خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کے منتخب نمائندوں نے پارٹی پالیسی کے برخلاف اپنی ذاتی تشہیر کی غرض سے تعمیراتی کاموں پر تختیاں لگانا شروع کردی ہیں جبکہ ایک وزیر ضیاء اللہ آفریدی تو پابندِ سلاسل ہونے کے باوجود ترقیاتی کاموں کا افتتاح کرواکے اپنے نام کی تختی لگوا رہے ہیں۔
انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے ایک پالیسی بیان میں واضح کیا تھا کہ ان کے ممبران پارلیمینٹ حکومتی فنڈز سے بننے والی گلی ،محلے ، سڑک اور سرکاری عمارتوں پر اپنے ناموں کی تختیاں نہیں بنوائے گے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ تعمیرات حکومت کے خزانے سے نکلنے والے پیسے پر ہوتی ہے جس میں عام عوام کے ٹیکس کی رقوم بھی شامل ہوتی ہے۔
اپنی پارٹی کی پالیسی کو بلائے طاق رکھتے ہوئے خبیر پختونخواہ میں چھوٹے بڑے تعمیراتی کاموں کو اپنے ناموں سے منسوب کرنا شروع کیا ہوا ہے۔
اس حوالے سے جب عام شہریوں کا ردعمل جانا تو پشاورمیں کاروبار کرنے والے احسان اللہ خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے انتخابات سے قبل مختلف دعوے کیے تھے جن میں سے اکثر معاملات پرعمل درآمد کافی سست روی کا شکار رہا ہے جس میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ان کی حکومت میں آنے کے ڈھائی سال بعد منعقد ہوئے۔ اسپتالوں میں کوئی خاطرخواہ کام نہیں ہورہا ہے اس لئے تحریک انصاف کے ممبرانِ اسمبلی سمجھتے ہیں یہ تختیاں لگاکر اپنے عوام میں اپنے وجود کو زندہ رکھیں۔
جمیل احمد جو نجی ادارے میں ڈرائیور ہیں ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے ایک وزیر ضیاء اللہ افریدی کرپشن کے الزامات میں جیل کاٹ رہے ہیں لیکن اس کے حلقے میں جو ترقیاتی کام ہوتا ہے اس کے نام کی تختی لگ جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کسی علاقے میں کسی جماعت کے ممبر اسمبلی کی تختی لگتی ہے تو مخالف جماعت جب حکومت میں آتی ہے تو اس علاقے کا نظر انداز کردیتی ہے۔
عبدالرؤف نامی ایک اورشہری کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کی خام خیالی ہے کہ وہ سرکاری فنڈز سے ہونے والے ترقیاتی کاموں پرتختیاں لگاکر ہمدردی اور سپورٹ حاصل کریں گے، اگر ایسا ہوتا تو متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی الیکشن نہ ہارتی۔
ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخواہ کے شمالی علاقہ دیر کے علاقے خال میں ترقیاتی منصوبوں پر اپنی اپی تختی لگانے کے معاملے پر دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے مابین تصادم کے نتیجہ میں سات افراد کے زخمی ہونے کا افسوسناک واقعہ پیش آچکا ہے۔
تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات شوکت یوسف زئی نے اس حوالے سے اے آر وائے نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی کی یہ واضح پالیسی تھی کہ ترقیاتی کام مقامی حکومتوں کے ذریعے ہوں گے اور ان ترقیاتی کاموں پر کسی شخص کی تحتی نہیں لگے گی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ بات کو یقینی بنانے میں تھوڑا وقت لگے گا کیونکہ ہمارا سیاسی کلچر ابھی تبدیل نہیں ہوا ہے اورساتھ ہی ساتھ کچھ سیاسی مجبوریاں بھی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کی کوشش ہے کہ بلدیاتی نمائندے اپنا بھرپور کام شروع کریں لیکن ابھی ان کو ترقیاتی بجٹ کا 30فیصد مل رہا ہے جبکہ 70فیصد ترقایتی کام صوبائی حکومت کے زریعے ہورہے ہیں۔
شوکت یوسف زئی کے مطابق تحریک انصاف حکومت اس فنڈ کے تناسب کو 50فیصد تک لے کرجارہی ہے اوراس کے بعد زیادہ ترفنڈز بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ ہوں گے۔ ان کے خیال میں جب ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کے پاس فنڈز نہیں ہوں گے تو وہ ترقیاتی کام کی بجائے قانون سازی پر توجہ دیں گے اور پھرگلی، محلوں میں ان کی تختیاں بھی نظر نہیں آئیں گی۔