پاکستان میں جوں ہی گرم موسم کی شروعات ہوتی ہے تو ملکی وغیرملکی سیاح نسبتاً سرد موسم کی حامل پہاڑی علاقوں میں پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس دوران جب تعلیمی اداروں اورسرکاری دفاترمیں چھٹیاں ہوتی ہے تو یہ علاقےعام شہری علاقوں کا منظرپیس کرنے لگتے ہیں جہاں بھیڑاورگاڑیوں کی لمبی قطاریں معمول بن جاتا ہے۔
ویسے تو پاکستان کا ہرعلاقہ اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے لیکن ابھی ذکرکرتے ہیں خیبر پختونخواہ کے شمالی علاقے میں واقع وادی ناران سے آٹھ کلومیٹرکے فاصلے پرحسین وجمیل خوبصورتیوں سے مالا مال نیلگوں پانی کی سرزمین جھیل سیف الملوک کا جو سطح سمندرسے تقریبا 10500 فٹ پرواقع ہے۔
جھیل تک پنچنے کے لئے وادی ناران سے گوکہ فاصلہ کم ہے لیکن اس کے لئے مقامی جیپ کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کے لئے اپ کو دو اطراف کے چارسے پانچ ہزارروپےادا کرنے پڑتے ہیں۔
ہم نے بھی اپنا سفر ناران سے شروع کیا اورحیرانگی بھی ہورہی تھی کہ اتنے کم فاصلے کے لئے اتنی زیادہ رقم ادا کرنے پڑ رہی ہے لیکن جب سفر شروع ہوا تو پتہ چلا کہ جہاں یہ پہاڑی راستہ پر پیچ ہے وہی حد درجہ کا کچا بھی اور جیب کو پتھروں پرسے گزرنا پڑتا ہے۔
ہم جس جیپ میں سوار تھے اس کے ڈرائیور کا نام رضوان تھا اور اس سے جب دریافت کیا گیا کہ راستہ پختہ کیوں نہیں کیا جارہا ہے تو اس نے دو اہم انکشافات کیے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہاں کے مقامی آبادی کے لئے موسم گرما کے پانچ ماہ کمائی کے ہوتے ہیں اور اس دوران جہاں ہوٹل آباد ہوتے ہیں، وہی مقامی ٹرانسپورٹر کچے راستے پر من مانے کرایہ حاصل کرتے ہیں اور راستوں کو پکا بھی نہیں ہونے دیتے کیونکہ پھر سیاح اپنی گاڑیاں استعمال کرنا شروع کردیں گے جس سے ان کے روزگار کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
رضوان نے یہ بھی بتایا کہ اس روٹ پرسو سے زائد جیپیں چلتی ہے، سڑک کے پختہ ہونے کے حوالے سے اس کا دعویٰ تھا کہ کاغذوں میں یہ سڑک بن چکی ہے۔ ڈرائیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ہم 45 منٹ میں جھیل پہنچے اورچونکہ راستہ تنگ ہے اوراس دوران کسی جگہ لینڈسلائنڈنگ ہوجائے، گاڑی خراب ہو جائے، یا کوئی اوورٹیک کرے تو پھر وقت کی کوئی قید نہیں اورآپ کو گھنٹوں انتظاربھی کرنا پڑسکتا ہے۔
جھیل تک جاتے ہوئے راستے میں گلیشئیر کے اوپر سے گزرنا پڑتا ہے جس کے لئے ماہر ڈرائیور کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ تما م دشواریاں اور خطرات تو ایک حقیقت ہیں لیکن جب جیپ جھیل سیف الملوک پہنچتی ہے تو اس کے خوپصورت اور دلکش مناظر تمام تھکن ختم کردیتے ہیں، جونہی آپ جھیل کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں اوربڑی تعداد میں مختلف ماڈلز کی جیپیں کھڑی نظرآتی ہے اورجھیل کا نیلا پانی اوراس سے نکلنے والا آبشار آواز دل، دماغ اورآنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بنتا ہے۔
ایک جانب تو مقامی آبادی جھیل کی خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لئے سیاحوں کے پھیلائے ہوئے گند صاف کرتے ہوئے نظرآتے ہیں، وہیں ان میں سے کچھ اس حسین جھیل سے منسوب پری بدیع الجمال اورشہزادہ سیف الملوک کی محبت کی رومانوی داستانیں سناتے نظرآتے ہیں۔
پیالہ نماسیف الملوک جھیل اپنے حسن و جمال کے سبب دنیا بھرمیں اپنی مثال آپ ہے، اس کی لمبائی تقریبا 1420 فٹ اور چوڑائی 450فٹ کے قریب ہے جھیل کے سامنے 17390 فٹ بلندی کا حامل ملکہ پربت نامی عظیم پہاڑ سارا سال برف کا لبادہ اوڑھے، اپنی خوبصورتی اورجوبن کے حسین نظارے لیے قائم ہے۔
ہمیں یہاں یہ بھی بتایا گیا کہ جھیل کا رنگ موسم کے ساتھ بدلتا رہتا ہے صاف موسم میں جھیل کے پانی کا رنگ نیلا، بادل ہوں تو سبز اورگہرے بادل ہو تو گہرا سبز پوجاتا ہے، یہاں جن ملکی اورغیر ملکی سیاحوں سے ملاقات ہوئی تو ہرکوئی اپنے انداز میں تعریف کرتے ہوائے ملا، جبکہ جھیل کے گرد گھوڑ سواری کرتے بچے جوان ہر منظرکی سیلفی لیتے اور فوٹو گرافی کرتے نظرآئے۔
یہ تمام مناظردیکھنے کے بعد یقیناً یہ بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ جھیل کی خوبصورتی کو دیکھنے کی تمنا ہرسیاح کو ہر مشکل اور دشواری سے بیگانہ کردیتی ہے، لیکن یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حکومت کی جانب سے جھیل کی خوبصورتی میں اضافے اورسیاحوں کی سہولت کے لئے کوئی مناسب انتظام یا منصوبہ بندی نظرنہیں آئی۔