اشتہار

کوّؤں کے بھی کچھ حقوق ہیں!

اشتہار

حیرت انگیز

کوّا گرائمر میں ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ کوّا صبح صبح موڈ خراب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایسا موڈ جو کوّے کے بغیر بھی کوئی خاص اچھا نہیں ہوتا۔

علی الصبح کوّے کا شور انسان کو مذہب کے قریب لاتا ہے اور نروان کی خواہش شدت سے پیدا ہوتی ہے۔ کوّا گا نہیں سکتا اور کوشش بھی نہیں کرتا۔ وہ کائیں کائیں کرتا ہے۔ ’کائیں‘ کے کیا معنیٰ ہیں؟ میرے خیال میں تو اس کا کوئی مطلب نہیں۔

کوّے کالے ہوتے ہیں۔ برفانی علاقے میں سفید مائل کوّا نہیں پایا جاتا۔ کوّا سیاہ کیوں ہوتا ہے…؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے۔

- Advertisement -

پہاڑی کوّا ڈیڑھ فٹ لمبا اور وزنی ہوتا ہے۔ میدان کے باشندے اس سے کہیں چھوٹے اور مختصر کوّے پر قانع ہیں۔ کوّے خوب صورت نہیں ہوتے، لیکن پہاڑی کوّا تو باقاعدہ بدنما ہوتا ہے، کیوں کہ وہ معمولی کوّے سے حجم میں زیادہ ہوتا ہے۔

کوّے کا بچپن گھونسلے میں گزرتا ہے، جہاں اہم واقعات کی خبریں ذرا دیر سے پہنچتی ہیں۔ اگر وہ سیانا ہو تو بقیہ عمر وہیں گزار دے، لیکن ’سوشل‘ بننے کی تمنّا اسے آبادی میں کھینچ لاتی ہے… جو کوّا ایک مرتبہ شہر میں آجائے، وہ ہرگز پہلا سا کوّا نہیں رہتا۔

کوّے کی نظر بڑی تیز ہوتی ہے۔ جن چیزوں کو کوّا نہیں دیکھتا، وہ اس قابل نہیں ہوتیں کہ انہیں دیکھا جائے۔ کوّا بے چین رہتا ہے اور جگہ جگہ اڑ کر جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی بے حد مختصر ہے، چناں چہ وہ سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ کون نہیں چاہتا؟

کبھی کبھی کوّے ایک دوسرے میں ضرورت سے زیادہ دل چسپی لینے لگتے ہیں۔ دراصل ایک کوّا دوسرے کوّے کو اس نظر سے نہیں دیکھتا، جس سے ہم دیکھتے ہیں۔ دوسرے پرندوں کی طرح کوّوں کے جوڑے کو کبھی چہلیں کرتے نہیں دیکھا گیا۔ کوّا کبھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتا یا کرتا ہے؟ کوّے کو لوگ ہمیشہ غلط سمجھتے ہیں۔ سیاہ رنگ کی وجہ سے اسے پسند نہیں کیا جاتا۔ لوگ تو بس ظاہری رنگ روپ پر جاتے ہیں۔ باطنی خوبیوں اور ’کردار‘ کو کوئی نہیں دیکھتا۔ کوّا کوئی جان بوجھ کر تو سیاہ نہیں ہوا۔ لوگ چڑیوں، مرغیوں اور کبوتروں کو دانہ ڈالتے وقت کوؤں کو بھگا دیتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح نہ صرف کوؤں کے لاشعور میں کئی ناخوش گوار باتیں بیٹھ جاتی ہیں، بلکہ ان کی ذہنی نشوونما پر برا اثر پڑتا ہے۔ آخر کوؤں کے بھی تو حقوق ہیں۔

کوّے باورچی خانے کے پاس بہت مسرور رہتا ہے۔ ہر لحظے کے بعد کچھ اٹھا کر کسی اور کے لیے کہیں پھینک آتا ہے اور پھر درخت پر بیٹھ کر سوچتا ہے کہ زندگی کتنی حسین ہے۔

کہیں بندوق چلے تو کوّے اسے اپنی ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور دفعتاً لاکھوں کی تعداد میں کہیں سے آجاتے ہیں۔ اس قدر شور مچتا ہے کہ بندوق چلانے والا مہینوں پچھتاتا رہتا ہے۔ بارش ہوتی ہے تو کوّے نہاتے ہیں، لیکن حفظانِ صحت کے اصولوں کا ذرا خیال نہیں رکھتے۔ کوّا سوچ بچار کے قریب نہیں پھٹکتا۔ اس کا عقیدہ ہے کہ زیادہ فکر کرنا اعصابی بنا دیتا ہے۔

(مزاح نگار شفیق الرّحمان کے قلم سے)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں