ہفتہ, مئی 11, 2024
اشتہار

آٹھ سالہ بچّی کی درد بھری کہانی جو فلمی پردے پر ‘سپر ہٹ’ ثابت ہوئی

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان میں کلاسیک کا درجہ رکھنے والی فلم ‘امراؤ جان ادا’ 1972ء میں‌ آج ہی کے دن شائقینِ سنیما کے لیے بڑے پردے پر پیش کی گئی تھی۔

یہ مرزا ہادی رسواؔ کے ناول پر مبنی ایسی فلم تھی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کی جذباتی اور رومانوی کہانی کے ساتھ درد بھرے گیتوں نے سنیما بینوں کو بہت متاثر کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی مظلوم خاندان، ایک ستم رسیدہ ماں کی کہانی، یا کم عمری میں حادثاتی طور پر بہن بھائیوں کے بچھڑ جانے اور برسوں بعد ان کا ملاپ سنیما بینوں کو جذباتی کر دیتا تھا۔ یہ بھی ایسی ہی فلم تھی جس میں ایک مجبور اور بے بس لڑکی مقدر کے لکھے کو قبول کرلیتی ہے۔

مرزا ہادی رسوا نابغۂ روزگار تھے۔ ان کے چند ناولوں میں سب سے زیادہ امراؤ جان ادا مقبول ہوا جس پر اردو ادب میں کئی مضامین سپردِ قلم کیے گئے اور مصنّف کے ادبی مذاق اور ان کے فنِ تخلیق کو موضوع بنایا گیا۔ وہ شاعر بھی تھے۔ رُسوا ان کا تخلّص تھا۔ مرزا صاحب فلسفہ، منطق، ریاضی، طب، مذہبیات، کیمیا، موسیقی اور نجوم میں بھی دل چسپی رکھتے تھے۔

- Advertisement -

مرزا ہادی رسوا کا یہ ناول 1905ء میں منظرِ عام پر آیا تھا جس کی فنی عظمت اور مقبولیت نے اسے ان گنت قارئین دیے اور تعلیمی نصاب کا حصّہ بننے کے بعد اسے طالبِ علم بھی پڑھتے رہے۔ اس ادبی تخلیق کی عمر ایک سو پندرہ سال ہے، اور ان برسوں میں اس کے مختلف ابواب کی نصابی ضرورت کے تحت قسم قسم کی تشریحات بھی کی گئی ہیں۔

یہاں ہم فلم کا تذکرہ کرنے سے پہلے اپنے قارئین، بالخصوص نئی نسل کی دل چسپی کے لیے اس ناول کی کہانی بیان کرتے ہیں:

یہ امیرن نام کی ایک آٹھ سالہ بچّی کی کہانی ہے جسے اس کے آبائی علاقے (گاؤں) سے اغوا کرکے فروخت کرنے کے لیے لکھنؤ پہنچا دیا جاتا ہے۔ یوں وہ خانم نامی عورت کے ڈیرے پر پہنچ جاتی ہے اور اسی کے زیرِ سایہ تربیت پاتی ہے، وہ شعر و ادب سے شغف رکھنے والی باذوق لڑکی کے طور پر عمر کے مدارج طے کرتی ہے اور اسے رقص بھی سکھایا جاتا ہے۔ لڑکی اپنے کوٹھے پر آنے والوں کے ذوقِ موسیقی اور رقص دیکھنے کے شوق کی تسکین کے لیے ہمیشہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے تیّار رہتی ہے۔ وہ باذوق افراد کو موسیقی اور رقص سے بہلانے کے ساتھ شعر بھی سناتی ہے۔

اسی کوٹھے پر ایک نوجوان نواب سلطان کا آنا جانا بھی ہوتا ہے جس کے آگے امراؤ دِل ہار بیٹھی ہے اور ایک جذباتی موڑ اس وقت کہانی میں آتا ہے جب نواب صاحب زندگی بھر ساتھ نبھانے کے سوال پر اسے گھر والوں کی رضامندی سے مشروط کردیتے ہیں اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ‘خاندانی بہو’ لانے والے ہیں۔

اب کہانی وہ ڈرامائی موڑ لیتی ہے جو ہندوستان پر برطانوی راج قائم کرنے کے لیے کی جانے والی سازشوں، مفاد پرستی اور لڑائی کے ساتھ آزادی کے لیے شروع کی جانے والی تحریکوں اور جان و مال کی قربانیوں تک تاریخ کا حصّہ ہے۔ جس وقت لکھنؤ پر انگریز فوج کا حملہ ہوتا ہے تو کہانی کے مطابق خانم کے ڈیرے سے بھی سب راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امراؤ اپنے ساتھیوں سمیت لکھنؤ سے باہر نکل پڑتی ہے اور یہ لوگ ایک قصبے میں قیام کرتے ہیں۔ وہاں امراؤ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی اس کا آبائی علاقہ ہے جہاں سے وہ اغوا ہوئی تھی۔ وہ فیض آباد واپس پہنچ گئی تھی

ناول کی کہانی آگے بڑھتی ہے تو ایک موقع پر اس کی اہلِ خانہ سے ملاقات کا انتہائی جذباتی منظر پیش کیا گیا ہے، لیکن یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ خاندان ایک طوائف کو قبول کرلے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے ساتھ رکھنے سے معذوری ظاہر کردیتے ہیں۔ امراؤ آنسوؤں خود کو ایک طوائف کے طور پر دوبارہ خانم کے ڈیرے پر کھینچ کر لے آتی ہے اور رقص و موسیقی میں ڈوب جاتی ہے۔ یوں ایک مظلوم اور مجبور عورت پہلے طوائف کے روپ میں اپنی محبّت کو پانے میں ناکام ہوتی ہے اور بعد میں ایک بیٹی اور بہن کے طور پر اپنے ہی اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ گہرے دکھ اور کرب سے گزرتی ہے۔

برصغیر میں اس ناول پر متعدد فلمیں بنائی گئیں اور اس میں فلم کی ضرورت کے مطابق کئی تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ اب بات کرتے ہیں فلم کی جسے پاکستان میں حسن طارق نے کمرشل ضروریات کے تحت تبدیلیوں کے ساتھ پردے پر پیش کیا تھا۔

اس فلم نے ریکارڈ بزنس کیا جس میں اسکرپٹ رائٹر اور مشہور شاعر سیف الدّین سیف بڑا ہاتھ تھا۔ اسی طرح موسیقار نثار بزمی کا بھی فلم کی کام یابی میں‌ بڑا کردار رہا۔ اداکاروں میں رانی اور شاہد نے مرکزی کردار نبھائے جب کہ خانم کا مشہور کردار نیّر سلطانہ نے ادا کیا تھا۔

اس فلم کا مشہور ترین نغمہ ” آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں” رانی پر فلمایا گیا تھا جس نے فلم بینوں کو بہت متاثر کیا۔ پاکستان میں فلم کی کام یابی کو دیکھ کر بھارتی ہدایت کار مظفر علی اور جے پی دتہ نے بھی اس ناول پر فلمیں بنائی تھیں۔

پاکستان میں بننے والی امراؤ جان ادا کے گیتوں میں ‘جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں’ اور ‘کاٹے نہ کٹے رے رتیاں’ نے بھی مقبولیت حاصل کی اور آج بھی سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں