اتوار, مئی 19, 2024
اشتہار

"اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے!”

اشتہار

حیرت انگیز

عام آدمی کے لیے شاید یہ امر تعجب خیز ہو کہ فن کار یا اہلِ قلم کی اکثریت اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور تخلیقی کام پر بہت کم معاوضہ یا محنتانہ پاتے رہے ہیں۔ آج اگرچہ صورتِ‌ حال پہلے جیسی نہیں، لیکن خالص ادب تخلیق کرنے والوں کو چھوڑ کر اب آرٹسٹ یا کانٹینٹ رائٹر کو باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے، ؒمگر یہ سلسلہ بھی بڑے اور مشہور ناموں تک محدود ہے۔

ادیب و شعراء کو کل بھی اکثر ادارے، مدیر اور ناشر وغیرہ چھوٹے اور کم معروف ناموں کو طے کردہ معمولی رقم کی بروقت ادائیگی میں ‘ناکام’ ہوجاتے تھے اور آج بھی قلم کی مزدوری کرنے والا ‘مفت’ کام کیے جارہا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب آج کی طرح سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن چینل اور دوسرے ذرایع ابلاغ یا پلیٹ فارم نہیں‌ تھا جس پر کوئی فن کار یا ادیب و شاعر اپنے ساتھ ناانصافی کا شور مچاتا، جب کہ آج کوئی اوسط درجے کا فن کار بھی فیس بک پوسٹ یا ٹویٹ کر دے اور عوام میں بات پھیل جائے تو ادارہ یا کوئی فرد اپنی ساکھ بچانے کے لیے فوراً اس کا حق دے کر معاملہ ختم کرنا چاہے گا۔ یہاں ہم معروف ہندوستانی قلم کار دلیپ سنگھ کی ایک تحریر سے اقتباسات پیش کررہے ہیں جس میں طنز و مزاح کے پیرائے اسی حقیقت کو عیاں کیا گیا ہے۔

- Advertisement -

دلیپ سنگھ کی پیدائش 1932ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے اور تقسیم کے بعد ہندوستان میں سکونت اختیار کی۔ دلیپ سنگھ بھارت میں‌ وزارتِ خارجہ سے منسلک رہے اور ساتھ ہی علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ وہ 8 اگست 1994 کو نئی دہلی میں وفات پاگئے تھے۔

دلیپ سنگھ کی کتاب "سارے جہاں کا درد” کے دیباچہ سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

"1954 میں جب میرا پہلا طنزیہ مضمون اردو کے ایک مؤقر رسالہ میں شائع ہوا تو میں دس دن کے بعد معاوضہ لینے کے لیے رسالہ کے دفتر میں پہنچ گیا۔ دفتر میں اس وقت چھ سات آدمی موجود تھے۔ جوں ہی میں نے معاوضہ کا ذکر کیا، دفتر میں موجود لوگوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا، اتنا زوردار کہ مجھے احساس ہوا کہ قہقہہ چھ سات آدمیوں کا نہیں، ساٹھ ستّر آدمیوں کا ہے۔ ان لوگوں کی ہنسی رکی تو مدیر محترم نے مجھے بتایا کہ اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے۔”

"مجھے یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ رواجوں کے اس دیس میں یہ رواج رائج ہونے سے کیسے رہ گیا؟ وضاحت کرتے ہوئے مدیر صاحب نے فرمایا کہ جب مدیر ہی کو تنخواہ نہیں ملتی تو مضمون نگاروں کو معاوضہ کس بات کا؟ جب میں نے نہایت سادگی سے پوچھا کہ لوگ پھر لکھتے کیوں ہیں؟
تو کہنے لگے کہ شہرت کی خاطر۔”

"یوں تو مجھے شہرت حاصل کرنے سے کوئی عذر نہیں تھا لیکن اس سے زیادہ مجھے ان دنوں پیٹ بھرنے کے لیے روٹی کی ضرورت تھی۔ پھر بھی سوچا کہ چلو شہرت تو حاصل کرو، ہو سکتا ہے جب بہت مشہور ہو جاؤں تو لوگ روٹی بھی کھلانے لگیں۔”

"میں یہ سوچ کر اس رسالہ کے دفتر سے نیچے اترا کہ شاید مجھے دیکھتے ہی قارئین کرام آنکھوں پر بٹھا لیں گے۔ رسالہ جس میں میرا مضمون چھپا تھا، میری بغل میں تھا۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا تو آنکھوں پر بٹھانا تو درکنار مجھے کوئی اپنی رکشا میں مفت بٹھانے کو تیار نہ ہوا۔ میں نے کہا بھی کہ میں ادیب ہوں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ سیکڑوں ادیب اس بازار میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ چنانچہ میں جوتیاں چٹخاتا گھر کی طرف چل دیا۔”

"بعد میں، میں نے غور و خوض کی تو پتا چلا کہ اردو کے رسائل کے پڑھے جانے کا عالم یہ ہے کہ اکثر انہیں وہی حضرات پڑھتے ہیں جو ان میں لکھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اپنا مضمون پڑھنے کے بعد رسالہ سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زیادہ ورق گردانی کرنے سے رسالے کے خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے اور ایسی حالت میں یہ بوقتِ ضرورت کام نہیں آ سکے گا اور سند نہیں بن سکے گا۔”

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں