پیر, جون 17, 2024
اشتہار

وہ فن کار جسے پی ٹی وی کا دلیپ کمار کہا گیا!

اشتہار

حیرت انگیز

طلعت حسین پاکستان کے ان فن کاروں میں سے ایک ہیں جو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پاکستانی فلم انڈسٹری پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ گئے۔

طلعت صاحب کی پہچان ان کی آواز اور وہ انداز تھا جس نے سبھی کو اپنا اسیر کر لیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی ادکاری کم درجے کی تھی۔ وہ اداکاری میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے مگر قدرت کی ودیعت کردہ آواز نے انھیں کمال درجے کا آرٹسٹ بنا دیا جب کہ ان کے دور عروج میں پی ٹی وی ریڈیو پاکستان یا اسٹیج پر ان کی طرح صدا کاری کے فن میں یکتا آرٹسٹ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔

اکثر اشتہارات میں پس پردہ ان کی آواز گونجتی تھی تو نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں اس اشتہار کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ ہمیں بچپن کے ادوار میں تو پتا ہی نہ چلا کہ یہ اس شخص کی آواز ہے جسے ہم اکثر اسکرین پر دیکھتے آئے ہیں بعد میں جب آرٹس کونسل کے چکر لگائے اور وہاں کچھ کورسز کیے تو ہم پر عقدہ کھلا کہ آواز کے یہ جادوگر تو مشہور اداکار طلعت حسین ہیں۔

- Advertisement -

آج بھی یاد ہے ریڈیو آر جے بننے کے لیے ہم نے آرٹس کونسل میں ایک کورس جوائن کیا تو ہمارے ٹرینر ہمیں طلعت حسین کی آواز سنایا کرتے تھے کہ یہ شخص جس طرح الفاظ کو پیراہن عطا کرتا ہے، وہ کمال ہے۔

ایک وقت تھا کہ طلعت حسین پس پردہ آواز کے لیے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے آرٹسٹ شمار ہوتے تھے، اشتہار ساز ادارے انھیں منہ مانگے معاوضے پر سائن کرتے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ نہ صرف طلعت صاحب کی اداکاری کمال تھی بلکہ جب وہ اپنی آواز کی گمبھیرتا اور طلسماتی اثر کے ساتھ مکالمے ادا کرتے تو سننے والے ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے تھے۔

اگر اداکاری کی بات کی جائے تو طلعت حسین کا الفاظ کی ادائیگی کا سلیقہ، قرینہ اور برجستہ ڈائیلاگ ڈلیوری کے سبب انھیں پی ٹی وی کا دلیپ کمارکہا جاتا تھا، ’ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!‘ اس مصرعے کی جیتی جاگتی تصویر تھے طلعت حسین! کیوں کہ اب ان کے پائے کا کوئی اداکار انڈسٹری میں نظر نہیں آتا۔

لیجنڈ اداکار کی ڈائیلاگ ڈیلوری کمال تھی، کہاں لفظ پر زور دینا ہے کہاں آہستگی سے بات کرنا ہے اور فن کارانہ بدن بولی انھیں وہ معنویت عطا کرتی تھی جس نے ناظرین کے دلوں کو چھو لیا۔ اسی بنا پر انھیں پاکستان ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا گیا۔

دلیپ کمار نے اداکاری میں جسمانی حرکات اور بدن بولی کو جس نہایت اچھوتے اور منفرد انداز میں کیمرے کے سامنے پیش کیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ وہ سین کے دوران چلتے ہوئے، رک کر اور خاص انداز سے ڈائیلاگ بولتے تھے اور دیکھنے والے دیوانے ہوجاتے تھے، یہی ادا طلعت نے بھی اپنائی اور پاکستان میں بالخصوص ٹی وی انڈسٹری پر چھا گئے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طلعت حسین اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ٹی وی، فلم اور ریڈیو کے میڈیم میں اداکاری کی مختلف ڈیمانڈز ہوتی ہیں۔ طلعت حسین کے مطابق ریڈیو میں صرف ڈائیلاگ سے کام چل جائے گا لیکن ٹی وی یا فلم میں جذبات کے اظہار کے لیے باڈی لینگویج یا بدن بولی کافی اہمیت کی حامل ہے۔

طلعت حسین اداکاری اور تھیٹر کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ بھی گئے۔ انھوں نے لالی ووڈ اور بالی ووڈ سمیت برطانوی ٹی وی کیلئے بھی کام کیا، لیجنڈ اداکار کو ستارہ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازاگیا، پرچھائیاں، بندش، طارق بن زیاد، دیس پردیس، مہرالنسا، ہوائیں، دی کاسل، ایک امید، ٹائپسٹ، انسان اورآدمی اور کشکول ان کے مشہور ڈرامے تھے۔

لیجنڈ اداکار کی مشہور فلموں میں گمنام، ایک سے بڑھ کر ایک، اشارہ، چراغ جلتا رہا، محبت مر نہیں سکتی، لاج، قربانی، کامیابی، بندش، پروجیکٹ غازی، بانی پاکستان کی زندگی پر بنائی گئی فلم جناح شامل ہیں۔

اداکار طلعت حسین کے پاس کتابوں کا خزانہ تھا وہ کتابیں پڑھنے کے کافی شوقین تھے۔ انگریزی ادب اور اردو ادب سے خاص لگاؤ تھا، انھیں ایسے افراد میں شمار کیا جاسکتا تھا جن کے ہاتھ میں ہمیشہ کتاب رہتی تھی۔

لیجنڈ اداکار کے انتقال پر اداکارہ بشریٰ انصاری کا کہنا تھا کہ طلعت حسین باکمال اداکار اور بڑی شخصیت تھے۔ میرے لکھے ڈرامے انھوں نے پڑھے جس پر مجھے فخر ہے۔ وہ انتہائی مہذب شخصیت تھے جنھوں نے کبھی اپنے منہ سے کوئی بے جا لفظ نہیں نکالا۔

فلم اور ٹی وی کے معروف اداکار جاوید شیخ نے طلعت حسین کے انتقال کو شوبز انڈسٹری کا بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بہت نفیس آدمی تھے، جن سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی بیماری کے دوران ان سے ملنے کے لیے جانے کا ارادہ تھا لیکن افسوسناک اب یہ حسرت ہی رہے گی۔

عثمان پیرزادہ کا کہنا تھا کہ طلعت حسین میرے خاندان کا حصہ تھے جن کے انتقال پر بہت افسوس ہے لیکن وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ بہروز سبزواری نے کہا کہ طلعت حسین کی پہچان ان کی آواز تھی۔ طلعت حسین اس پائے کے فنکار تھے کہ اب ان کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔

اداکار سہیل احمد نے کہا کہ طلعت حسین کی وفات سے ہونے والا نقصان کبھی پورا نہیں ہوگا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان جیسا فنکار آئندہ کبھی ملتا نظر نہیں آ رہا۔

پی ٹی وی کے جنرل منیجر امجد حسین شاہ کا کہنا تھا کہ طلعت حسین نے ٹی وی، ریڈیو اور تھیٹر پر بہت کام کیا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ان کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ وہ اس مزاج کے تھے کہ چاہے جتنی طبیعت خراب ہو، کام سے منع نہیں کرتے تھے۔

تقسیم ہند سے قبل 1940 میں بھارت میں پیدا ہونے والے طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد تھی، وہ کافی عرصے سے علیل تھے انھیں ڈیمنشیا کا مرض لاحق تھا۔ وہ طویل عرصہ علالت کے بعد 26 مئی کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ انھیں ڈی ایچ اے فیز 8 کے قبرستان سپرد خاک کیا گیا۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں