اشتہار

اصلی کون؟

اشتہار

حیرت انگیز

صدیوں پہلے ایک بادشاہ کو کیا سوجھی کہ اس نے اپنی سلطنت کے ہر خاص و عام کا امتحان لینے کی غرض سے ہیرے سے بھرا ایک بڑا تھیلا وزیر کو تھمایا اور کہا، ”اس میں چند اصلی ہیروں کے ساتھ نقلی ہیرے موجود ہیں جن میں‌ تمیز کرنا آسان نہیں‌ ہوگا۔ اصلی اور نقلی ہیروں کی پہچان کے لیے جوہریوں کو نہیں‌ عام آدمی کو بلانا، یہ کام کوئی بھی ذہین اور دانا شخص کرسکتا ہے۔”

وزیر نے بادشاہ کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اس کی سلطنت میں اعلان کروایا ”جوہریوں کے علاوہ جس شخص کو اپنی ذہانت اور قابلیت پر ناز ہو اور وہ اصلی اور نقلی ہیروں کو پہچان کر الگ کر دے اُسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا لیکن اگر کوئی ناکام ہوگیا تو ہمیشہ کے لیے زندان میں پھینک دیا جائے گا۔”

یہ اعلان سن کر کئی لوگ اپنے علم اور ذہانت کو آزمانے کے لیے بادشاہ کے محل پہنچے مگر نقلی ہیرے ظاہری طور پر اور ہر لحاظ سے اصلی ہیروں سے اس قدر قریب تھے کہ ان سے تو جوہری بھی یہ دھوکا کھا جاتے، عام آدمی کیسےکام کرتا اور یہی وجہ تھی کہ ان سب کو قید خانہ میں پھینک دیا گیا۔ کئی لوگوں کو ناکام کوشش کے بعد سزا ہو چکی تھی اور یہ دیکھ کر کوئی بھی منہ مانگے انعام کی لالچ میں آگے بڑھنے کو تیار نہ تھا۔

- Advertisement -

ایک روز ایک عمر رسیدہ اندھا محل کے دروازے پر پہنچا اور کہا کہ وہ منادی سن کر آیا ہے اور اصلی ہیروں کو الگ کرنا چاہتا ہے۔ اسے بادشاہ تک رسائی دی جائے۔ محافظوں نے یہ سنا تو قہقہے لگانے لگے اور بوڑھے کا خوب مذاق اڑایا لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہا اور تب اس کو وزیر تک پہنچا دیا گیا۔ وزیر اور اس کے ساتھیوں کو جب معلوم ہوا کہ بوڑھا نابینا ہے تو وہ اس کا مذاق اڑانے لگے اور طعنے دیے۔ وزیر نے کہا بڈھے کیوں اپنی جان کا دشمن ہوا ہے، یہاں‌ تجھ سے پہلے کئی جوان اور ہر لحاظ سے صحت مند آئے مگر ان سے یہ کام نہ ہوسکا۔ اب بھی وقت ہے گھر لوٹ جا اور باقی ماندہ زندگی بینائی لوٹ آنے کی دعائیں‌ کرتے ہوئے گزار دے۔ یہ کڑوی اور دل فگار باتیں سن کر بوڑھے نے وزیر کو کہا کہ آپ کی شان سلامت رہے، میں قسمت آزمائے بغیر نہیں‌ جانا چاہتا۔ وزیر نے اسے بادشاہ تک پہنچا دیا۔

بادشاہ نے اسے دیکھ کر کہا ” کیوں اپنی جان کے دشمن بنتے ہو، تم سے پہلے آنکھوں والے کئی قابل لوگ اس مقصد میں ناکام ہوکر زندان میں سڑ رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ تم اپنے اس قصد سے باز آجاؤ، میں ڈرتا ہوں کہ اس عمر کے ایک اندھے کو قید خانہ میں زندگی کے دن پورے نہ کرنا پڑ جائیں۔”

اندھے نے ادب سے جواب دیا، ” بادشاہ سلامت میں اگر اصلی ہیرے نہ پہچان سکا تو میں آپ کی سزا کے لیے خوشی سے تیار ہوں۔ یہ میرا انتخاب ہو گا، آپ سے کوئی شکوہ کیوں کروں گا۔”

بادشاہ نے اندھے کو ہیرے پہچاننے کی اجازت دے دی۔ وہ اندھا ہیروں کا تھیلا لے کر ایک کمرے میں چلا گیا۔ اور کچھ دیر کے بعد آکر بولا کہ اس نے اصلی اور نقلی ہیرے الگ کر لیے ہیں۔ بادشاہ نے وزیر کو اشارہ کیا۔

وزیر نے اچھی طرح ہیروں کا معائنہ کیا اور بادشاہ سے بولا ” عالی جاہ! حیرت کا مقام ہے، ایک اندھا نقلی ہیروں کو اصلی ہیروں سے الگ کرنے میں واقعی کام یاب ہو گیا ہے۔”

بادشاہ یہ جان کر دنگ رہ گیا۔ اس نے بے چینی سے اندھے سے پوچھا، تم نابینا ہو اس کے باوجود اصلی اور نقلی ہیروں کو پہچان لیا، ہمیں‌ یہ راز بتاؤ؟ اندھا بولا ” یہ کام بہت آسان تھا جناب۔ میں نے سارے ہیرے آگ کے قریب رکھ دیے، جو ہیرے اصلی تھے ان کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ آگ کی حدّت سے گرم نہیں ہوئے تھے اور جو نقلی تھے وہ تپنے لگے، میں ان کو الگ کرتا گیا۔”

بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اندھے کو بہت سا انعام دیا اور جب وہ بوڑھا رخصت ہونے لگا تو بادشاہ سے بولا کہ میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے اسے بخوشی اجازت دے دی۔ وہ بولا، حضور دنیا میں محنتی اور بہترین اوصاف کے مالک انسان کی پہچان بھی اسی طرح کی جاسکتی ہے کہ جو محنتی اور اعلیٰ ظرف ہوتا ہے وہ ان ہیروں جیسا ہی ہے کہ جب دنیا کی مشکلات اور تلخیاں اس پر پڑتی ہیں‌ تو وہ ان کو سہہ لیتا ہے اور دل شکنی کرنے والوں اور ان کے طنز اور طعنوں کے مقابلے میں اپنے اوصافِ‌ حمیدہ کو مٹی میں‌ نہیں ملا دیتا اور اخلاق سے نہیں گرتا بلکہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے شخص کی مثال اصلی ہیرے جیسی ہوتی ہے۔ مگر وہ جو ان تلخیوں پر اپنا توازن کھو بیٹھے، اور نچلی سطح تک گر جائے، وہ نقلی ہوتا ہے۔ یہ کہہ نابینا شخص دربار سے چلا جاتا ہے اور وہ تمام وزیر اور درباری شرمندہ ہو کر نظریں نیچی کر لیتے ہیں جو کچھ دیر پہلے اسے معذور اور ناتواں سمجھ کر طعنے دے رہے تھے۔

(ایک سبق آموز قدیم کہانی)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں