25 C
Boydton
پیر, مئی 27, 2024
اشتہار

ڈبلیو زیڈ احمد:‌ ایک بھولا بسرا فلم ساز اور باکمال ہدایت

اشتہار

حیرت انگیز

آج فلم سازی کی تکنیک اور بڑے پردے پر پیش کرنے کا طریقہ ہی نہیں، موضوعات اور کہانیاں بھی زمانے کے ساتھ فلم بینوں کے بدلتے ہوئے رجحانات کے سبب تبدیل ہوچکے ہیں، لیکن پاکستان میں‌ آج سے چند دہائیوں قبل بھی رومانوی کہانیاں، مار دھاڑ سے بھرپور مناظر پر مشتمل فلمیں دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں‌ شائقین سنیما کا رخ کرتے تھے۔ ڈبلیو زیڈ احمد اسی دور میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار مشہور ہوئے اور اپنے کمالِ فن اور اپنے کام میں‌ انفرادیت کی بدولت بڑا نام پایا۔

آج پاکستان میں نئی نسل ڈبلیو زیڈ احمد سے واقف نہیں، لیکن ستّر سال سے زائد عمر کے وہ لوگ جو سنیما کے دیوانے رہے ہیں، ان کے ذہن میں شاید یہ نام کہیں محفوظ ہو۔ خاص طور پر جنھوں نے فلم ’وعدہ‘ دیکھی ہو وہ ڈبلیو زیڈ احمد کو جانتے ہوں گے۔ یہ فلم 1956ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اسے ایک عام رومانوی فلم کہا جاسکتا ہے جس میں ہیرو زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر کام یابیاں سمیٹتا ہے اور جب وہ اپنی محبوب کو اپنانے کے قابل ہوتا ہے تو ایک المیہ ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بہم نہیں‌ ہو پاتے۔ اس فلم نے ڈبلیو زیڈ احمد کے کمالِ فن کی بدولت کام یابی سمیٹی تھی۔

فلم سازی اور ہدایت کاری کو اپنے لیے چیلنج سمجھنے والے ڈبلیو زیڈ احمد 15 اپریل 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ طویل عرصہ علیل رہے۔ ان کا اصل نام وحید الدّین ضیا تھا اور اسی مناسبت سے انھیں ڈبلیو زیڈ احمد لکھا جانے لگا۔ یہی مختصر نام فلم نگری اور فلمی صحافت میں‌ ان کی شناخت بنا۔ آخری برسوں میں ان کی یادداشت صحیح طرح‌ کام نہیں کررہی تھی اور کچھ عرصے سے وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے۔

- Advertisement -

ڈبلیو زیڈ احمد کا وطن گودھرا تھا جہاں 20 دسمبر 1915ء کو انھوں نے آنکھ کھولی۔ ان کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں وسطی اور جنوبی ہند کے مختلف اضلاع میں قیام پذیر رہے۔ وحید الدّین ضیا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی۔ 1936ء میں نوجوان ڈبلیو زیڈ احمد نے فلم نگری میں قسمت آزمانے کا آغاز کیا اور ابتدا 1939 میں کی۔ انھوں نے پہلی مرتبہ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کام کیا، تاہم انھوں نے دیکھا کہ ان کے لکھے کو فلمانے میں‌ بہت عجلت کی گئی ہے، اور شاید یہ ایک مشکل کام بھی ہے، تب انھوں نے ایک مختلف قدم اٹھایا اور اگلے تین سال کے اندر پونا اور مدراس میں اپنے اسٹوڈیو تعمیر کر کے فلم سازی میں مشغول ہوگئے۔

ڈبلیو زیڈ احمد نے شالیمار اسٹوڈیوز کے نام سے فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے تحت پہلی فلم ‘ایک رات’ بنائی جو کام یاب رہی۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ وہ اس فلم کے ہدایت کار بھی تھے۔ اس فلم میں مرکزی کردار موجودہ ہندی سنیما کی مشہور فلم ایکٹریس کرشمہ کپور اور کرینا کپور کے پَر دادا، رشی کپور کے دادا اور راج کپور کے والد پرتھوی راج نے ادا کیا تھا۔ اگلے ہی برس اُن کی فلم پریم سنگیت منظرِ عام پر آئی جس کے ہیرو جے۔ راج تھے۔ اس کے بعد انھوں نے فلم من کی جیت، غلامی نامی فلمیں بنائیں۔ من کی جیت وہ فلم تھی جس کے لیے برصغیر کے نام ور شاعر جوش ملیح آبادی نے پہلی مرتبہ نغمات تحریر کیے تھے اور یہ تمام فلمی نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ ناقدین کے مطابق ڈبلیو زیڈ احمد کو پہلی بڑی کام یابی 1944ء میں اُن کی فلم ’من کی جیت‘ پر ہی نصیب ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی ٹامس ہارڈی کے معروف ناول ’TESS‘ پر مبنی تھی۔ اس میں ہیرو شیام کے مقابل راج کماری اور نِینا نے کام کیا تھا۔ بعد میں ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے نینا سے دوسری شادی بھی کی تھی۔ اُن کی پہلی شادی سر ہدایت اللہ کی صاحبزادی صفیہ سے ہوئی تھی۔

فلم من کی جیت کا ایک گانا بہت مقبول ہوا تھا اور ہندوستان بھر میں کئی برس بعد بھی لوگ اسے گنگناتے تھے جس کے بول تھے: اک دِل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گِرا کوئی وہاں گِرا…

قیامِ پاکستان کے بعد ڈبلیو زیڈ احمد ہجرت کر کے لاہور آگئے اور یہاں اپنے نام سے اسٹوڈیو قائم کرلیا، بعد ازاں فلم کوآپریٹو لمیٹڈ کے نام سے ایک فلم ساز ادارہ بھی بنایا۔ پاکستان میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کی پہلی فلم روحی تھی جو سنسر بورڈ کے اعتراضات کی نذر ہوگئی تھی۔ وعدہ، وہ فلم تھی جس نے زبردست کام یابیاں سمیٹیں اور اسے فلم انڈسٹری کی بہترین اور یادگار فلموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔

تقسیمِ ہند سے قبل ان کی آخری فلم ’میرا بائی‘ تھی جو 1947 میں ریلیز ہوئی۔ پاکستان آنے کے بعد وہ صرف دو ہی فلمیں بناسکے تھے، لیکن یہ دونوں پاکستان کی فلمی تاریخ میں یادگار اور نمایاں ہیں۔ ایک فلم وعدہ کا ذکر اوپر ہوچکا ہے جب کہ دوسری فلم ’روحی‘ تھی۔ یہ 1954 میں ریلیز ہوئی جس کے لیے ہدایات بھی ڈبلیو زیڈ احمد نے دی تھیں اور وہی کہانی کار اور منظر نویس بھی تھے۔

روحی کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں تاریخی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ سینسر بورڈ کے ہاتھوں بین ہونے والی پہلی پاکستانی فلم تھی۔ سنسر بورڈ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ فلم میں امیر اور غریب کا ایسا تصادم دکھایا گیا ہے جس سے طبقاتی سطح پر لوگوں‌ میں نفرت پیدا ہوسکتی ہے۔ڈبلیو زیڈ احمد کی اس فلم کو معمولی کاٹ چھانٹ کے بعد سینسر بورڈ سے ریلیز کرنے کی اجازت تو مل گئی اور یہ عام نمائش کے لیے پیش بھی کی گئی، لیکن یہ ایک کوآپریٹیو سوسائٹی کے تحت پروڈیوس کردہ فلم تھی۔ اس فلم کی ریلیز کے چند دنوں بعد کوآپریٹیو بینک نے اپنا قرضہ وصول کرنے کے لیے چھاپا مارا اور فلم کا پرنٹ اٹھا کر لے گئے۔ یوں فلم روحی کے پرنٹ کو کہیں‌ ڈبّوں میں ڈال دیا گیا اور اس کا نیگٹو بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس فلم میں اداکار شمّی، سنتوش، ساحرہ، غلام محمد نے کام کیا تھا۔

فلم ساز ڈبلیو زیڈ احمد لاہور میں بیدیاں روڈ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں