لاہور: اپریل 2016ء کے آخری ہفتے پیپلز پارٹی کی ملک بھر میں تنظیمیں توڑ کر تنظیم نو کے لیے پانچ کمیٹیاں چاروں صوبوں میں کام کررہی ہیں جن کے پاس مینڈیٹ ہے کہ وہ پارٹی کے سابق عہدے داروں اور کارکنوں کی رائے معلوم کریں کہ پارٹی پالیسی کیا ہونی چاہیے اور کونسی نئی قیادت سامنے لائی جائے جو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پورا کرسکے۔
ان کمیٹیو ں کو ابتدائی طورپر تین ماہ کا وقت دیا گیا تھا،جس میں ایک ماہ کی توسیع کرکے 31 اگست تک کام مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اب کام زوروں پر ہے مگر ایک تاثر ہے کہ اس کمیٹی نے اجلاس کم اور جلسے زیادہ کیے ہیں جب کہ پنجاب کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ جو ممبران کمیٹی میں شامل کیے گئے ہیں انہیں اپنے علاقے کے کارکنوں کا تو علم ہے مگر دوسرے علاقوں کے کارکنوں اور زمینی حقائق سے آگاہ نہیں۔
انہوں نے جن افراد سے ملاقاتیں کی ہیں ان میں سابق صوبائی صدور، جنرل سیکریٹریز اور سیکرٹری اطلاعات اور اسی طرح ضلعی عہدے دار شامل ہیں۔ مگر ان کا کارکنوں سے اس طرح رابطہ نہیں ہوسکا چونکہ تنظیمی ڈھانچہ موجود ہی نہیں اس لیے جو صدر بننا چاہتا ہے وہ اپنے سپورٹرز کو لے کر اجلاس میں پہنچ جاتا ہے تو فیصلہ یقینا مشکل ہے۔
ان رابطہ کمیٹیوں کو سفارشات مرتب کرنی ہیں مگر ممبران کو یقین نہیں کہ ان کی سفارشات پر عمل درآمد ہوگا۔ چونکہ حتمی فیصلہ تو قیادت کو ہی کرنا ہے تو پھر اس مشق کا فائدہ کیا؟ اب تک جو سفارشات سا منے آئی ہیں ان کے مطالبق پارٹی کارکنوں نے پیپلز پارٹی کے بنیادی فلسفے سوشلزم کی طرف جانے پر زوردیا ہے لیکن پارٹی کے عمومی مزاج میں سوشلزم کہیں نظر نہیں آتا۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ سوشل ڈیمو کریسی کی بات کرتے ہیں جبکہ شیری رحمان، رحمان ملک، خورشید شاہ اور سینیٹ کے چیئرمین رضاربانی کی بھی اپنی اپنی پالیسی ہے جس کی وہ میڈیا پر وضاحت کرتے رہتے ہیں؟ پارٹی پالیسی کیا ہے ؟کوئی پتا نہیں ورنہ ان کی باتیں مختلف نہ ہوتیں۔ اس وجہ سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں ابہام موجود ہے کہ پارٹی پالیسی ہے کیا؟ مزدور کسان کی بات کرنے والی کوئی پارٹی نہیں ہے۔
پارٹی کے سینئر کارکن سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو اس نہج پر پہنچانے والے آصف علی زرداری نہیں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران بھی ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری پارٹی کی تشکیل اور اسے نظریات پر باقی رکھنا ہے مگر ایسا ہوا نہیں۔ البتہ عام کارکن آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی فعالیت اور حکومت پر تابڑ توڑ حملوں سے حوصلے میں آیا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر قیادت خود متحرک ہوگی تو اس کا ووٹر تحریک انصاف کی طرف نہیں جائے گا۔
اپریل کے آخر سے اب تک تقریباً چار ماہ کے دوران پارٹی عہدے داروں سے متعلق اب تک میسر آنے والی سفارشات کے مطابق صوبے سے یونین سطح تک کے صدر کے لیے تجربہ کار اور جنرل سیکریٹری نوجوان ہونے کی سفارش کی جارہی ہے۔ البتہ دونوں کا نظریاتی ہونا ضروری قراردیا گیا ہے۔
کمیٹی نے ناراض ارکان سے بھی ملاقاتیں کی ہیں جن کی ناراضی اور تشویش کو دور کرنے کے لیے سفارشات بھی مرتب کی گئی ہیں اور انہیں واپس پارٹی دھارے میں لایا جائے گا تاہم پیپلز پارٹی کو مختلف اوقات میں ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے بابر اعوان، فاروق لغاری مرحوم اور معراج خالد مرحوم کی باقیات کو پارٹی میں واپس لانے کے لیے اتفاق موجود نہیں۔
پیپلز پارٹی کے ایک سینئیر رہنما کا کہنا ہے کہ رابطہ کمیٹی کے سامنے یہ بات شدت سے رکھی گئی کہ مفاہمت کی سیاست سے پیپلز پارٹی کو شدید نقصان پہنچا یا گیا ہے۔ پارٹی کو معلوم نہیں کہ میاں نواز شریف کے خلاف لڑنا ہے یا نہیں؟عمران خان کو سیاست دان تسلیم کرکے اس کے ساتھ چلنا ہے یا اپنی مختلف حیثیت کو برقرار رکھنا ہے؟ حالانکہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں کوئی فرق نہیں۔ یہ جماعتیں مزدور کسانوں کے لیے کچھ نہیں کررہیں۔ صرف پی ہی ہے جو مزدوروں کسانوں کے حقوق کی بات کرتی ہے علاوہ ازیں کوئی دوسری جماعت ایسا کرسکتی ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی پروگرام ہے۔