکھا لیتے۔ جیسا ان کا کاغذ قلم تھا ویسا ہی ان کا خط بھی تھا، اور بابل میں تو خط و کتابت کی رسم بھی جاری تھی اور لوگ انہی تختیوں کو مٹی کے ڈبوں میں بند کر کے ڈاکیوں کے ذریعے ایک دوسرے کے پاس بھیجتے تھے۔ لکھنے کے اس طریقے میں بڑی طوالت تھی۔

مصر میں ایک قسم کی نرم تنے کی بانسی ہوتی تھی جسے پپی رس کہتے ہیں، اس کی چھال سے آسانی کے ساتھ ایک طرح کا کاغذ تیار کیا جا سکتا تھا۔ مصری شروع میں تو جس چیز کا ذکر کرنا ہوتا اس کی تصویر بناتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ انہی تصویروں سے ایک ایسا لکھنے کا طریقہ نکالا گیا جس میں آدمی جلدی اور صفائی سے اپنا مطلب ادا کر سکتا تھا۔ بابل اور مصر کی کوششوں سے فائدہ اٹھاکر ایک قوم نے جو فونیقی کہلاتی ہے، پورے پورے لفظوں کی جگہ الگ الگ حرف بنائے جن میں سے ہر ایک کسی خاص آواز کی علامت تھی۔ فونیقی تاجر تھے، انہوں نے تجارت کے ساتھ لکھنے کے اپنے خاص طریقے کو پھیلایا اور چینی اور جاپانی کے سوا دنیا میں جتنی زبانیں ہیں ان سب میں یہی حرف شکلیں بدل کر اور کچھ کمی بیشی کے ساتھ رائج ہوئے۔

لکھنے پڑھنے کے علاوہ اور علم بھی تھے جو اس زمانے میں حاصل کیے گئے۔ وقت کو سالوں میں، سال کو مہینے اور ہفتے، دن کو پہروں میں سب سے پہلے بابل والوں نے تقسیم کیا اور دھوپ گھڑی سب سے پہلے انہی نے بنائی۔ ستاروں اور برجوں کے نام انہی نے رکھے اور شبھ گھڑی نکالنے اور ستاروں سے فال دیکھنے کی رسم انہوں نے شروع کی، مصریوں نے جنتری بنائی، اورحساب اور اقلیدس یا (GEOMETRY) میں انہوں نے جو کمال حاصل کیا اس کے ثبوت کے لیے اہرام مصر یعنی PYRAMIDS موجود ہیں۔ ان میں جو سب سے بڑا ہے وہ سیکڑوں من وزنی پتھروں سے بنا ہے جن کی کل تعداد ۲۰ لاکھ کے قریب ہوگی۔

یہ پتھر بغیر چونے مسالے کے ایسی صفائی سے بٹھائے گئے ہیں کہ ان کے جوڑ مشکل سے دکھائی دیتے ہیں اور ہزاروں برس میں اپنی جگہ سے رتی بھر بھی نہیں سرکے ہیں۔ یہ عمارت نیچے ۷۴۸ فٹ مربع ہے اور اونچائی میں ۴۴۰ فٹ یعنی قطب مینار سے کوئی دو سو فٹ زیادہ ہے۔ جن لوگوں نے ان وزنی پتھروں کو کاٹ کر اور تراش کر اتنی بلندی پر پہنچایا وہ اناڑی نہیں تھے اور ان کی اس یادگار کو دیکھ کر ہمیں اپنے علم پر زیادہ گھمنڈ نہ کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ بابل میں بھی ایسی ہی ایک اونچی اور عالیشان عمارت تھی، مگر آسمان نے اس کی بلندی پر رشک کھا کر اسے زمین میں سے ملا دیا۔

جہاں ایسی عمارتیں بنائی جا سکتی تھیں وہاں سمجھیے خوبصورت شہر اور مکان بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ مصر، عراق، کریٹ اور ہمارے ہندوستان کے اندر موہنجوڈارو اور ہڑپہ میں شہر کے شہر زمین سے کھود کر نکالے گئے ہیں۔ ان کے کھنڈروں سے ہم اس رونق کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتے جو زندگی اور آبادی کے ساتھ آتی اور جاتی ہے، مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ شہر پھیلاؤ میں آج کل کے قصبوں سے کچھ کم نہیں، مکان اینٹ اور چونے کے بنے ہوئے اور تین تین چار چار منزل اونچے ہیں۔ سڑکیں چوڑی ہیں اور گندے پانی کے نکاس کا اچھا انتظام ہے۔

اب اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ جو لوگ یہاں رہتے تھے وہ نہایت ہی شائستہ تھے۔ ان کھنڈروں میں ہمیں بہت ہی خوش نما برتن اور زیور ملے ہیں اور جس طرح آج کل ایک ملک کی بنی ہوئی چیزیں دوسرے ملکوں میں پہنچتی ہیں ویسے ہی اس وقت بھی ایک جگہ کی چیزیں دوسری جگہ جاتی تھیں اور ایک جگہ کے فیشن اور رسم کی دوسری جگہ نقل کی جاتی تھی۔ ریل اور ہوائی جہاز نہ ہونے پر بھی اس زمانے کی دنیا تنگ یا چھوٹی نہیں تھی۔
سب سے زیادہ تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب ہم مورتوں اور تصویروں میں اس زمانے کے لوگوں کی صورتیں دیکھتے ہیں اور ان کی صحبتوں اور دلچسپیوں کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ عراق، مصر اور کریٹ کے لوگوں نے بس یہی نہیں کیا کہ ایسے قانون اور زندگی کے ایسے اصول بنائے جن سے ان کی تہذیب مدتوں قائم رہی یا علم اور فن کو ایسے درجے پر پہنچایا کہ ان کے کارنامے دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیں۔

زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کا انہوں نے ایسا انتظام کر لیا تھا کہ انہیں اپنی معاشرت کو طرح طرح کی نفاستوں سے سنوارنے کا موقع تھا، ان کی صورتوں سے شائستگی ٹپکتی تھی، وہ مہذب میل جول کے آداب سے واقف تھے، ان کی عورتوں نے وہ تمام ترکیبیں معلوم کر لی تھیں جن سے ناک نقشے یا ڈیل ڈول کی کسر پوری کی جاتی ہے اور آرائش کے اس فن کے قدردان بھی کم نہ تھے۔ دریا اور باغوں کی سیر، دعوتیں، محفلیں، یہ سب روزمرہ کی باتیں تھیں۔ اہل فن کی قدر، پردیسیوں کی خاطر مدارات، محتاجوں کی مدد، اس میں ہم آج تک کوئی ایسا ڈھنگ نکال نہیں سکے جس کی انہیں خبر نہ تھی۔ تہذیب کا اجالا جیسا اب ہے ویسا ہی کچھ تب بھی تھا۔

(معروف ہندوستانی اسکالر اور ماہر تعلیم محمد مجیب کا علمی و تحقیقی مضمون)

ایئر انڈیا نے طیارہ حادثے کے بعد اپنی پروازیں ختم کرنے کا اعلان کردیا

0

بھارتی شہر احمدآباد میں پیش آنے والے اندوہناک طیارہ حادثے کے بعد ایئر انڈیا نے منی پور میں اپنی سروسز ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

ٹاٹا گروپ نے طیارہ حادثے میں 241 افراد کی ہلاکت کے بعد اہم فیصلہ کرتے ہوئے ریاست منی پور کے دارلحکومت امپھال میں اپنی ایئرلائن ایئرانڈیا کی فل سروس کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، ایئر انڈیا نے 15 جون 2025 سے منی پور کے بین الاقوامی امپھال ایئرپورٹ پر اپنا آپریشن ختم کر دیا ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے بتایا کہ پیر 16 جون 2025 کو ایئرپورٹ اتھارٹی آف انڈیا (اے اے آئی) کے حکام نے اس حوالے سے مطلع کیا ہے۔

ایئر انڈیا کے مالک کا ہلاک افراد کے لواحقین کیلئے 1،1 کروڑ روپے امداد کا اعلان

رپورٹس کے مطابق کمپنی کم لاگت والی ایئرلائن ایئر انڈیا ایکسپریس کے ذریعے بھارتی کی شمال مشرقی ریاست سے آنے والے روٹس پر سروس جاری رکھے گا۔

کمپنی کا یہ اقدام مبینہ طور پر ایک دیرینہ اور پہلے سے طے شدہ فیصلہ تھا، ہوائی اڈے کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ‘یہ ایئر لائن کے ایک دیرینہ، پہلے سے طے شدہ اسٹریٹجک فیصلے کا حصہ ہے، اس کا کسی بھی حالیہ واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔

ایک اور اہلکار نے بتایا کہ ٹاٹا گروپ کی جانب سے کمپنی کو تبدیل کرنے کی کوششوں کے بعد کمپنی ’اسٹریٹجک ریلائنمنٹ‘ کے تحت اس طرح کے اقدامات کررہی ہے۔

’بھارتی خاتون نجومی نے ایک ہفتہ قبل طیارہ حادثے کی پیشگوئی کردی تھی‘

پاکستان ایران کے درمیان ساحلی علاقے میں 35 فٹ لمبی بلیو وہیل مردہ پائی گئی

0

پاکستان ایران کے درمیان گوٹربے کے علاقے میں 35فٹ لمبی بلیو وہیل مردہ حالت میں پائی گئی ہے، مقامی ماہی گیر نے اطلاع دی۔

تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف نے مردہ بلیو وہیل کے حوالے سے بتایا کہ مقامی ماہی گیر نے بلوچستان کنتانی کے قریب مردہ وہیل کی اطلاع دی، اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہیل چند روز پہلے مرگئی ہوگی۔

بلوچستان کے ساحل پر 30 فٹ لمبی بروڈز وہیل مردہ حالت میں برآمد

اس سلسلے میں ڈبلیو ڈبلیو ایف نے مزید بتایا کہ تاحال بلیو وہیل کی موت کی اصل وجہ کا پتہ نہیں چل سکا ہے، وہیل گلنیٹ میں پھنس گئی ہے جو ماہی گیر استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں آخری بلیو وہیل 8اپریل 2024 کو بلوچستان کے شہر گڈانی میں دیکھی گئی تھی، بلیو وہیل کی زیادہ سے زیادہ لمبائی تقریباً 100 فٹ اور وزن 200 ٹن تک ہوسکتا ہے۔

کراچی کے قریب چرنا آئی لینڈ پر پہلی بار ’کلر وہیل‘ کی آمد

ویڈیو: حجاج کرام سے بھرا طیارہ حادثے سے بال بال بچ گیا

0

جدہ سے حجاج کرام کو لے کر لکھنؤ پہنچنے والا طیارہ ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے دوران حادثے سے بال بال بچ گیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق جدہ سے حجاج کرام کو لے کر طیارہ لکھنؤ کے اموسی ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے دوران پہیہ سے چنگاری اور تیز دھواں نکلنے کی وجہ سے حادثے سے بچ گیا۔

طیارہ کے پہیہ میں آگ لگنے کا یہ واقعہ لینڈنگ کے بعد ٹیکسی وے پر جانے کے دوران ہوا، جس سے طیارہ میں سوار تقریباً 250 لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی تھی۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہےکہ پہیہ میں آگ اور دھواں نکل رہا ہے اور سبھی حجاج کرام اور عملہ کے اہلکار طیارہ میں ہی موجود تھے۔

پائلٹ نے طیارہ کے ذیلی حصے میں چنگاری اور دھواں نکلنے کی اطلاع ایئر ٹریفک کنٹرولر (اے ٹی سی) کو دی۔

خبر ملتے ہی فوراً فائر بریگیڈ کی ٹیم موقع پر پہنچی اور کچھ دیر کی مشقت کے بعد ہی چنگاری اور دھواں کو ختم کر دیا گیا ہے، اس فوری کارروائی کی وجہ سے کوئی بڑا حادثہ ہونے سے بچ گیا۔

ایران کا اسرائیلیوں کو تل ابیب فوری خالی کرنے کا حکم

0
اسرائیلی ہلاک

ایران نے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کے شہریوں کو فوری انخلا کا انتباہ دے دیا۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران نے عبرانی زبان میں جاری بیان میں اسرائیلی عوام کو خبردار کرتے ہوئے پیغام دیا کہ تل ابیب محفوظ نہیں رہا لہذا فوری چھوڑ دیں۔

اسرائیلیوں کو کہا گیا ہے کہ اپنی حفاظت اور سلامتی کیلئے فوری شہر چھوڑ دیں۔ ایران نے اسرائیلی شہریوں کو جان بچانےکیلئے فوری علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔

تل ابیب پر ایرانی حملے کا خطرہ ہے جس سے اسرائیلی شہریوں میں خوف کی لہر ہے۔

کچھ دیر پہلے اسرائیل نے بھی تہران کے شہریوں کیلئے انتباہ جاری کرتے ہوئے ایک وسیع علاقے کو خالی کرنے کا پیغام دیا تھا۔

جیسے تو تیسا کے مصداق ایران نے بھی فوری ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی شہریوں کو انخلا کا حکم دیا ہے۔

سندھ کو پلاسٹک تھیلیوں سے پاک کرنیکا ہدف، پابندی کے پہلے روز دکانداروں نے کتنا عمل کیا؟

0
پلاسٹک پر پابندی

کراچی: سندھ میں تمام اقسام کے پلاسٹک بیگز پر پابندی کا آج پہلا روز تھا، پلاسٹک بیگز کی فروخت پر پابندی 15 جون سے نافذالعمل ہوچکی۔

تفصیلات کے مطابق صوبے میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کے بعد سیپا ٹیموں نے تجارتی و کاروباری مراکز کا دورہ کیا، دکانداروں کو پلاسٹک بیگز کی فروخت روکنے کی وارننگ جاری کی گئی، سیپا ٹیموں کی دکانداروں کو ماحول دوست متبادل ذرائع اپنانے کی ہدایت کی۔

دکانداروں کو پلاسٹک بیگز کا اسٹاک تلف کرنے کی مہلت ختم ہوگئی ہے، کورنگی وضلع وسطی کے دکانداروں نے سیپا ٹیموں کی ہدایت پرعمل کیا۔

بعض دکانوں پر پلاسٹک بیگز کی عدم دستیابی کی اطلاع چسپاں کردی گئی ہیں، مہم وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر دوست محمد راھموں کی ہدایت پرجاری ہے، سیکریٹری ماحولیات آغا شاہنواز کی ہدایت پر بھی کارروائیاں جاری ہیں۔

ڈی جی سیپا وقار حسین نے کہا کہ وارننگ کے بعد خلاف ورزی پرسخت کارروائی ہوگی، سندھ کو پلاسٹک تھیلیوں سے پاک بنانے کا ہدف مشاورت سے ممکن بنائیں گے۔

سیپا نے کہا کہ ماحول دشمن بیگز سے ماحول اور صحت دونوں کو نقصان ہوتا ہے، سیپا کی مہم روزانہ کی بنیاد پر جاری رہے گی۔

حکومت کا پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی پر عمل درآمد سخت کرنے کا فیصلہ

ویرات کوہلی کا ایڈن مارکرم سے متعلق پرانا ٹوئٹ وائرل

0

بھارت کے مایہ ناز کرکٹر ویرات کوہلی کا جنوبی افریقی کرکٹر ایڈن مارکرم سے متعلق کیا گیا پرانا ٹوئٹ وائرل ہوگیا۔

ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل میں جنوبی افریقا نے آسٹریلیا کو 5 وکٹوں سے شکست دے کر پہلی بار ٹائٹل اپنے نام کرلیا، ایڈن مارکرم کو شاندار سنچری اسکور کرنے پر فائنل کا بہترین کھلاڑی قرار دیا۔

آسٹریلیا نے جنوبی افریقا کو 282 رنز کا ہدف دیا تھا جسے جنوبی افریقا نے باآسانی 5 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کیا۔

جنوبی افریقا کے کپتان ٹمبا باووما نے بھی ایڈن مارکرم کی شاندار اننگ کی تعریف کی۔

تاہم سوشل میڈیا پر بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی کا اینڈن مارکرم کے لیے کیا ٹوئٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا ہے۔

ویرات کوہلی نے 2018 میں ٹوئٹ کیا تھا کہ ’اینڈن مارکرم کو بیٹنگ کرتے دیکھ کر خوشی ہوئی۔‘

چاندی کی قیمت میں آج کتنا اضافہ ہوا؟

0

پاکستان میں چاندی کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں چاندی کی مانگ و رسد، ڈالر کی قیمت، مہنگائی، عوامی مانگ اور سرکاری پالیسیوں جیسے مختلف عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔

ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کا تعین اس لیے اہم ہے کہ تاریخی طور پر یہ ایک معیاری وزن سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر چاندی کے زیورات اسی وزن اور مخصوص معیار کے تحت تیار کیے جاتے ہیں، پاکستان کے مختلف شہروں میں چاندی کی قیمت میں تھوڑا سا اتار چڑھاؤ پایا جاسکتا ہے۔

ملک میں مقامی کرنسی کے حساب سے روزانہ چاندی کی قیمت اپ ڈیٹ ہوتی ہے، فی گرام چاندی، دس گرام چاندی اور فی تولہ چاندی کی قیمت آج ملک میں کیا رہی اس حوالے سے ذیل میں قیمتوں کی تفصیلات بتائی گئی ہی۔

ملک بھر میں چاندی کی قیمت میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں آج 10 گرامی چاندی کی قیمت 3,303 روپے رہی جبکہ ان شہروں میں ایک تولہ چاندی کی قیمت 3,849 روپے ریکارڈ کی گئی۔

اسی طرح راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی چاندی کے نرخ یکساں رہے، ان شہروں میں 10 گرامی چاندی کی قیمت 3,303 روپے رہی جبکہ ایک تولہ چاندی کی قیمت 3,849 روپے رہی۔

پاکستان میں چاندی کو صرف زیورات کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ یہاں چاندی کی سرمایہ کاری کے بارے میں کچھ اہم باتیں جاننا ضروری ہے:

مہنگائی کے خلاف ایک ہیج: چاندی کو اکثر مہنگائی کے خلاف ایک ہیج سمجھا جاتا ہے۔ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو چاندی کی قیمت میں بھی اضافہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

طویل مدتی سرمایہ کاری: چاندی میں سرمایہ کاری کو طویل مدتی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی قیمت میں مختصر مدت میں اتار چڑھاؤ آ سکتا ہے لیکن طویل مدت میں یہ ایک اچھی سرمایہ کاری ثابت ہو سکتی ہے۔

سونا کے مقابلے میں کم خطرناک: سونا کے مقابلے میں چاندی کو کم خطرناک سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ سونا بھی ایک محفوظ سرمایہ کاری ہے لیکن چاندی کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کم ہوتا ہے۔

ایرانی صدر کا پاکستان سے اظہارِتشکر، پارلیمنٹ میں شکریہ پاکستان کے نعرے

0

ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے اسرائیلی حملے کی مذمت اور ایرانی موقف کی تائید پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

ایرانی صدر نے پارلیمنٹ سے خطاب میں پاکستان کی پارلیمنٹ کے مؤقف پر اظہارتشکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام اور پارلیمنٹ ایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔

صدر نے کہا کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے ایران کیخلاف اسرائیلی اقدام کو گھناؤنا قرار دیا اور کہا کہ جہاں ضرورت پڑی ایران کا بھرپور ساتھ دیں گے۔

ویڈیو کےلیےکلک کریں

ایرانی صدر کے خطاب کے بعد ایرانی پارلیمنٹ میں ’’شکریہ پاکستان‘‘ کے نعرے گونج اٹھے۔ پاکستان تشکر! ایران کی مجلس شوریٰ میں پاکستان کےحق میں زبردست نعرے بازی کی گئی۔

پاکستان کے دوٹوک اور واضح مؤقف اور حمایت پر ایرانی قیادت نے اظہارتشکر کیا اور پاکستان کی حمایت پر زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔