جمعہ, مئی 24, 2024
اشتہار

ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں، چیف جسٹس

اشتہار

حیرت انگیز

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائلز کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس (ریٹائرڈ) جواد ایس خواجہ کے وکیل کے دلائل پر کہا  ہے کہ ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں لیکن کیا طریقہ کار ہوگا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ کو بھجوائے جائیں گے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے صبح سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل پر رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹ ایکٹ لگانے کے لیے کوئی انکوئری یا انوسٹی گیشن تو ہونی چاہیے۔ انہوں نے استفسار کیا ہے کہ ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں کہ ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار جسٹس (ریٹائرڈ) جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے دلائل کا آغاز کیا۔ ان کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں لیکن کیا طریقہ کار ہوگا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ کو بھجوائے جائیں گے۔

- Advertisement -

آج صبح سماعت کا آغاز ہوا تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے تحریری دلائل جمع کراتے ہوئے کہا کہ میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے، انھوں نے کہا کہ اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا، یہ بھی نہیں کہتا کہ ملٹری کورٹس کے ذریعے ٹرائل سرے سے غیر قانونی ہے۔

فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ 9 مئی کو کیا ہوا کیا نہیں، انسداد دہشتگردی کے ٹرائل کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا مکمل حق ہوتا ہے، سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں موجود ہیں، میں نے کسی ملزم کی بریت کو چیلنج نہیں کیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ سویلینز کا کن حالات میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟ فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ 21 ویں ترمیم کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ ٹرائل کے لیے آرمی ایکٹ کے ساتھ تعلق ہونا لازمی ہے لیکن ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ جسٹس عائشہ ملک نے پھر استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ جس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ 21 ویں ترمیم کیس کا حوالہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے دیا تھا، 21 ویں ترمیم کے نتیجے میں بننے والی فوجی عدالتوں کے فیصلے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج ہوئے تھے، کوئی نہیں کہتا کہ 9 مئی کے ملزمان کا سخت ٹرائل نہ ہو، دہشتگردی کی عدالت میں ٹرائل سے زیادہ سخت کیا ہوگا؟

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جو آپ کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں، 9 مئی واقعات کے مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ، آرمی ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کو کب شامل کیا گیا؟

جسٹس اعجازالاحسن نے بھی فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا ٹرائل فوجی عدالت میں کرے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا، اسٹیٹ سیکیورٹی کی حدود میں جائیں گے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ ملزمان کو فوج کے حوالے کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کو چنا گیا، آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، انسداد دہشتگردی کے ٹرائل کیخلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا مکمل حق ہوتا ہے، جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہو گا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں۔ میرا مدعا ہے تمام ملزمان میں سے چند کے ساتھ الگ سلوک ہوا، ایک ایف آئی آر میں 60 ملزمان ہیں تو 15 ملٹری کورٹس کو دیے جاتے ہیں، ایف آئی آر میں جو الزامات ہیں ان پر3 الگ طرح کے ٹرائل ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا مزید کہا کہ میرا دوسرا نقظہ فیئر ٹرائل کا ہے، ایک الزام پرٹرائل کے بعد کچھ لوگوں کے پاس اپیل کا حق ہو گا اور کچھ کے پاس نہیں، سپریم کورٹ کے 5 فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں، 1998 میں ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ آیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ فوج کو جب کوئی شخص مطلوب ہو تو وہ کس طریقہ کار کے تحت حوالگی کا مطالبہ کرتی ہے، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں شکایت یا ایف آئی آر کا کوئی طریقہ کار نہیں۔ جسٹس منصور نے پوچھا کہ کمانڈنگ افسر جب مجسٹریٹ کے پاس جاتا ہے تو کس بنیاد پرجا کر بندہ مانگتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ کریمنل پروسیجر کی سیکشن 549 میں اس کا جواب ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ اگر549 میں اس کا جواب نہ ہوا تو جرمانہ ہو گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے یہ بھی استفسار کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لیا جاتا ہے؟ جس فیصل صدیقی نے بتایا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق تو پھر سول عمارات پربھی ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ وہ زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا آپ ان مقدمات میں پراسس کا بتائیں۔

اس سے قبل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے 9 مئی واقعات کے بعد پنجاب میں گرفتار ہونے والے ملزمان کی رپورٹ جمع کرا دی، جس کے مطابق 81 خواتین سمیت مجموعی طور پر 6088 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ آیا جس کے بعد سماعت پھر شروع ہوئی، اس دوران وکیل سول سوسائٹی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ٹرائل کیسے شروع ہوتا ہے جواب آرمی رولز 1954 میں موجود ہے، رول 157 کی سب سیکشن 13 میں طریقہ کار درج ہے،9 اور 10 مئی کو واقعات ہوتے ہیں اور 25 مئی کو حوالگی مانگی جاتی ہے، یہاں تو ہمیں حقائق میں جانے کی ضرورت بھی نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چارج سے پہلے انکوائری کا اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے، فیصل صدیقی نے کہا کہ  کورٹ آف انکوائری کے بعد آرمی چیف کورٹ مارشل کی منظوری دیتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے پھر استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان ملزمان کے خلاف بظاہر کوئی الزام نہیں، فیصل صدیقی نے کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ چارج کرنے سے پہلےسخت انکوائری ہونی چاہیے، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری پہلے ہونی چاہیے۔

فیصل صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ تاریخ میں کبھی 1998 کے علاوہ سویلین حکومت نے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق دوسری عدالتوں میں ٹرائل کاقانونی آپشن موجود ہے، کیس کسی آرمی آفیشل پر ہوتا تو بات اور تھی اب کورٹ مارشل کے علاوہ آپشن نہیں، آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سویلین کاملٹری کورٹ میں ٹرائل الگ نوعیت کے حالات میں ہوگا، آپ یہ بھی واضح کریں کہ وہ الگ نوعیت کے حالات کیا ہوں گے، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ محدود معاملات پر ہی سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوسکتاہے۔ اس پر فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین نیب اختیارات کیس میں 2003 کا ایک سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، عدالت نے کہا تھا نیب عدالت میں کیس تب تک نہیں جائے گا جب تک چیئرمین صوابدیدی اختیارات استعمال نہیں کرتا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ کیا کبھی ایسا ہوا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف مجسٹریٹ نے کیا ہو؟ اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جی میں اس حوالے سے فیصلوں کی مثالیں پیش کروں گا، سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین روسٹرم پر آگئے۔

جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کیا سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ موجودہ حالات میں سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہوسکتا، ہمارا اعتراض یہ بھی نہیں کہ لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہو، ہمارا نکتہ کارروائی کے فورم کا ہے کہ کارروائی ملٹری کورٹس میں نہیں ہوسکتی۔ سوال یہ ہے کہ سویلین کے کورٹ مارشل کی آرمی ایکٹ میں گنجائش کیا ہے؟ آرمی ایکٹ کا مقصد یہی ہے کہ آرمڈ فورسز میں ڈسپلن رکھا جائے، جن افراد کو مسلح افواج کی کسی کمپنی وغیرہ میں بھرتی کیا گیا ہو ان پرہی ایکٹ کا اطلاق ہو گا۔

احمد حسین ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کسی حالات میں نہیں ہوسکتا، میرے موکل کا اس کیس میں کوئی ذاتی مفاد نہیں، درخواست میں ریلیف شہریوں کے لیے مانگا گیا ہے، سویلین کا مقدمہ فوجداری عدالت میں چلنا چاہیے، آرمی ایکٹ ادارے کے ڈسپلن کو قائم کرنے کے لیے ہے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، کورٹ مارشل میں ٹرائل سے آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل کاحق نہیں ملتا، کورٹ مارشل کے لیے فوجیوں کا ایک پینل بنایا جاتا ہے جو سماعت کرتا ہے، پہلے تو کورٹ مارشل کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں تھا، بعد میں اپیل کا حق ملا۔

انھوں نے کہا کہ ایپلٹ اتھارٹی آرمی چیف تھے، فوجی عدالتوں کےفیصلے کیخلاف اپیل بھی سینئرفوجی افسر کے پاس کی جاتی ہے، فیئر ٹرائل ہر ایک کا بنیادی حق ہے جس سے محروم نہیں کیا جا سکتا، کورٹ مارشل کارروائی کےفیصلےآسانی سے میسر بھی نہیں ہوتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کورٹ مارشل کارروائی کرتا کون ہے؟ وکیل احمد حسین نے بتایا کہ ایک پینل ہوتا ہے جو کارروائی کنڈکٹ کرتا ہے، ملٹری کورٹ فیصلے میں صرف اتنا لکھتی ہے کہ قصور وار ہے یا نہیں، اب فیصلے میں وجوہات کا ذکر ہوتا ہے یا نہیں یہ اٹارنی جنرل ہی بتا سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملٹری کورٹس میں اپیل کا تصور بھی آرمی افسران کے پاس ہی ہے، آرمی چیف ہی سارے پراسس میں فائنل اتھارٹی ہے، کلبھوشن یادو کے لیے اپیل کا خصوصی قانون بنایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پھر استفسار کیا کہ کیا دیگر ممالک میں سویلین کا کورٹ مارشل ہوتا ہے؟ جس پر جسٹس (ریٹائرڈ) جواد ایس خواجہ کے وکیل نے بتایا کہ برطانیہ میں سویلین کو ملٹری کورٹس میں ٹرائی کیا جاتا ہے، اعلامیے کے بعد کس سویلین کو فئیر ٹرائل کا حق ملے گا، بنیادی حقوق سے متصادم قانون کالعدم ہوتا ہے، آرمی ایکٹ کا قانون سویلین کے کورٹ مارشل کیلیے نہیں بنایا گیا، پینل فیصلےمیں سزا یا سزا نہ ہونے کا لکھتا ہے، اپیل بھی آرمی چیف کے ماتحت افسران ہی سنیں گے۔

اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ پھر بتائیں کہ کن سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کےتحت ہو سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملٹری پرسنل کے علاوہ سویلینز کے حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سویلینز میں تو ہر شہری آتا ہے تو کیا ٹرائل صرف مخصوص افراد کا ہو سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی سوال اٹھایا کہ سویلینز کی تعریف کیا ہوگی؟ کیا ریٹائرڈ آرمی افسران بھی سویلینز میں آئیں گے؟

احمد حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرمی ایکٹ فیئر ٹرائل یا سویلینز کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا گیا جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ کیا دیگر ممالک میں بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں؟

وکیل احمد حسین نے کہا کہ ہر ملک کا اپنا قانون ہے، برطانیہ میں سویلینز کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے لیکن سینیئر کمانڈ کے فیصلوں کے بعد کیا فوجی عدالت میں کوئی افسر فیئر ٹرائل کو فالو کر سکتا ہے؟ اپنے مقدمے کے آپ خود جج نہیں بن سکتے۔ انہوں نے اس موقع پر 1975 کے سپریم کورٹ فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ میں جو حصہ سویلین سے متعلق ہے اس پر عدالت فیصلہ کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ تو آرمی سے متعلق ہی قانون ہے، تفریق کیسے کریں گے؟ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرمی ایکٹ کو بنیادی حقوق کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاتا، پھر آپ کہتے ہیں نہیں یہ سویلین کی بات بھی کرتا ہے اسے عدالت دیکھے۔

وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 8 کے تحت عدالت آرمی ایکٹ کے سیکشنز کا جائزہ لے سکتی ہے، عدالت جائزہ لے کر قرار دے کہ کیا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کورٹ مارشل سے متعلق یہ ایک دلیل ہے، دوسری یہ دلیل دی گئی ہے کہ کورٹ مارشل طریقہ کار کے مطابق ہوسکتا ہے۔

احمد حسین ایڈووکیٹ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ عام عدالتیں فعال ہیں تو سویلین کا کورٹ مارشل کیسے ہو سکتا ہے، نہیں معلوم کورٹ مارشل کے شواہد کیا ہیں لیکن کس جرم میں سویلین کو چارج کریں گے، کئی شہریوں کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 199 تھری کے تحت ہائیکورٹ کے فوجی عدالتوں کیخلاف اختیارات محدود ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عام شہریوں کا تعلق آرمی ایکٹ سے کیسے جوڑیں گے اور کیسے بنیادی حقوق سےمحروم کرینگے؟

وکیل نے کہا کہ میرا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ عدالت آرمی ایکٹ کی شقوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔ عدالت نے جائزہ لینا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں، اس کی وضاحت نہیں دی گئی کہ حکومت نے سول عدالتوں پرعدم اعتماد کیوں کیا ؟ ملٹری ٹرائل کے نتیجے میں کئی شہریوں کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں، کیا طریقہ کار ہوگا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ کو بھجوائے جائیں گے۔

وکیل احمد حسین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل کا آغاز کر دیا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں