امریکا نے سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کی وجہ بتا دی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ ویٹو نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس قرارداد میں ایسی چیزیں بھی ہیں جو ہمارے طویل مدتی موقف سے مطابقت رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی ہونی چاہیے یہ بھی کیا ہے ہم اسرائیلی حکومت کے موقف کو بھی سمجھتے ہیں۔
میتھیو ملر نے واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ یہ "حیران کن اور بدقسمتی” ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے اقوام متحدہ میں امریکہ کے ووٹ سے باز رہنے کے بعد اسرائیلی وفد اس ہفتے طے شدہ مذاکرات میں نہیں آ رہا ہے۔
ملر نے مزید کہا کہ رفح میں زمینی کارروائی جو کہ غزہ کی 2.3 ملین آبادی میں سے نصف کے لیے آخری پناہ گاہ ہے، بہت سے لوگوں کی دوسری جگہوں پر لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہونے کے بعد ایک غلطی ہوگی اور اسرائیل کی سلامتی کو کمزور کرے گی۔
سلامتی کونسل نے غزہ میں اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان فوری جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے جب کہ امریکا نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ قرارداد کو ویٹو کرنے میں امریکا کی ناکامی اپنے سابقہ موقف سے "واضح پسپائی” ہے اور اس سے حماس کے خلاف جنگی کوششوں کے ساتھ ساتھ 130 سے زائد مغویوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
ان کے دفتر نے یہ بھی کہا کہ نیتن یاہو امریکا کے نئے موقف کی روشنی میں اعلیٰ سطح کا وفد واشنگٹن نہیں بھیجیں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جنوبی غزہ میں رفح پر زمینی حملے کے لیے اسرائیلی منصوبوں پر بات کرنے کے لیے اسرائیلی حکام سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔