20.8 C
Dublin
اتوار, مئی 19, 2024
اشتہار

ڈاکٹر وزیر آغا: ایک نظریہ ساز تخلیق کار

اشتہار

حیرت انگیز

ڈاکٹر وزیر آغا کا اردو ادب میں تنقید کے میدان میں نفسیاتی مباحث اور انشائیہ نگاری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ اصنافِ ادب کو نیا آہنگ دیا۔ 7 ستمبر 2010ء کو ڈاکٹر وزیر آغا وفات پا گئے تھے۔

سینئر صحافی، براڈ کاسٹر اور محقق عارف وقار وزیر آغا کی وفات پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں، اُردو کے بزرگ قلم کار مولانا صلاح الدین احمد جو اپنے ادبی پرچے کے ذریعے ہندوستان بھر کے نوجوان ادیبوں کی تربیت کر رہے تھے اور کرشن چند، راجندر سنگھ بیدی، کنہیا لال کپور جیسے نثر نگاروں کے ساتھ ساتھ ن م راشد، فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے شعرا کو بھی منظرِ عام پر لا چکے تھے، اُن کی نگاہِ جوہر شناس جب وزیر آغا پر پڑی تو فوراً انھیں اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ اقتصادیات، نفسیات اور فلسفے کے جو مضامین کبھی اُردو میں زیرِ بحث نہیں آئے تھے، ان کے لیے اپنے پرچے کے صفحات کھول دیے۔

وزیر آغا نے مسرت کی نوعیت، مسرت کی اقسام اور حصولِ مسرت کے ذرائع پر جو کچھ لکھا مولانا نے اپنے تعارفی نوٹ کے ساتھ اسے ایک کتابی شکل میں شائع بھی کرایا اور یوں نوجوان وزیر آغا کی کتاب "مسرت کی تلاش” منظرِ عام پر آئی۔ لیکن جلد ہی معلوم ہوگیا کہ یہ تو نوجوان قلم کار کی جولانیِ طبع کا صرف ایک پہلو تھا۔ اُن کا اصل جوہر اُردو شاعری کے اُن تجزیاتی مضامین میں کھلا جو "ایک مثال” کے عنوان سے ماہنامہ ادبی دنیا میں سلسلہ وار شائع ہوئے۔ 1960 میں مولانا صلاح الدین احمد نے انھیں اپنے جریدے کی مجلسِ ادارت میں شامل کر لیا اور وہ تین برس تک ساتھی مدیر کے طور پر کام کرتے رہے۔

- Advertisement -

عارف وقار اسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں: سن پچاس کے عشرے میں انھوں نے مسرت کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے دنیا بھر کے مزاحیہ ادب کا مطالعہ بھی کیا اور انھی دنوں اُن کا تحقیقی کارنامہ اردو ادب میں طنز و مزاح سامنے آیا جسے 1956 میں پنجاب یونیورسٹی نے ایک اوریجنل تحقیقی کام قرار دیتے ہوئے وزیر آغا کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری پیش کی۔

اُردو ادب کی تاریخ میں ڈاکٹر وزیر آغا کا نام دو حیثیتوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ایک تو انھوں نے اردو ادب میں انشائیے کی صنف کو فروغ دینے کے لیے ایک تحریک کی سطح پر کام کیا اور دوسرے انھوں نے اُردو تنقید کو جدید نفسیاتی مباحث سے روشناس کرایا۔

اوراق ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک ادبی رسالہ تھا جسے اردو دنیا میں بہت اہمیت دی گئی۔ اس سے متعلق عارف وقار لکھتے ہیں: انشائیے کی ترویج میں اُن کے ادبی رسالے اوراق نے انتہائی اہم خدمات سر انجام دیں۔ وزیر آغا نہ صرف خود انشائیہ لکھتے تھے بلکہ نوجوان ادیبوں کو اس کی ترغیب بھی دیتے تھے اور اُن کے معیاری انشائیے اپنے رسالے میں باقاعدگی سے شائع کرتے تھے۔ بہت سے ادیبوں کو یہ شکوہ رہا کہ وزیر آغا نے ان کی تحریر کو بطور انشائیہ قبول نہیں کیا بلکہ مزاحیہ مضمون کا عنوان دے کر شائع کیا۔

اس سلسلے میں وزیر آغا کا موقف انتہائی واضح تھا۔ وہ ہر ہلکی پھلکی یا مزاحیہ تحریر کو انشائیہ قرار دینے پر تیار نہ تھے کیوں کہ اُن کے بقول انشائیے میں ایک خاص طرح کی” ذہانت کی چمک” ہونا ضروری تھا۔

وزیر آغا کا تعلق سرگودھا کے علمی اور ادبی گھرانے سے تھا جہاں وہ 18 مئی 1922ء کو پیدا ہوئے۔ فارسی کی تعلیم والد سے اور پنجابی زبان اپنی والدہ سے سیکھی۔ وزیر آغا نے گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ 1956ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی سند لی اور ادبی صحافت کے ساتھ تحقیقی اور تخلیقی کاموں‌ میں مشغول رہے۔

تین برس تک مشہور جریدے ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر کے طور پر کام کیا اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کی بنیاد رکھی۔

اردو ادب میں انشائیہ نگاری کو خاص اہمیت اور مقام دیا جاتا ہے اور یہ صنف بلندیٔ خیال، نکتہ آفرینی، اسلوب اور معیار کا تقاضا کرتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اس صنف کو خوب سنوارا اور لاجواب انشائیے تحریر کیے۔ انھوں نے انشائیے کی تعریف اور اس کے خدوخال پر بات کی۔ ان کے انشائیے اردو ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اردو میں مغربی انشائیوں کے خطوط پر انشائیہ کو استوار کرنے کی کوششیں اس وقت پر منظرِ عام پر آئیں جب ڈاکٹر وزیر آغا نے ماہنامہ اوراق کے ذریعے انشائیوں کے فروغ کا خصوصی اہتمام کیا نیز مضامین اور انشائیہ لکھ کر اسے طنزیہ اور مزاحیہ مضمون سے الگ ایک صنف کے طور پر متعارف کروایا۔ 1950 سے 1960 کے درمیان وزیر آغا نے مغربی انشائیہ نگاروں کی تحریروں کو پیشِ نظر رکھ کر نہ صرف انشائیے تحریر کیے بلکہ اسے ایک ادبی تحریک کی شکل دی۔

انشائیہ کی تعریف وزیر آغا اس طرح بیان کرتے ہیں: ’انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کر تے ہوئے اشیاء و مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور پر گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔‘

مشتاق احمد یوسفی نے ڈاکٹر وزیر آغا کے فنِ انشائیہ نگاری پر لکھا ہے: ” وزیر آغا کا انشائیہ ان کی رنگا رنگ شخصیت کا عکسِ جمیل ہے۔ ان کی طبیعت میں جو دل آویزی، نرمی، رچاؤ اور شائستگی ہے۔ زمین کے رشتوں کو انہوں نے جس طرح چاہا اور نبھایا ہے وہ ایک ایک سطر سے جھلکتا ہے۔“

ڈاکٹر وزیر آغا نے تنقید اور تحقیقی مضامین کی صورت میں اردو ادب کو کئی قابلِ ذکر اور یادگار کتب دیں جن میں تنقیدی مضامین نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے شامل ہیں۔ دیگر کتابوں میں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستانِ محبّت، غالب کا ذوقِ تماشا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے شاعری بھی کی اور ان کے متعدد شعری مجموعے شایع ہوئے۔ شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نرد بان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی ان کے چند شعری مجموعوں کے نام ہیں۔

اردو کے ممتاز نقّاد، انشائیہ نگار، شاعر اور محقّق ڈاکٹر وزیر آغا کو ضلع سرگودھا میں ان کے آبائی گاؤں وزیر کوٹ کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے ڈاکٹر صاحب کی ایک خودنوشت بھی شایع ہوچکی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں