تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم سے تفتیش کا پہلو زمین کے چھ فٹ نیچے دفن ہو گیا، سپریم کورٹ

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی ہوگئی ،وکیل تحریک انصاف نعیم بخاری اپنے دلائل جاری رکھیں گے، نعیم بخاری کو کل 11 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں5رکنی بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے، عدالت نے اٹارنی جنرل کو آج 11بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز اپیل دائر کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا تھا، کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے، فارن کرنسی اکاؤنٹس پر قرض لیا گیا تھا۔

جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر کوئی اسٹوری بنائی بھی ہے تو اس پر قائم رہیں ، ہر وکیل الگ بات کر کے کنفیوژ کر دیتا ہے، بتایا گیا قطری کے پاس انوسٹمنٹ کی گئی تھی، قرض ادائیگی میں کسی فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ذکر نہیں آیا، اٹارنی جنرل اور تمام وکلا عدالت پر رحم کریں، آپ بطور اٹارنی جنرل دلائل دیں، پارٹی نہ بنیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، اس کیس میں پارٹی نہیں ہوں، حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو پاناما لیکس کے معاملے سے منسلک نہ کیا جائے، حدیبیہ پیپر ملز اور پاناما کیس کی نوعیت میں فرق ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے سوال کیا کہ اگر حدیبیہ پیپرز کیس میں الزامات غلط تھے تو کیس سے کیوں کترا رہے ہیں، اگر کیس میں الزامات درست ہیں تو اس کیس کو دفن کیوں کیا گیا؟ نیب گزشتہ روز ہمارے سامنے وفات پا گیا، الزامات اگر سچ تھے تو انہیں دفنایا کیوں گیا؟ اگر الزامات غلط تھے تو ان پر انحصار کیوں کر رہے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا کام عدالت کے سامنے حقائق لانا ہے۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ جانتے ہیں کہ آپ مشکلات کا شکار ہیں، آپ اعلی پائے کے وکیل ہیں، آپ سے ویسی ہی معاونت کی توقع ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حدیبیہ کیس میں ریاست مدعی تھی،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق کی وکالت نہیں، عدالت کی معاونت کر رہا ہوں۔

جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ ایسے معاونت کریں کہ عدالت کس حد تک جا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت نا اہلی کیلئے ریفرنس اسپیکر کو بھیجا جا سکتا ہے، اسپیکر سے فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں ہی کسی اور فورم پر جا سکتا ہے۔

جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ متعدد مقدمات میں کہہ چکے ادارے کام نہ کر یں تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے یوسف رضاگیلانی کیس میں نا صرف یہ کہا بلکہ انکو گھر بھی بھیجا، اگرچہ اس کیس میں 65 ملین ڈالرز واپس نہیں آئے لیکن وزیراعظم گھر چلے گئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 63 ڈکلیریشن دینے کی اجازت نہیں دیتا۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ لگائے گئے الزام کو لیکر عدالت کہاں جائے، آپ بطور اٹارنی جنرل جواب دیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کچھ الزامات کو تسلیم کیا گیا اور دستاویزات بھی دی گئیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ہمارے اداروں کا وقار بیرون ملک مجروح کیا گیا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ادارے کام نہیں کریں گے تو ایسا تو ہوگا، آپ اداروں میں ہی سوالوں کا جواب دے دیں۔

اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ عدالت نے اداروں کو بہت مضبوط کیا۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ ہم جانتے ہیں آپ ہمارے سوالوں کا جواب دیں، ہم سیدھی طرح پوچھ رہے ہیں ان الزامات کو لیکر کہاں جائیں،بڑے دنوں سے سب کے دلائل سنے صرف اس سوال کا جواب مانگ رہے ہیں، الزامات کے حوالے سے وقفے کے بعد ہی جواب دے دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت آئین کو مد نظر رکھے آرٹیکل 62 میں عوامی عہدے کا نہیں لکھا، عدالت نے متعلقہ فورم سے متعلق سوال کیا تھا، ہر منتخب نمائندہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کا پابند ہوتا ہے، اگر اثاثے چھپائے ہوں یا غلط بیانی کی ہو تو سیشن کورٹ میں مقدمہ ہوتا ہے، مقدمے میں تین سال قید اور پانچ ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں درخواست گزار وزیراعظم کے خلاف فوجداری مقدمہ کریں، جس پر اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ میرے کہنے کا یہی مطلب ہے، وزیر اعظم کو آئین کے تحت فوجداری مقدمے میں استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا، سیشن کورٹ میں ٹرائل کرنا پڑے گا اور اس کے لیے شہادت ریکارڈ کرنا ہو گی۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نیب کے جواب کے بعد وزیراعظم سے تفتیش کا پہلو زمین میں دفن ہو گیا۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر ڈیکلریشن دے دیا گیا تو پھر تفتیش کے لیے کیا رہ جائے گا۔

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ کسی نے حدیبیہ پیپر ملز میں اپیل کی تو متاثرہ فریق نہ ہونے کا نقطہ نہیں اٹھاؤں گا، اپیل سے متعلق بات بطور اٹارنی جنرل آف پاکستان کر رہا ہوں‌۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ نا اہلی تو پاناما کیس کا ایک پہلو ہے، نیب نے گزشتہ روز تحقیقات کا کہا تھا، وزیر اعظم کے لیے نیب انشورنس پالیسی تھی، وزیر اعظم کا وہ دفاع کل دفن ہوگیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اصغر خان کیس میں عدالت نے ڈکلیریشن دیا تھا، کیس کا فوجداری حصہ تحقیقات کے لیے متعلقہ فورم پر بھجوایا گیا، جعلی ڈگری مقدمات بھی ڈکلیریشن کے بعد ٹرائل کے لیے بھجوائے گئے، اصغر خان کیس میں عدالت نے قرار دیا الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔

اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ عدالت نے پوچھا ہے کہاں رجوع کیا جاسکتا ہے، کچھ حقائق غلط بیانی سے پیش کیے گئے ہیں، پہلے معاملے پر سیشن جج سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں غلط بیانی پر فوجداری مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں وزیر اعظم کو فوجداری مقدمے سے استثنیٰ نہیں۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز عدالت نے نیب کو دیکھ لیا، تحفظ دیا جا رہا تھا، انشورنس پالیسی ہے کہ نیب دیکھے گی، چیئرمین نیب نے کہا میں نے کچھ نہیں کرنا جو کرنا ہے کر لو، مخدوم علی خان کے موکل کے پاس چیئرمین نیب کی مصدقہ انشورنس پالیسی ہے۔

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ فوجداری معاملے پر عدالت بغیر تحقیقات کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی۔

جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ موجودہ چیئرمین نیب کے جواب کے بعد یہ شعر کہہ سکتے ہیں، وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا، چیئرمین نیب اور ایف بی آر نے جو کیا ہمارے سامنے ہے وہ کچھ کرنے کوتیار نہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اصغر خان کیس میں نہ مقدمہ درج ہوا نہ کوئی تفتیش ہوئی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ سے کوئی تعاون نہیں کر رہا، معلومات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب، کیا سیشن جج ٹرائل میں یہ معاملہ حل کر لے گا؟ کون استغاثہ کرے گا اور کون شہادتیں لائے گا؟ چیئرمین نیب کے بیان کے بعد کیا یہ شخص کسی کا ٹریفک چالان بھی پکڑ سکتا ہے؟ ج

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ افتخار چیمہ کیس میں اس لیے نا اہل قرار دیا جائیداد ظاہر نہیں کی تھی، بےشک جائیداد حلال ذرائع سے بنائی ہو۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کی معاونت میں دلائل مکمل کر لیے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جوابی دلائل کا آغاز کیا تو کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی ، وکیل تحریک انصاف نعیم بخاری اپنے دلائل جاری رکھیں گے جبکہ نعیم بخاری کو کل 11 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی ہے، نعیم بخاری کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل دلائل دیں گے۔

Comments

- Advertisement -