نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جونی نے مائری کو جواب دیا کہ ایسا ممکن ہے، چند ماہ کے اندر قلعے کو رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ جب مائری نے قلعے کے باغات سے متعلق بات کی تو جونی نے انھیں بتایا کہ ان بارہ افراد میں سے ایک جولیان ہے جو باغبان تھا اور یہ کہ وہ اس قلعے کو بہت کم وقت میں بحال کر سکتا ہے۔ دونوں قلعے کی تزئین کے فیصلے پر متفق ہو گئے۔ قلعے میں مکڑیوں اور سرنگوں کا بھی مسئلہ تھا جن کے بارے میں انھوں نے طے کیا کہ انھیں بھر دیا جائے گا اور یہ طے کر وہ اندر چلے گئے تاکہ باقی سب کو بھی اس سے آگاہ کر دیں۔ وہ سب جادوئی چمکتے دمکتے گولے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ مائری نے سب کو مخاطب کیا کہ وہ کچھ بولنا چاہتی ہے۔ سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے لیکن جیسے ہی انھوں کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا، دروازے پر دستک سنائی دی۔ سب نے ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اینگس بولے میں دیکھتا ہوں۔ انھوں نے جا کر دروازہ کھولا تو باہر ایک اجنبی کھڑا تھا۔ پانچواں اجنبی!
اینگس اسے دیکھ کر پہلے جو جھجکے اور پھر اسے بھی اندر لے آئے۔ سب اس کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ آتے ہی بولا: ’’مجھے کیٹر کہتے ہیں۔ اوہو آرٹر، کووان، پونڈ، آلرائے تم چاروں کیسے ہو، کیا ہو رہا ہے یہاں؟‘‘
’’بیٹھ جاؤ کیٹر۔‘‘ جونی نے گہری سانس لی۔ ’’یہ اینگس ہے، اس گھر کا مالک اور یہ مائری، یہ ان کی بیٹی فیونا، اور یہ دونوں اس کے دوست دانیال اور جبران۔ ان بچوں نے قلعہ آذر میں جادوئی گولے کو ڈھونڈ نکالا تھا اور یہ تینوں اب قیمتی پتھر جمع کرنے کے لیے سفر کر رہے ہیں۔ یہ ابھی کچھ ہی دیر قبل زمرد حاصل کر کے آئے ہیں اسی لیے تم زرومنا کے وعدے کے مطابق وقت کی گزرگاہ سے ہو کر یہاں آئے ہو۔ ہم ایک ایک کر کے ظاہر ہو رہے ہیں۔‘‘
جونی کی وضاحت سن کر وہ بولا: ’’قلعہ آذر وہی جگہ ہے نا جو میں نے تلاش کی تھی۔ یہ کون سا سال ہے؟‘‘ وہ ان کے لباس دیکھ کر پوچھ بیٹھا۔
’’دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ میں ہیں۔ کنگ کیگان ہم سے جدا ہونے کے بعد اسکاٹ لینڈ آئے تھے اور یہاں اس قلعے کو تعمیر کیا تھا۔ مائری اور فیونا ان کے وارث ہیں۔‘‘ جونی نے اسے بتایا۔
ایسے میں اچانک جیک نے اسے مخاطب کیا: ’’آج کے بعد تمھارا نام جیفری ہے کیوں کہ ہمارے قدیم نام اس دور میں بہت عجیب لگتے ہیں۔لوگ سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ویسے ابھی مزید کچھ سننے کو ملے گا فی الحال مائری کچھ کہنے جا رہی ہیں، انھیں سنتے ہیں۔‘‘
جیفری نے اثبات میں سر ہلایا، اسی لمحے اس کی نظر ہار پر پڑی۔’’اوہو، یہ تو ملکہ سمانتھا کا ہار ہے۔‘‘جونی بولا ’’ہاں یہ میں نے دیا ہے، مجھے یقین ہے کہ ملکہ سمانتھا بھی یہی چاہتی۔ بہرحال، تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہم نے بھی اپنے نام تبدیل کیے ہیں۔ میں جونی ہوں، کووان جمی ہے، پونڈ جیزے ہے اور آرٹر کا نام جیک ہے۔‘‘
مائری نے کھانس کر سب کو پھر اپنی طرف متوجہ کیا، اور جیفری کو مخاطب کر کے بولیں: ’’تم دوسروں سے مختلف نظر آ رہے ہو، تمھاری آنکھیں نیلی ہیں اور بال ہلکے رنگ کے ہیں۔‘‘ جیفری نے اس پر بتایا کہ اس کے والد گال کے رہنے والے تھے اور والدہ عرب تھیں بورل کی۔ جیفری پھر بورل کے بارے میں بتانے لگا: ’’گال لوہے کے زمانے میں مغربی یورپ کا ایک علاقہ تھا، جو فرانس، لگزمبرگ، بیلجیئم، سوئٹزرلینڈ، شمالی اٹلی، نیدرلینڈز اور جرمنی پر مشتمل تھا۔‘‘
مائری نے کہا: ’’ٹھیک ہے میں سمجھ گئی، اب میں کچھ کہنا چاہتی ہوں، دراصل میں قلعہ آذر کی نئے سرے سے آرائش اور مرمت کرنے کا سوچ رہی ہوں تاکہ ہم وہاں منتقل ہو سکیں۔‘‘
یہ سن کر فیونا اچھل پڑی۔ اس کے لیے یہ خبر سب سے زیادہ سنسنی خیز تھی۔
(جاری ہے)

Comments