تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

امریکا کے غلام کا ایوارڈ نہیں چاہیئے، شام کا فرانس کو کرارا جواب

دمشق : شامی حکومت نے فرانس کی جانب سے صدر بشار الااسد کو دیا گیا اعلیٰ ترین ایوارڈ لوٹاتے ہوئے کہا ہے کہ’بشارالااسد کے لیے امریکا کے غلام اور حامی ممالک کے ایوارڈ سجانا اعزاز کی بات نہیں‘.

تفصیلات کے مطابق مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک شام نے صدر بشار الااسد کو فرانس کی جانب سے دیئے گئے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’لیجیئن ڈی اونر‘ فرانس کو واپس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایسے کسی ملک کا تحفہ یا انعام نہیں رکھوں گا جو امریکا کا غلام ہو‘۔

شام نے ایوارڈ لوٹانے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب کچھ روز قبل فرانسیسی صدر نے اعلان کیا تھا کہ بشار الاسد سے ایوارڈ واپس لینے کے لیے ’انضباطی کارروائی‘ جاری ہے۔

شامی صدر بشار الاسد نے شام میں موجود رومانیہ کے سفارت خانے کے ذریعے ایوارڈ فرانس کو واپس کیا ہے۔

شام کے صدر بشار الاسد کو فرانس کا اعلیٰ ترین ایواڈ سنہ 2001 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد اقتدار سنبھالنے پر سابق فرانسیسی صدر جیکس شراک کی جانب سے دیا گیا تھا۔

شام کے دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا تھا کہ ’شامی وزارت خارجہ نے فرانس کی جانب سے شامی صدر بشار الاسد کو دیئے گئے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’لیجیئن ڈی اونر‘ جمہوریہ فرانس کو واپس کردیا ہے‘۔


فرانس کا شامی صدر کو بڑے سِول اعزاز سے محروم کرنے کا فیصلہ


دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ شامی صدر کے لیے امریکا کے غلام ممالک اور حامیوں کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی ایوارڈ سجاکر رکھنا اعزاز کی بات نہیں ہے، کیوں کہ امریکا پوری دنیا میں دہشت گردی کا معاونت کار اور موجد ہے‘۔

واضح رہے کہ فرانس کی جانب سے ہر سال فرانس کے لیے خدمات انجام دینے والے، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور آزادی صحافت کے لیے کوششیں کرنے والے 3000 افراد کو اعلیٰ ترین ایوارڈ لیجئین ڈی اونر دیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں فرانس نے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر دوما میں مبینہ کیمیائی بم حملوں کے رد عمل میں شام کی تنصیبات کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

Comments

- Advertisement -