سانحہ آرمی پبلک اسکول سے قبل اور بعد میں قوم یہی سنتی رہی کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی لیکن سانحہ آرمی پبلک اسکول آخری نہیں تھا اس کے بعد بھی حملے ہوتے رہے۔
اس سانحے کے محض ڈیڑھ ماہ بعد 30 جنوری 2015ء کو درندوں نے شکار پور کی مسجد پر خودکش حملہ کیا جس میں 60 سے زائد بے گناہ لوگ جاں بحق ہوگئے اور ہم نے ایک بار پھر رسمی گفتگو سنی۔
13 مئی 2015ء کو کراچی کے علاقے صفورہ گوٹھ میں اسماعیلی برادری کے افراد سے بھری گاڑی کو روک کر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 40 سے زائد افرا د جاں بحق ہوئے، تمام دہشت گرد گرفتار ہوئے، قانون کے کٹہرے میں لائے گئے اور انہیں پھانسی دے دی گئی، یہ وہ پہلا حملہ تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی۔
دہشت گرد پھر بھی نہیں رکے،18 ستمبر 2015ء کو انہوں نے پشاور میں فضائیہ کمیپ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 16 نمازیوں اور ایک کیپٹن سمیت 29 افراد جاں بحق ہوگئے۔
20 جنوری 2106ء کو خیبر پختون خوا کے ڈسٹرکٹ چار سدہ میں واقع باچا خان یونیورسٹی پر مسلح افراد کے حملے میں 20 سے زائد طلبا جاں بحق ہوگئے۔
27مارچ 2016ء کو لاہور کے گلشن اقبال پارک میں 70 سے زائد معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس میں اکثریت مسیحی بھائیوں کی تھی۔
8اگست 2016ء سول اسپتال کوئٹہ میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں 60 وکلا سمیت72 بے گناہ لوگ ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے۔
17 ستمبر 2016ء کو فاٹا کی ایک مسجد میں 30 سے زائد افراد درندگی کا نشانہ بن گئے۔
24 اکتوبر 2016ء کو پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ پر دہشت گردوں کے حملے میں 65 سے زائد پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔
12 نومبر کو بلوچستان کے علاقے حب کے پہاڑوں میں واقع درگاہ شاہ نورانیؒ پر خود کش حملے میں 65 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔