تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاناما عمل درآمد کیس ، پی ٹی آئی کے وکیل کی عدالت سے نوازشریف کو طلب کرنے کی استدعا

اسلام آباد : پاناما عمل درآمد کیس میں پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے نوازشریف کو طلب کرنےکی استدعا کردی جبکہ شریف خاندان اور اسحاق ڈار نےجے آئی ٹی رپورٹ پراعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے، عدالتی وقت ختم ہونے پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر پہلی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جاری ہے ،شریف خاندان نےجے آئی ٹی رپورٹ پراعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے، شریف فیملی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث نےدرخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائی، جو 10 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔

شریف خاندان نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پر مینڈیٹ سے تجاوزکا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے دوران تفتیش ٹیم کارویہ جانبدارنہ اور غیرمنصفانہ رہا، شریف فیملی جےآئی ٹی رپورٹ کو مسترد کرتی ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تحقیقات اور رپورٹ مرتب کرتے ہوئے قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے، جے آئی ٹی سے متعلق ہمارے تحفظات سنے جائیں، جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے فراہم کردہ 13 سوالات سے زیادہ سوالات پر تفتیش کی ، اس لیے جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کیا جائے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات پر مبنی جواب جمع


دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی اپنا جواب سپریم کورٹ میں داخل کردیا گیا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات پر مبنی جواب رجسٹرار آفس میں جمع کرایا گیا۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا جواب اعتراضات پر مبنی ہے جس میں جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کیا گیا ہے، جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی فائڈنگز عدالت کی جانب سے دیئے گئے مینڈیٹ سے متجاوز ہیں۔ آئینی پٹیشن اور عدالتی حکم میں ان کی دولت یا آمدن کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا، صرف یہی نکتہ جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کرنے کیلئے کافی ہے۔

اسحاق ڈار نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ان کے اور ان کی اہلیہ سے متعلق ٹیکس کی تفتیش نیب کر چکا ہے ، خیرات کو ٹیکس چوری قرار دینا افسوس ناک ہے، اسحاق ڈار کا کہنا ہے آمدنی اور دولت کے حوالے سے سوال نہیں کیا گیا، اس طرح انہیں جے آئی ٹی کے تحفظات دور کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل کا آغاز


بعد ازاں پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر عدالت نے فیصلہ کرنا ہے، دعویٰ کیا گیا تھا گلف اسٹیل 33ملین درہم میں فروخت ہوئی، جےآئی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کو گمراہ کن، جھوٹا قرار دیا ، 14 اپریل 1990کے معاہدے کو جے ائی ٹی نے خود ساختہ قرار دیا۔

نعیم بخاری نے مزید کہا کہ معاہدے میں طارق شفیع کی نمائندگی شہبازشریف نے کی تھی، جے آئی ٹی نے یواےای میں قانونی معاونت حاصل کی، طارق شفیع اور حسین نواز کے بیانات میں تضاد پایا گیا، شہباز شریف نے خود کو معاملے سے ہی الگ کرلیا، جے آئی ٹی نے 12 ملین درہم کی قطری سرمایہ کاری کو افسانہ قرار دیا ہے۔

کمرہ عدالت میں شور کے باعث ججز کوسماعت میں مشکلات پر جسٹس اعجاز افضل برہم ہوگئے اور کہا کہ ایس پی صاحب عدالت میں شور کیوں ہورہاہے، کمرہ عدالت میں کیا ہورہا ہے ، خاموشی اختیار کی جائے۔

وکیل نعیم بخاری کہا کہ جے آئی ٹی نے لندن فلیٹ کو مریم نواز کی ملکیت قرار دیا، جے آئی ٹی رپورٹ میں وراثتی تقسیم میں لندن فلیٹ کا کوئی ذکر نہیں، قطری سرمایہ کاری کا ذکر وزیراعظم نے قوم ،اسمبلی سے خطاب میں نہیں کیا۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ شہباز شریف بطورگواہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے، شہباز شریف کا بیان صرف تضاد کی نشاہدہی کیلئے استعمال ہوسکتا ہے، بیان کا جائزہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت لیا جاسکتا ہے، قانونی حدود کو مدنظر رکھ کا فیصلہ کرنا ہے، جس پر پی ٹی آئی وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ نااہل کرنیوالے ججز سے اتفاق کرنا ہے یا نہیں، یہ فیصلہ عدالت کریگی، قطری ورک شیٹ پرتاریخ تھی نہ ریئل اسٹیٹ بزنس سے تعلق تھا۔

جسٹس شیخ عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حدیبیہ پیپر ملزکی اصل دستاویزات سربمہرہیں، نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملزکیس کے فیصلےمیں قطری خاندان کا ذکر نہیں، جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ قطری کا ذکرہونا ضروری نہیں تھا

وکیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان یکارڈ کرانے کیلئے 4خطوط لکھے، جےآئی ٹی نے کہا قطری شہزادہ پاکستانی قانون ماننے کیلئے تیارنہیں، قطری شہزادے نےعدالتی دائرہ اختیار پر بھی سوال اٹھائے، ہل میٹل کا معاملہ ہم نے نہیں اٹھایاتھا، 20اپریل کےعدالتی فیصلے سے ہل میٹل کا معاملہ سامنے آیا تھا۔

تحریک انصاف کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سعودی حکومت نے قانونی معاونت کیلئے لکھے خط کاجواب نہیں دیا، جے آئی ٹی نے قانونی فرم کے ذریعےکچھ دستاویزات حاصل کیں، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیاوہ دستاویزات تصدیق شدہ ہیں؟

جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ دستاویزات تصدیق شدہ نہیں لیکن جےآئی ٹی نے درست مانا، نوازشریف نےعزیزیہ اسٹیل ملز کی فروخت کی دستاویزات نہیں دی، جے آئی ٹی نے قراردیا ہل میٹل عزیزیہ ملزکی فروخت سے نہیں بنی، جے آئی ٹی نےقراردیا عزیزیہ ملز42ملین ریال میں فروخت ہوئی۔

پاناماعملدرآمدکیس، وزیراعظم نوازشریف ایف زیڈای کمپنی پرسوالات زیربحث


سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت نے سوال کیا کہ ایف زیڈای کی دستاویزات ذرائع سے ملیں یاقانونی معاونت کے تحت؟ جس کے جواب میں نعیم بخاری نے کہا کہ ایف زیڈای کی دستاویزات قانونی معاونت کے تحت آئیں، کمپنی نے نوازشریف کا اقامہ بھی فراہم کیا۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ ایف زیڈ ای کی دستاویزات جےآئی ٹی خط کےجواب میں ملیں، جس پر وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ایف زیڈای کمپنی حسن نوازکے مطابق 2014 میں ختم کردی گئی، نوازشریف ایف زیڈ ای کمپنی کےبورڈآف ڈائریکٹرز کے چیئرمین تھے۔

سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا نوازشریف نےکبھی تنخواہ وصول کی ؟ ریکارڈ کے مطابق کچھ نہ کچھ تنخواہ ملتی رہی، ریکارڈ سے یہ بھی واضح ہے ہر ماہ تنخواہ نہیں ملتی تھی، نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی تنخواہ10 ہزار ریال تھی، دستاویزات پر نوازشریف کے دستخط بھی موجودہیں۔

بینچ میں شامل جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کیا دستاویزات قانون کےمطابق پاکستان لائے گئے ہیں، نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ دستاویزات سےمتعلق جواب جےآئی ٹی ہی دے سکتی ہے، جس پرجسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ دستاویزات جےآئی ٹی کےخط کے جواب میں آئیں توٹھیک ہے۔

نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی نے یو اے ای حکومت کو 7بارخطوط لکھے، یو اےای کی وزارت قانون نے 4خطوط کاجواب دیا، یو اےای حکومت کولکھے گئے خطوط والیم10میں ہوں گے، جس پر جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ضرورت پڑنے پر والیم10کوبھی کھول کردیکھیں گے۔

سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع


جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قطری خط بوگس اور اس حوالے سے بنائی گئی کہانی خود ساختہ ہے۔

وکیل نعیم بخاری نے دلائل میں کہا حسن اور حسین نواز کے بیان میں تضاد ہے، حسن نوازنے کہا 2006سےپہلے برطانیہ رقوم کی منتقلی کا علم نہیں تھا، قطری خط اورورک شیٹ خودساختہ اوربوگس ہے، جس پر جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ قطری خطوط بوگس ہیں یاان کے حوالے سے کہانی بنائی گئی۔

نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ میرے حساب سے دونوں ہی بوگس ہیں، جے آئی ٹی کے مطابق برطانیہ کی تمام کمپنیاں خسارے میں چل رہی ہیں، کمپنیوں کا خسارہ 10ملین پاؤنڈ سے بھی زیادہ ہے، جے آئی ٹی نے کہا حسن نواز فنڈز کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے، جے آئی ٹی نے کمپنیوں کے درمیان فنڈز ٹرانسفر کا بھی جائزہ لیا جس پر جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس میں کہا نااہلی کا فیصلہ اقلیت کا تھا ، جے آئی ٹی اکثریت نے بنائی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے بتایا کہ فنڈز کہاں سے آئے؟ نعیم بخاری کا جواب میں کہنا تھا کہ جےآئی ٹی نے کہا حسن نواز کے پاس کاروبار کیلئے پیسےنہیں تھے، جےآئی ٹی نے کہا حسن نواز کے اثاثے آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، شریف خاندان کےخلاف مقدمات1991سےزیرالتواہیں، 9 مقدمات میں لکھا ہے تحقیقات ابھی تک جاری ہیں۔

نعیم بخاری نے مزید کہا کہ تحقیقات کہاں جاری ہیں یہ نہیں بتایاگیا، جےآئی ٹی نےتمام مقدمات سےمتعلق سفارشات بھی کی ہیں، جےآئی ٹی نے شریف خاندان کےتمام ارکان کےاثاثوں کاجائزہ لیا، اسحاق ڈار اور کیپٹن(ر)صفدر کے اثاثوں کا بھی جائزہ لیاگیا، اسحاق ڈارکے اثاثے بھی آمدن سے زائد قرار دئیےگئے، لندن فلیٹ کی مالک مریم نواز ثابت ہوگئی ہیں، قطری خطوط کو بھی افسانہ قراردیا گیا، عدالت نے قطری خطوط کے حقیقی یاافسانہ ہونے کا پوچھا تھا۔

وکیل پی ٹی آئی نے شریف خاندان نےجعلی دستاویزات پیش کیں، جعلی دستاویزات پیش کرنے پر فوجداری مقدمہ بنتا ہے، جس پر جسٹس اعجازافضل نے استفسار کیا کہ بینفشرمالک ہونے کا فرق نوازشریف کو پڑسکتا ہے؟ فرق تب پڑے گا جب مریم والد کے زیر کفالت ثابت ہوں گی، جے آئی ٹی دستاویزات کےذرائع کیاہیں؟ ذرائع جانے بغیر کیا دستاویزات کو درست قرار دیا جاسکتا ہے، دیکھنا ہوگا دستاویزات قانون کے مطابق پاکستان منتقل ہوئیں۔

نعیم بخاری نے عدالت سے نوازشریف کو طلب کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ شریف خاندان کاتمام دفاع ناکام ہوگیا۔

جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل


پاناما کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل میں کہا کہ نعیم بخاری رپورٹ کی سمری سےآگاہ کرچکے ہیں، نوازشریف نے جے آئی ٹی سے کہا قطری سرمایہ کاری کا علم ہے لیکن یاد نہیں، نوازشریف نے قطری خطوط پڑھے بغیر درست قرار دئیے۔

توفیق آصف کا کہنا تھا نوازشریف نے اسمبلی اورقوم سے خطابات میں سچ نہیں بولا، میری درخواست نوازشریف کی تقاریرکے گرد گھومتی ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق نوازشریف نے تعاون نہیں کیا، بادی النظرمیں نوازشریف صادق اورامین نہیں رہے ، جےآئی ٹی کے مطابق نوازشریف نےاپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کیا۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ رپورٹ ہم نے بھی پڑھی ہے، آپ سے رپورٹ پردلائل مانگے ہیں ، جس پر توفیق آصف کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی کی رپورٹ کی مکمل حمایت کرتےہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ سارا پاکستان جان چکا ہے، جے آئی ٹی فائنڈنگ کے پابند نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ پرعمل کیوں کریں آپ کو بتانا ہے۔

جسٹس شیخ عظمت نے اپنے ریمارکس میں کہا اپنے اختیارات کا کس حد تک استعمال کرسکتے ہیں، یہ بتائیں، جے آئی ٹی سفارشات پر کس حد تک عمل کرسکتے ہیں، یہ بتائیں؟

توفیق آصف نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ دے کرمعاملہ ٹرائل کیلئے بجھوائے، بادی النظرمیں وزیراعظم صادق اورامین نہیں رہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بادی النظرکامطلب صادق اورامین پرسوالات اٹھ سکتے ہیں۔

شیخ رشید کے دھواں دھار دلائل


سپریم کورٹ میں پاناماعملدرآمد کیس کی سماعت میں عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید کے دھواں دھار دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں جعلی دستاویزات پیش کیے گئے، مریم نوازبنیفیشل مالک ثابت ہوگئیں ہیں، شریف خاندان کے خلاف مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا جائے۔

شیخ رشید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ثابت کیا ملک میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں، رپورٹ میں مزید آف شور کمپنیاں نکل آئیں، وزیراعظم کے بیرون ملک نوکری کرنے کے انکشاف سے قوم کی ناک کٹ گئی ہے، بے نامیوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے، ساراخاندان ہی بےنامیوں کا ٹبر ہے، ایک بچے کو سعودی عرب، ایک کولندن میں بے نامی رکھا گیا ہے

وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل


شیخ رشید کے بعد وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  جےآئی ٹی سےمتعلق2 درخواستیں دائرکی ہیں، ایک درخواست رپورٹ کی جلد10کی فراہمی کیلئےہے، دوسری درخواست میں جےآئی ٹی پراعتراضات درج ہیں، عدالت کے سامنے اپنی گزارشات پیش کروں گا،خواجہ حارث

خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ  دستاویزات اکھٹی کرنے میں جےآئی ٹی نےقانون کی خلاف ورزی کی، جےآئی ٹی نےاپنےاختیارات سےتجاوزکیا، جےآئی ٹی کی دستاویزات کو ثبوت تسلیم نہیں کیا جاسکتا، عدالت جےآئی ٹی رپورٹ اوردرخواستیں خارج کرے۔

جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس میں کہا اپنے دلائل کوایشوزتک محدود رکھیں آسانی ہوگی، چاہتے ہیں عدالت اور قوم کاوقت ضائع نہ ہو۔

وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ  جےآئی ٹی رپورٹ ٹھوس شواہدکی بنیادپرنہیں، رپورٹ قانون اورحقائق کےخلاف ہے رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنس دائر نہیں کیا جاسکتا، جوکام عدالت نے کرنا ہے وہ جےآئی ٹی نے کیا ہے، جس پر جسٹس اعجازافضل کا کہنا تھا کہ  الزامات اس نوعیت کے تھے کہ تحقیقات کرانا پڑیں، جے آئی ٹی ٹرائل نہیں کر رہی تھی، اپنے الفاظ کا استعمال احتیاط سے کریں۔

جماعت اسلامی کے وکیل ، شیخ رشید اور وزیراعظم کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتی وقت ختم ہونے پر سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقت کیلئے بنائی گئی جے آئی ٹی نے تحقیقات مکمل  کرکے  10جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، جس پر عدالت عظمیٰ نے سماعت کے لیے 17 جولائی کی تاریخ مقرر کی تھی۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -