رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ جاری ہے اور جہاں جہاں بھی مسلمان موجود ہیں چاہے وہ کسی بھی قوم و ملت اور مذہب و مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ہر جگہ اور ہر طرف سعادت و برکت کے دسترخوان بچھ گئے ہیں۔
اسی مبارک مہینہ کے لیے 14 سو سال قبل مسجد النبوی کے بلند منبر سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو یہ خوش خبری سنائی تھی۔
لوگو! خدا کا مہینہ برکت و رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہاری طرف آرہا ہے۔ وہ مہینہ جو خدا کے نزدیک بہترین مہینہ ہے۔ جس کے ایام بہترین ایام، جس’ کی شبیں بہترین شبیں اور جس کی گھڑیاں بہترین گھڑیاں ہیں۔ (اس مہینہ میں) تمہاری سانسیں ذکر خدا میں پڑھی جانے والی تسبیح کا ثواب رکھتی ہیں۔ تمہاری نیندیں عبادت، اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں‘۔
یہ مہینہ نہایت ہی شان و شوکت والا ہے۔ اس مہینہ کی حرمت و عظمت دیگر تمام مہینوں سے زیادہ ہے۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ماہ مبارک رمضان کو اپنی ایک دعا میں اسے ’شہر الاسلام‘ یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں، ’روزے دار کی نیند عبادت اور اس کی خاموش تسبیح اور اس کا عمل قبول شدہ ہے، اس کی دعا مستجاب ہوگی اور افطار کے وقت اس کی دعا رد نہیں کی جائے گی‘۔
آئیے رمضان کی وہ خصوصیات جانتے ہیں جو اس عظیم ماہ کو دیگر تمام مہینوں سے افضل بناتی ہیں۔
:آسمانی کتابوں کا نزول
رمضان کریم ہی وہ مقدس مہینہ ہے جس میں تمام آسمانی کتابیں نازل ہوئیں۔
تورات، انجییل اور زبور رمضان میں نازل ہوئے۔ جبکہ تمام جہاںوں کے لیے ہدایت قرآن مجید 24 رمضان کو نازل ہوا۔ بعض روایات میں ہے کہ صحیفہ ابراہیم یکم رمضان کو نازل ہوا۔
:قرآن کریم میں ذکر
رمضان کریم وہ واحد مہینہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔
:قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت 185 میں اس ماہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے
مفہوم: ’ماہ مبارک رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں موجود ہیں۔ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے تو وہ روزہ رکھے، ہاں جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیئے۔ اللہ تعالی تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ تم روزوں کی تکمیل کرو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بزرگی بیان کرو، شاید تم شکرگزار ہو جاؤ‘۔
:طاق راتیں
رمضان المبارک کی ایک اور فضیلت طاق راتیں ہیں۔ آخری عشرے کی 21ویں، 23ویں، 25ویں، 27ویں اور 29ویں راتیں، طاق راتیں کہلاتی ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیلۃ القدر کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’وہ رمضان میں ہے سو تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ لیلۃ القدر اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں طاق راتوں میں ہے یا رمضان کی آخری رات ہے۔ جس شخص نے لیلۃ القدر میں حالت ایمان اور طلب ثواب کے ساتھ قیام کیا، پھر اسے ساری رات کی توفیق دی گئی تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘۔
ايک دوسرى روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا، ’جس نے بھى ليلۃ القدر كا ايمان اور اجر و ثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں‘۔
:اعتکاف
رمضان کی ایک اور فضیلت اعتکاف ہے۔ اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹہرے رہنے کو کہتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا، ’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اسے عملاً نیک اعمال کرنے والے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں‘۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے‘۔
حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’جس شخص نے رمضان المبارک میں 10 دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب 2 حج اور 2 عمرہ کے برابر ہے‘۔
:روزہ ۔ ایک خالص عبادت
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو دکھاوے یا نمائش کے لیے نہیں کا جاسکتی چنانچہ یہ خالص عبادت ہوتی ہے لہذاٰ اس کا اجر و ثواب بھی زیادہ ہے۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا، ’روزہ خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسی عبادت ہے جس سے خدا کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہوتا لہذاٰ خدا کے علاوہ کوئی اور اس کا اجر ادا نہیں کر سکتا‘۔
حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے اپنی مناجات کے دوران بارگاہ خدا میں سوال کیا، ’خدایا! تیری نگاہ میں کیا کوئی اور بھی میری طرح محترم و مکرم ہے؟ جواب ملا: ’(خاتمیت کے) آخری زمانوں میں میرے کچھ بندے ہوں گے جنہیں میں ماہ رمضان کے روزوں کی وجہ سے یہ احترام عطا کروں گا‘۔
اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ نے امت محمدیہ کی دوسری تمام قوموں پر برتری کا راز جاننا چاہا تو آواز آئی، ’امت محمدیہ کو میں نے 10 خصوصیات منجملہ ان کے ماہ رمضان المبارک کے روزوں کی وجہ سے دوسری امتوں پر عظمت و برتری دی ہے‘۔
رمضان المبارک میں اپنے پروردگار کے سامنے سچی نیتوں اور پاکیزہ دلوں کے ساتھ روزہ رکھنے اور قرآن حکیم کی تلاوت کرنے کی توفیق کی دعا کرنی چاہیئے۔ وہ شخص بڑا بدقسمت ہے جو اس عظیم مہینے میں خداوند کریم کی عطا و بخشش سے بہرہ مند نہ ہوسکے۔