ہفتہ, جون 28, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 8085

پی ای سی ایچ ایس میں ڈکیتی کی ویڈیو سامنے آگئی

0

کراچی : پی ای سی ایچ ایس بلاک ٹو میں دن دہاڑے ڈکیتی کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی۔ ڈاکوؤں نے دیدہ دلیری سے سرعام لوٹ مار کی۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گاڑی میں سوار نوجوان اور خاتون کو لوٹ لیا گیا، فوٹیج میں کار کے پیچھے سے 2موٹر سائیکل سوار3 ڈاکوؤں کو آتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اس دوران ایک ڈاکو خاتون کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے تو گلی میں موجود شخص موٹر سائیکل سوار ڈاکو کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ڈاکو کا اسلحہ دیکھ کر گلی میں کھڑا شخص پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

ڈاکو کار سوار سے نقدی اور موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیاء چھین کر فرار ہوتے ہیں، فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے ایک ڈاکو نے بیگ بھی لٹکایا ہوا ہے۔

علاوہ ازیں کراچی کے علاقے کورنگی میں نامعلوم سمت سے آنے والی گولی لگنے سے 13سال کی بچی زخمی ہوگئی جسے طبی امداد کیلئے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

عالیہ علی کی مزاحیہ ویڈیو وائرل

0

شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ عالیہ علی کی مزاحیہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکارہ عالیہ علی نے دلچسپ ویڈیو شیئر کی جسے مداحوں کی جانب سے خوب سراہا جارہا ہے۔

عالیہ علی ویڈیو میں لپسنگ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’کہتے ہیں پیار کی شروعات لڑائی سے شروع ہوتی ہے، ابھی ابھی اس کے سر پر اینٹ مار کر آئی ہوں آتا ہی ہوگا آئی لو یو بولنے۔‘

اداکارہ نے چند گھنٹوں قبل یہ دلچسپ ویڈیو شیئر کی جسے ہزاروں کی تعداد میں مداح دیکھ چکے ہیں اور اس پر تعریفی کمنٹس بھی کررہے ہیں۔

عالیہ نے انسٹاگرام پر فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے وہ اکثر اپنے نجی اور پیشہ وارانہ مصروفیات کی تصاویر مداحوں کے ساتھ شیئر کرتی رہتی ہیں جسے ان کے مداح بھی پسند کرتے ہیں۔

اداکارہ نے حال ہی میں اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’من آنگن‘ میں ’اریبہ‘ کا کردار نبھایا اور وہ عمران اسلم (ثقلین) کی اہلیہ بنی تھیں۔

اریبہ کو شوہر پر اندھا اعتماد ہوتا ہے اور وہ ان سے کبھی جھوٹ نہیں بولتیں لیکن شوہر کو انہیں ہمیشہ دھوکا دیا جاتا ہے اور وہ دوسری شادی بھی رچا لیتے ہیں۔

آخری قسط میں اریبہ حبیب نے بیٹے کو جنم دیا تو دوسری طرف شوہر ثقلین کو دھوکا دہی اور ساس (سیمی پاشا) کے قتل کے الزام میں قید ہوگئی۔

عالیہ علی اس کے علاوہ تقدیر، پیار دیوانگی ہے، نیلی زندہ ہے، بندھن، تیرے در پر، دہلیز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں۔

چوہدری حسین الٰہی بھی تحریک انصاف سے علیحدہ ہوگئے

0
حسین الٰہی

لندن : تحریک انصاف کے رہنما اور چوہدری وجاہت حسین کے صاحبزادے چوہدری حسین الٰہی نے بھی تحریک انصاف سے کنارا کشی کرلی۔

لندن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حسین الہٰی نے پی ٹی آئی چھوڑ کر ق لیگ میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

چوہدری حسین الٰہی نے کہا کہ 9مئی کو جو کچھ ہوا انتہائی ناقابل برداشت ہے، ہم تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپنی پارٹی مسلم لیگ ق میں واپس جارہا ہوں، چوہدری شجاعت حسین ہمارے بڑے ہیں، ہمارے کچھ فیصلے وقت کے ساتھ غلط ثابت ہوئے۔

چوہدری حسین الٰہی کا مزید کہنا تھا کہ میرے والد مجھے سیاست میں لے کر آئے تھے ان کے ہر فیصلے کا پابند ہوں۔

واضح رہے کہ اس سے کچھ دیر قبل تحریک انصاف کے نائب صدر فواد چوہدری نے بھی پی ٹی آئی اور عمران خان سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاست سے بریک لے رہے ہیں۔

عمران خان نے اپنے کارکنوں کو شر پسندی کی تربیت دی، وزیر اعظم

0
عمران خان نے اپنے کارکنوں کو شر پسندی کی تربیت دی، وزیر اعظم

اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عمران نیازی نے اپنے کارکنوں کو شر پسندی کی تربیت دی، 9 مئی کو جو کچھ ہو اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

عظمت شہدا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی بقا شہدا کی قربانیوں کی بدولت ہے، عظیم سپوتوں نے اپنی جانیں دے کر دہشتگردی کا خاتمہ کیا، شہدا نے اپنے بچوں کو یتیم چھوڑ دیا لیکن ہمارے بچوں کو یتیم ہونے سے بچا لیا، ہمارے شہدا نے دہشتگردی کے خاتمے کیلیے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

شہباز شریف نے کہا کہ 9 مئی کو ملک میں درندگی ہوئی، جناح ہاؤس کی بے حرمتی کیوں کی گئی؟ زیارت میں بھی چند سال پہلے قائد اعظم کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا تھا، 9 مئی کو جو کچھ ہوا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

’مذموم منصوبہ بندی کے ذریعے قومی املاک کو نشانہ بنایا گیا۔ عمران نیازی نے اپنے کارکنوں کو شر پسندی کی تربیت دی۔ ماضی میں بھی دہشتگردوں نے جی ایچ کیو پر حملہ کیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ اکسانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے، نہ کوئی کوتاہی کروں گا اور نہ ہی برداشت کروں گا، 9 مئی کو ملک میں ریڈ لائن کراس کی گئی، اس دن کے واقعات میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

پولیس نے 48 سال بعد لڑکی کے قتل کا سُراغ کیسے لگایا؟

0

کینیڈا کی پولیس نے 1975میں ایک 16 سالہ لڑکی کو ریپ کے بعد قتل کرنے والے ملزم کی شناخت 48سال بعد کرلی لیکن مجرم اب اس دنیا میں موجود نہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 1975 میں کینیڈا کے شہر مونٹریال کی رہائشی شیرون پرائر نامی 16 سالہ لڑکی اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے گھر سے نکلی اور لاپتہ ہوگئی۔

شیرون پرائر گھر نہ لوٹی تو اہل خانہ نے اس کے دوستوں سے رابطہ کیا لیکن دوستوں کا کہنا تھا کہ شیرون پرائر پیزا ریسٹورینٹ بھی نہیں پہنچی۔ پولیس نے لڑکی تلاش شروع کردی اور 3 روز بعد اس کی لاش مونٹریال میں ساحل سمندر سے برآمد ہوئی۔

لڑکی کے قتل کا سراغ

واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا، تاہم کئی سال بیت گئے لیکن تقریباً 100 سے زائد مُشتبہ افراد سے تفتیش کے باجود پولیس کسی حتمی نتیجے پر پہنچی نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

رواں ہفتے کینیڈین پولیس نے بتایا کہ انہیں 100 فیصد یقین ہے کہ 16 سالہ لڑکی کا قتل فرینکلن میوڈ رومین نامی شخص نے کیا جو مقتولہ کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔

یہ ایک ایسا معمہ تھا جسے حل کرنے میں 4 دہائیوں سے زائد عرصہ بیت گیا۔ پولیس نے 1975 میں جائے وقوعہ سے لڑکی کا (ڈی این اے) سیمپل لے تو لیا مگر یہ نمونہ کسی بھی عدالت میں پیش کرنے کے لئے کافی نہیں تھا۔

لڑکی کے ڈی این اے کو حکام نے اس امید کے ساتھ اپنے پاس رکھا کہ ایک دن ہی ٹیکنالوجی بدولت 16قاتل کی شناخت ممکن ہوسکے گی۔

محفوظ نمونے 2019 میں ویسٹ ورجینیا کی ایک لیب میں بھیجے گئے جس کے بعد جینیولوجیکل ویب سائٹ کی مدد سے ملزم کے رشتہ داروں سے میچ کیا گیا۔

16 سالہ لڑکی کا قتل

کینیڈین پولیس نے انکشاف کیا کہ لڑکی کو قتل کرنے والے ملزم فرینکلن میوڈ رومین نامی شخص کی موت 1982 میں ہوگئی تھی مگر ملزم کے بھائیوں کا ڈی این اے مقتولہ کے ڈی این اے سے کافی حد تک میچ کرگیا تھا۔ مذکورہ ڈی این اے کی بنیاد پر ہی ملزم فرینکلن کی قبرکھودی گئی تو مقتولہ کا ڈی این اے ملزم کے ڈی این اے سے 100 فیصد میچ کرگیا۔

کرائم ریکارڈ چیک کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ریپ کے علاوہ دیگر جرائم میں بھی ملوث تھا۔

اردو غزل کی آبرو مجروح سلطان پوری

0

ہندوستان کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شاعر، اور مقبول فلمی نغمات کے خالق مجروح سلطان پوری 24 مئی 2000ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

رفعت سروش کو مجروح کی رفاقت نصیب ہوئی تھی جو ان کی وفات پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌، ذہن ماضی کے نہاں خانوں میں جاتا ہے، اور مجھے یاد آرہے ہیں بہت سے ایسے لمحے جو مجروح کی ہم نفسی اور رفاقت میں گزرے۔ اوائل 1945ء کی کوئی شام۔ اردو بازار (دہلی) مولانا سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ کے باہر رکھی ہوئی لکڑی کی وہ بنچیں جن پر ہندوستان کے سیکڑوں علماء، شعراء، دانشور، فقیر اور تو نگر بیٹھے ہوں گے۔ میں اپنی قیام گاہ واقع گلی خان خاناں اردو بازار سے نکلا اور حسبِ معمول ٹہلتا ٹہلتا کتب خانہ عزیزیہ پہنچا۔ یہاں مولانا کی باغ و بہار شخصیت ہر شخص کا استقبال کرتی تھی۔ ایک بنچ پر ایک خوش شکل اور خوش لباس، شیروانی میں ملبوس نوجوان کو بیٹھے دیکھا۔ مولانا نے تعارف کرایا یہ ہیں مجروح سلطان پوری۔

اس زمانے کے ابھرتے ہوئے اور مترنم غزل گو شعرا کو جگر مراد آبادی کی سرپرستی حاصل تھی۔ چاہے شکیل ہوں، راز مراد آبادی ہوں یا خمار بارہ بنکوی اور مجروح سلطانپوری۔ یا بعد میں شمیم جے پوری۔ جگر صاحب اپنے ساتھ نوجوان شعراء کو لے جاتے تھے اور انھیں نمایاں ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔ مجروح کی بمبئی میں آمد کے سلسلے میں سید سجاد ظہیر ( بنے بھائی) نے اپنی خود نوشت روشنائی میں لکھا ہے کہ مجروح سلطان پوری جگر صاحب کے ساتھ لگے لگے بمبئی آئے، ترقی پسندوں سے ملے اور پھر ترقی پسند مصنّفین کے لیڈروں میں شامل ہوگئے۔

مجروح نے کئی ماہ کی جیل کاٹی۔ اس زمانے میں ان کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ یہاں تک ہوا کہ انھوں نے اپنی بیگم کو بطور امداد کچھ روپے بھیجنے کے لیے اپنے کچھ دوستوں کے ناموں کی لسٹ بھیجی جس میں راقم الحروف کا نام بھی شامل تھا۔ ایک دو ماہ بعد راجندر سنگھ بیدی نے مجروح کی مدد کی اور جب تک وہ جیل میں رہے ان کے اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔ غرض مجروح سلطان پوری آہستہ آہستہ انجمن ترقی پسند مصنّفین سے عملی طور پر دور ہوتے چلے گئے۔ اور خود انجمن بھی کم فعال رہ گئی تھی۔

مجروح سلطان پوری اُن خوش نصیب شعراء میں سے ہیں جنھوں نے کم سے کم کہا، اور زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ جب فلمی دنیا کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے تو اس چیختی چنگھاڑتی دنیا میں” طوطئ مجروح” کی ضرورت کم ہونے لگی اور انھوں نے پھر ادبی دنیا کی طرف سبقت کی۔ وہ واپس آئے اپنی ایک نظم "قلم گوید کے” ساتھ مگراب زمانہ بہت آگے نکل چکا تھا۔ مجروح نے اپنے پرانے سرمایۂ غزل میں بہت کم اضافہ کیا اور ان کی شہرت کا ضامن دراصل ان کا نوجوانی کا کلام ہی ہے۔ بہرحال چند سال پیشتر انھیں غالب ایوارڈ اور پھر اردو کا سب سے بڑا انعام "اقبال سمان” بھی پیش کیا گیا اور وہ آخر دم تک شہرت کی بلند ترین چوٹیوں پر متمکن رہے۔ ان کی اس شہرت میں سیاسی جوڑ توڑ اور کتر بیونت کا کوئی دخل نہیں۔ وہ ایک کھرے انسان اور کھرے شاعر تھے۔ کینہ پروری، بغض و حسد، غیبت اور اس طرح کی دوسری خباثتوں سے ان کا ذہن پاک تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی اور آخر وقت تک کام کرتے رہے۔

رفعت سروش کے قلم سے نکلی یادوں کا سلسلہ یہاں تھامتے ہوئے اب ہم اس شاعر کے کلام کی خصوصیات اور اُس انفرادیت کی بات کرتے ہیں جس نے مجروح سلطان پوری کو نام و مقام دیا۔ وہ بیسویں صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے میں غزل کی کلاسیکی روایت میں سیاسی رمزیت پیدا کرنے والے ایسے شاعر تھے جس نے ثابت کیا کہ صنفِ غزل میں اپنے تغزّل کو قربان کیے بغیر بھی ہر طرح کے مضامین، جذبات و احساسات اور تصورات کو مؤثر اور دل نشیں پیرائے میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ مجروح کا دور ادب میں‌ ترقی پسندی کے عروج کا تھا اور وہ وقت تھا جب نظم کے مقابلہ میں غزل کو کم تَر درجہ دیا جاتا تھا۔ اس ماحول میں مجروح نے غزل کی آبرو کو سلامت رکھا۔ انھوں نے اس صنفِ‌ سخن کو اس کی تمام نزاکت، حسن اور بانکپن کے ساتھ برتا اور اسے تازگی عطا کی۔ وہ اس دور کے ایسے شاعر تھے جس نے اپنا مجموعۂ کلام بھی ’’غزل‘‘ کے نام سے شایع کروایا۔

مجروح سلطان پوری 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسرار حسن خان تھا۔ ان کے والد پولیس میں ملازم تھے اور مجروح اُن کی اکلوتی اولاد تھے جنھیں تحریکِ خلافت کے زیرِ اثر انگریزی تعلیم نہیں دلائی گئی اور مدرسہ میں داخل کروائے گئے۔ وہاں انھوں نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ لیکن مدرسہ کے سخت ماحول نے انھیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مجروح نے 1933ء میں لکھنؤ کے طبّیہ کالج میں داخلہ لیا اور حکمت کی سند حاصل کی۔ وہ معاش کی خاطر ٹانڈہ میں مطب قائم کر کے بیٹھے لیکن کام یاب نہیں ہوئے۔ اسی زمانہ میں ان کو ایک لڑکی سے عشق ہو گیا اور جب یہ دل لگی اور دل داری راز نہ رہی تو مجروح رسوائی کے ڈر سے ٹانڈہ چھوڑ کر واپس سلطان پور آئے گئے۔ کالج میں تعلیم کے دوران وہ موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور میوزک کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا، لیکن والد کو خبر ہوئی تو انھوں نے اس سے روک دیا۔ یوں مجروح موسیقی کا شوق پورا نہیں کرسکے۔ 1935 ء میں مجروح سلطان پوری نے شاعری شروع کی۔ پہلی مرتبہ سلطان پور کے ایک مشاعرہ میں انھوں نے غزل پر داد سمیٹی۔ مجروح ان شعراء میں سے تھے جن کا ترنم غضب کا تھا۔ مشاعروں میں شرکت اور اپنے ترنم کی وجہ سے شہرت پانے والے مجروح کو بعد میں جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی جیسی ہستیوں کی صحبت نصیب ہوئی اور مجروح کی فکر اور ان کے فن کو نکھارنے میں‌ ان کا بڑا ہاتھ رہا۔

مجروح سلطان پوری نے فلمی دنیا کے لیے کئی گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں‌ فلم انڈسٹری میں کام ملتا رہا۔ مجروح لگ بھگ پچاس سال فلمی دنیا سے جڑے رہے اور 300 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔

جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں‌ کہ مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔ اس میں پیکر تراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مشفق خواجہ کے الفاظ ہیں‌ کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت ایک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انہی کا حصّہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعۂ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعۂ کلام "غزل” ہو گا۔

اردو کے اس ممتاز شاعر اور معروف گیت نگار کے کئی اشعار آج بھی باذوق لوگوں کو یاد ہوں گے۔ ان کا زبان زدِ عام شعر ہے:

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح کی غزل کے چند شعر دیکھیے

شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا، کبھی اک چراغ بجھا دیا

جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
تمہاری بات نہیں، بات ہے زمانے کی

جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

ممبئی میں وفات پانے والے مجروح سلطان پوری کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

عمران خان نے دو آپشنز دے دیے

0

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا ہے کہ مذاکراتی کمیٹی بنا دیتا ہوں 2 آپشنزہیں اس پر بات کر لیں۔

اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان کےمسائل میرے ہٹنے سے حل ہو جاتے ہیں تو اس کیلئے تیار ہوں، پہلے بھی مذاکراتی کمیٹی بنی تھی کہتی تھی کہ اکتوبر میں الیکشن ہوں گے اب بھی مذاکرات کے لیے کمیٹی بنانے کو تیار ہوں۔

عمران خان نے کہا کہ کیا ان کو نظر نہیں آرہا کہ پاکستان ہر گزرتے دن کیساتھ نیچےجا رہا ہے اکتوبر میں الیکشن ہونے سے مسائل حل ہوجائیں تو بتا دیں اگر اکتوبر میں یہ مسائل حل ہوسکتےہیں تواس کیلئےبھی تیار ہوں۔

اولمپئن ایتھلیٹ محمد خان انتقال کرگئے

0
محمد خان

اولمپئن ایتھلیٹ محمد خان رضائے الٰہی سے انتقال کرگئے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق ایتھلیٹ محمد خان نے 1960 کے روم اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی اور وہ ٹرپل جمپ کے قومی چیمپئن بھی رہے۔

اولمپئن محمد خان کی نماز جنازہ ان کے آبائی شہر چکوال میں ادا کی جائے گی۔

ایتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان کی جانب سے ان کے انتقال پر اظہار افسوس کیا جارہا ہے۔

ملکی ترقی میں اوورسیز پاکستانیوں کا اہم کردار ہے، ڈاکٹر محمد فیصل

0
فیصل

برلن : جرمنی میں تعینات سفیر پاکستان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ ملکی ترقی کیلئے اوورسیز پاکستانیوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

یہ بات انہوں نے جسٹس ہیلپ لائن یورپی یونین کے سفیر وزارت اوورسیز پاکستانیز و انسانی وسائل کی ترقی کے تحت اعزاری فوکل پرسن میاں مبین اختر سے ملاقات کے موقع پر کہی، ملاقات میں دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

سفیر پاکستان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو متحد ہوکر تمام مشکلات پر قابو پانے کے لیے محنت کرنے کی ضرورت ہے، مسلسل جدوجہد، قربانیوں اور محنت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قوم بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے سنہری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے اور چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

انہوں نے سفیر پاکستان نے میاں مبین کی خدمات کو سراہا اور وزارت اوورسیز پاکستانیز وانسانی وسائل کے فوکل پرسن بننے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ دیار غیر میں ملک کی ترقی کیلئے اوورسیز پاکستانی کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ ملکی ترقی میں اوورسیز پاکستانی کا اہم کردار رہا ہے اور رہے گا۔

بینا نے دعا میں کیا مانگا؟

0
میرے ہی رہنا

اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’میرے ہی رہنا‘ میں کرن حق اور اریج محی الدین کی اداکاری مداحوں کو بھا گئی۔

ڈرامہ سیریل ’میرے ہی رہنا‘ میں شہروز سبزواری (اسد)، کرن حق (روحی)، سید جبران (جنید)، اریج محی الدین (بینا)، عروبا مرزا (انو)، بابر علی (ابی)، فیضان شیخ، سبحان اعوان (عمر)، ندا ممتاز، پروین اکبر ودیگر اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

ڈرامے کی ہدایت کاری کے فرائض ذیشان علی زیدی نے انجام دیے ہیں جبکہ اس کی کہانی میمونہ عزیز نے لکھی ہے۔

’میرے ہی رہنا‘ کی کہانی دو بہنوں روحی اور بینا کے گرد گھومتی ہے جس میں دکھایا گیا ہے ایک ہی گھر میں شادی ہونے کے بعد دونوں بہنوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ قسط میں دکھایا گیا کہ ’بڑی بہن روحی بینا سے پوچھتی ہیں کہ تہجد کی نماز روز پڑھتی ہو یا پھر جب آنکھ کھل جائے۔‘

بینا بتاتی ہیں کہ ’تقریباً روز ہی پڑھنے لگی ہوں۔‘ روحی کہتی ہیں کہ ’پہلے تو میری خوشیوں کی سفارش کے لیے پڑھتی تھیں اور اب۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’ابی کی صحت اور ان کی لمبی عمر کی دعا مانگنے کے لیے۔‘

روحی کہتی ہیں کہ ’اپنے لیے کچھ نہیں مانگتیں۔‘ بینا کہتی ہیں کہ ’آپ اور ابی ہیں ناں میرے لیے دعا مانگنے کے لیے۔‘

بڑی بہن کہتی ہیں کہ ’میری دعائیں ہمیشہ تمہارے لیے ہیں، اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے، پیار کرنے والا خیال رکھنے والا شوہر دے، اللہ تمہیں اتنی خوشیاں دے کہ تمہارا دامن تنگ پڑ جائے۔‘

کیا روحی اور بینا شادی کے بعد بھی ایسے ہی رہیں گی، یا پھر ساس اور نند ان کے درمیان دوریاں لانے کا سبب بن جائیں گی؟ یہ جاننے کے لیے اگلی قسط دیکھیں۔