بھارت میں کرونا وائرس کی دوسری لہر نے تباہی مچا رکھی ہے، روزانہ 3 لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہورہی ہیں۔ حال ہی میں ماہرین نے اس حوالے سے نیا انکشاف کیا ہے۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بھارت میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی قسم بی 117 کی دریافت کے بعد حکومتی سطح پر ملٹی لیبارٹری نیٹ ورک (آئی این ایس اے سی او جی) کا قیام عمل میں آیا تھا۔
24 مارچ کو اس نیٹ ورک نے ایک ڈبل میوٹنٹ قسم دریافت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ویسے تو اس قسم کا اعلان مارچ 2021 میں ہوا مگر یہ اکتوبر 2020 میں کووڈ سیکونسنگ کے علامتی ڈیٹا بیس میں دریافت ہوچکی تھی، مگر اس وقت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ نئی قسم ممکنہ طور پر زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور صرف بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہی 60 فیصد سے زیادہ کیسز اس کا نتیجہ ہیں۔
زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اقسام کا ابھرنا عالمی سطح پر نگرانی کے محدود نظام کی جانب نشاندہی کرتا ہے جو دور دراز علاقوں میں کام نہیں کر رہا۔
آئی این ایس اے سی او جی کی جانب سے توقع تھی کہ تمام ریاستوں کے مثبت کیسز کے 5 فیصد کے جینیاتی سیکونسز تیار کرے گی مگر 15 اپریل تک محض 13 ہزار سیکونس ہی تیار ہوسکے۔
ڈبل میوٹنٹ کیا ہے؟
وائرسز میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ مخصوص نہیں ہوتیں بلکہ جگہ جگہ میوٹیشن ہوتی ہے۔
نیا کرونا وائرس، ایچ آئی وی اور انفلوائنزا وائرسز سب میں جینیاتی انسٹرکشنز کے لیے مالیکیول آر این اے کو استعمال کرتے ہیں اور ان میں دیگر وائرسز کے مقابلے میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں، جس کی وجہ میزبان خلیات میں وائرسز کی نققول بنانے کے دوران ہونے والی غلطیاں ہوتی ہیں۔
عالمی پبلک ڈیٹا بیس میں نئے کرونا وائرس کے لاکھوں جینیاتی سیکونسز موجود ہیں، جن میں متعدد میوٹیشنز پر توجہ نہیں دی جاسکی، مگر کچھ میوٹیشنز سے امینو ایسڈز میں تبدیلی آئی، جو وائرل پروٹیکشن کی تیاری کی بنیاد ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی خصوصیات بدل گئیں۔
جب ایک یا زیادہ میوٹیشن برقرار رہتی ہیں تو ایک ایسی نئی قسم تشکیل پاتی ہے جو دیگر اقسام سے مختلف ہوتی ہیں اور انہیں ایک نیا نام دیا جاتا ہے۔ بھارت میں دریافت نئی قسم کو بی 1617 کا نام دیا گیا ہے جس میں 2 میوٹیشنز موجود ہیں۔ پہلی میوٹیشن اسپائیک پروٹین 452 میں ہوئی اور دوسری پروٹین 484 میں۔
ویسے اس نئی قسم میں صرف 2 میوٹیشنز نہیں ہوئیں بلکہ مجموعی طور پر 13 تبدیلیاں آئی ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں موجود ہیں۔
یہ وائرس اسپائیک پروٹین کو پھیپھڑوں اور دیگر انسانی خلیات کی سطح پر موجود ایس 2 ریسیپٹر پروٹین سے جڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور پھر بیمار کرتا ہے۔ وائرس میں 8 ویں میوٹیشن ناپختہ اسپائیک پروٹین کے وسط میں ہوئی جو وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی کا باعث ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق بھارتی قسم میں موجود میوٹیشنز پر الگ الگ تو تحقیقی کام ہوا ہے مگر اجتماعی طور پر ایسا نہیں ہوا، اہم بات یہ ہے کہ اس کے اسپائیک پروٹین میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔
میوٹیشنز کی تعداد نہیں ان کا مقام اہمیت رکھتا ہے
ماہرین کے مطابق وائرسز میں ایسا اکثر ہوتا ہے، سرفیس پروٹینز بہت تیزی سے ارتقائی مرحال سے گزرتا ہے بالخصوص کسی نئے وائرس میں، تاکہ وہ خلیات کو زیادہ بہتر طریقے سے جکڑ سکے۔
چونکہ اسپائیک پروٹین نئے کرونا وائرس کی سطح پر ہوتا ہے تو یہ مدافعتی نظام کا بنیادی ہدف ہوتا ہے، مدافعتی خلیات ایسی اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں جو اسے شناخت کر کے وائرس کو ناکارہ بنادیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت دستیاب کووڈ ویکسین میں اسپائیک پروٹین کو استعمال کر کے جسم کو تربیت دی جاتی ہے تاکہ بیماری سے بچا جاسکے۔
اسپائیک پروٹین میں آنے والی تبدیلیاں اس کی شکل اور ساخت کو بدل دیتی ہیں جس سے وائرس کو اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد ملتی ہے، اس سے وائرس کی بقا اور نقول بنانے کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اسپائیک پروٹین میں کسی بھی میوٹیشن سے وائرس کے افعال، پھیلاؤ اور دیگر پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایل 452 آر نامی میوٹیشن سے وائرس کی خلیاات کو متاثر کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے یعنی وہ تیزی سے اپنی نقول بناتا ہے اور ایس 2 ریسیپٹر کو زیادہ سختی سے جکڑتا ہے۔
اسی طرح ای 484 نامی میوٹیشن وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
بھارت میں دریافت قسم بی 1617 میں یہ دونوں میوٹیشنز موجود ہیں اور اس وجہ سے یہ ممکنہ طور پر بہت زیادہ مشکل میں ڈال دینے والی قسم ہوسکتی ہے، جس پر زیادہ تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔
عالمی سطح پر پھیلاؤ
بی 1618 بہت تیزی سے دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچی ہے اور اب تک 1 ملک میں اسے دریافت کیا جاچکا ہے۔
چونکہ اس میں بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں تو اس وقت بھارت میں وبا کی لہر میں تیزی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے مگر اس حوالے سے فی الحال حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔
کچھ ابتدائی شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ موجودہ ویکسینز اس نئی قسم کے خلاف مؤثر ہیں جبکہ احتیاطی تدابیر یعنی فیس ماسک، سماجی دوری اور ہاتھوں کو اکثر دھونا بھی اس سے بچاؤ کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہیں۔