جمعرات, اپریل 24, 2025
اشتہار

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت

اشتہار

حیرت انگیز

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا خاندان شجرۂ طیبہ کا سب سے واضح نمونہ ہے۔ جانشین رسول حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام آپ کے والد گرامی اور حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ آپ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ حضرت خاتم الانبیا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امام حسین علیہ السلام کے نانا اور حضرت ابو طالب ان کے دادا ہیں۔ امام حسین علیہ السلام جمعرات تین شعبان سنہ چار ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے اور نبوت و امامت کی درسگاہ میں برسوں تک تعلیم تربیت پاکر دس محرم سنہ اکسٹھ ہجری کو اپنے نانا کے دین کی حفاظت کرتے ہوئے کربلا میں بھوکے پیاسے شہید ہوئے۔

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا نام

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت کے بعد  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ تعالی کا پیغام ملتے ہی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے علی و فاطمہ (علیہما السلام) کیا آپ دونوں نے اپنے نو مولود کے لئے کوئی نام منتخب کیا ہے؟ حضرت علی ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اس امر میں آپ پر سبقت نہیں لیا کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: خداوند متعال فرماتا ہے کہ اس مبارک مولود کا نام حسین رکھیے۔

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے القابات

تاریخ اور روایات میں امام حسین علیہ السلام کے لیے متعدد القاب منقول ہیں جن میں رشيد، طَيب، وفي، زکي، سعيد اور سید بہت مشہور ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں "سَيدُ شَبابِ اَہلِ الجَنَّہ” (جوانان جنت کے سردار) کا لقب عنایت فرمایا

 سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت امام حسین سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے جس کا انھوں نے متعدد مواقع پر برملا اظہار بھی کیا۔ اس کی ایک مثال یہ حدیث شریف ہے: "حسینٌ مِنّی و انا من الحسین” (حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں)۔

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت

حضرت امام حسنؓ اور حاکم شام معاویہ بن ابوسفیان میں جو صلح ہوئی تھی اس کی ایک خاص اہم شرط یہ تھی کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی جانشین کے مقرر کرنے کا حق نہ ہو گا مگر سب شرطوں کو عملی طور سے پامال کرتے ہوئے معاویہ نے اس شرط کی بھی نہایت شدت کی ساتھ مخالفت کی اور اپنے بیٹے یزید کو اپنے بعد کے لئے نامزد کیا بلکہ اپنی زندگی ہی میں ممالک اسلامیہ کا دورہ کر کے بحیثیت آئندہ خلیفہ کے لئیے یزید کی بیعت حاصل کر لی- اس وقت حضرت امام حسین علیہ السّلام نے بیعت سے انکار فرما دیا- حاکم شام نے حضرت امام حسن علیہ السّلام کو موافق بنانے کی ہر طرح کوشش کی مگر ناکام ہوا۔

یزید نہ صرف اصولی طور پر اس کی خلافت ناجائز تھی بلکہ اپنے اخلاق , اوصاف اور کردار کے لحاظ سے اتنا پست تھا کہ تختِ سلطنت پر اس کا برقرار ہونا اسلامی شریعت کے لئے سخت خطرے کا باعث تھا۔

معاویہ کے مرنے کے بعد جب یزید تخت پر بیٹھا تو سب سے پہلی فکر اس کو یہی ہوئی کہ حضرت امام حسین علیہ السّلام سے بیعت حاصل کی جائے- اس نے اپنےگورنر کو جو مدینہ میں تھا معاویہ کی موت کی خبر کے ساتھ بیعت کے لئے بھی لکھا- ولید نے جو مدینہ کا گورنر تھا، امام حسین علیہ السّلام کو بلا کر یزید کا پیغام پہنچایا- آپ پہلے ہی  طے کر چکے تھے کہ یزید کی بیعت آپ کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہے- بیعت نہ کرنے کی صورت میں جو نتائج ہوں گے انہیں بھی خوب جانتے تھے مگر دین خدا کی حفاظت اورشریعت اسلام کی خاطر آپ کو سب گوارا تھا- آپ ولید کو مناسب جواب دے کر اپنے مکان پر واپس آئے۔

سن 60 ہجری، رجب کا مہینہ، 28 تاریخ تھی- جب حضرت اپنے نانا کا جوار چھوڑ کر ظالموں کے جور و ستم سے سفر غربت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔

مکہ معظمہ, عرب کے بین الاقوامی قانون اور پھر اسلامی تعلیمات کی رو سے جائے پناہ اور امن و امان کی جگہ تھی، آپ نے مکہ میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے قیام فرمایا- آپ کے ساتھ آپ کی قریبی اعزہ تھیں جن میں خاندانِ رسول کی محترم بیبیاں اور کمسن بچیاں بھی تھیں- آپ اپنی طرف سے کسی خونریزی اور جنگ کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔
حج کا زمانہ بھی قریب تھا اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی دلی تمنا تھی کہ اس سال خانہ کعبہ کا حج ضرور فرمائیں لیکن اس وقت مکہ میں موجود ہونے پر بھی حج کرنے سے محروم ہو گئے، ظالم حکومت شام کی طرف سی کچھ لوگ حاجیوں کے لباس میں بھیجے گئے کہ وہ جس حالت میں بھی موقع ملےحضرت امام حسین علیہ السّلام کو خانہ کعبہ میں ہی قتل کر ڈالیں- حضرت علیہ السّلام نہ چاہتے تھے کہ آپ کی وجہ سے مکہ کے اندر خونریزی ہو اور خانہ کعبہ کی حرمت برباد ہو
دو روز حج کو باقی تھے جب آپ تمام اہل و عیال اور اعزہ کے ساتھ مکہ معظمہ سے روانہ ہو گئے۔
آٹھ ذی الحجہ کوامام حسین ؓ مکہ معظمہ سے کوفہ کے ارادے سے روانہ ہوئے مگر یہی وہ وقت تھا جب کوفہ میں حالات تبدیل ہو چکے تھے- شروع میں تو کوفہ کے لوگوں نے حضرت مسلم علیہ السّلام کا خیر مقدم کیا اور 18ہزار آدمیوں نے بیعت کی مگر جب یزید کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے حاکمِ کوفہ نعمان ابن بشیر کو معزول کیا اور ابن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا- یہ شخص بڑا ہی ظالم اور تشدد پسند تھا- اس نے کوفہ میں آ کر بڑے سخت احکام نافذ کئے اور تمام اہل کوفہ پر خوف و دہشت طاری ہو گئی- سب نے جناب مسلم علیہ السّلام کا ساتھ چھوڑ دیا اور آخر تن تنہا ہزاروں کا مقابلہ کرنے کے بعد بڑی مظلومی اور بیکسی کے ساتھ 9 ذی الحجہ کو انہیں شہید کردیا گیا۔
حضرت امام حسین ؓ عراق کے راستے میں منزل زبالہ میں تھے، جب حضرت امام حسین ؓ  کو مسلم علیہ السّلام کی خبر شہادت ہوئی اس کا حضرت علیہ السّلام پر بڑا اثر پڑا مگر عزم و استقلال میں ذرہ برابر فرق نہ آیا- واپسی کا بھی کوئی موقع نہ تھا، سفر جاری رہا- یہاں تک کہ ذوحسم کی منزل میں ابن زیاد کی فوج میں سے ایک ہزار کا لشکر حر بن یزید ریاحی کی سرداری میں آپ کا راستہ روکنے کے لئے پہنچ گیا-
یہ دشمن کی فوج تھی مگر حضرت امام حسین ؓ نے ان کے ساتھ رحم و کرم کا وہ مظاہرہ فرمایا جو دنیائے انسانیت میں یادگار رہے گا- تمام فوج کو پیاسا دیکھ کر جتنا پانی ساتھ تھا- وہ سب پلا دیا اور ان بے آب راستوں میں اپنے اہل حرم اور بچوں کی پیاس کے لیے پانی کا کوئی ذخیرہ محفوظ نہ رکھا- اس کے باوجود بھی یزیدی فوج نے اپنےحاکم کی ہدایت کے مطابق آپ کے ساتھ تشدد اختیار کیا، آپ کو آگے بڑھنے یا واپس جانے سے روک دیا۔
اب 61 ھ کا پہلا مہینہ شروع ہو گیا تھا- دوسری محرم کو حضرت علیہ السلام کربلا کی زمین پر پہنچے اور یہیں اترنے پر مجبور ہوگئے- دوسرے دن سے یزید کا ٹڈی دل لشکر کربلا کے میدان میں آنا شروع ہو گیا اور تمام راستے بند کر دیئے گئے- امام حسین ؓ  کے ساتھ صرف 72جانباز تھے اور ادھر لاکھوں کا لشکر پہلے سات دن تک امن قائم رکھنے کے لئے کوشش ہوتی رہی- مگر نویں محرم کی سہ پہر کو صلح کے امکانات ختم ہوگئے- ابن زیاد کے اس خط سے جو شمر کے ہاتھ سعد کے پاس بھیجا گیا اس میں لکھا تھا

یا حسین علیہ السّلام غیر مشروط طور پر اطاعت قبو ل کریں یا ان سے جنگ کی جائے-

اس خط کے پہنچتے ہی یزیدی فوج نے حملہ کر دیا، باوجود یہ کہ ساتویں سے پانی بند ہو چکا تھا امام حسین علیہ السّلام کے سامنے ان کے اہل حرم اور چھوٹے بچوں کی بیتابی کے مناظر، العطش کی صدائیں اور مستقبل کے حالات، سب ہی کچھ تھا- مگر یزید کی بیعت اب بھی اسی طرح غیر ممکن تھی ،آپ نے یہ چاہا کہ ایک رات کی مہلت مل جائے- آپ چاہتے تھے کہ یہ پوری رات آخری طور پر عبادت خدا میں بسر کریں- اس کے علاوہ دوست و دشمن دونوں کو جنگ کا قطعی فیصلہ ہو جانے کے بعد اپنے اپنے طرز عمل پر غور کرنے کا موقع مل جائے- آپ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے تقریر بھی فرمائی

عاشورہ کی رات ختم ہوئی- دسویں محرم کو صبح سے عصر تک کی مدت میں ان بہادروں نے جو کچھ کہا تھا اسے کرکے دکھایا- اس وفاداری، استقلال اور بہادری کے ساتھ حضرت امام حسین ؓ کی نصرت میں دشمنوں سے مقابلہ کیا جو تاریخ میں یادگار رہے گا- ان میں حبیب ابن مظاہر، مسلم بن عوسجہ, سوید ابن عمرو, انس بن حارث اور عبدالرحمن ابن عبدالرب ایسے ساٹھ ستر اور اسی برس کے بوڑھے تھے اور متعدد اصحاب ُ رسول بھی تھے- – 

سب سے پہلی حضرت علیہ السّلام نے جوان بیٹے علی اکبر علیہ السّلام کو جو شبیہہ پیغمبر بھی تھے شہادت کے لیے بھیج دیا علی اکبر علیہ السّلام نے جہاد کر کے اپنی جان دین خدا پر نثار کی۔ امام حسین علیہ السلام کو شبیہ رسول کی جدائی کا صدمہ تو بہت ہوا مگر عمل کے راستے میں آپ کی ہمت حوصلے اور ولولے میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ عقیل کی اولاد عبداللہ ابن جعفر کے فرزند ایک ایک کر کے رخصت ہوئے- امام حسن علیہ السّلام کے یتیم قاسم علیہ السّلام کی جدائی آپ کو شاق ہوئی مگر اپنے بزرگ مرتبہ بھائی کی وصیت کو پورا کرتے ہوئے قاسم علیہ السّلام کو بھی رخصت کر دیا-
سب سے آخر میں فرزندان امیر المومنین علیہ السّلام میدان جہاد میں گئے ،جب کوئی نہ رہا تو علمدار علیہ السّلام کی باری آئی- قمر بنی ہاشم ابوالفضل العباس علیہ السّلام کو حضرت علیہ السّلام کسی طرح اجازت جہاد نہ دیتے تھےکیونکہ ان کے کاندھوں پر اسلام کا علم لہرا رہا تھا- مگر ایک طرف بچوں کو پیاس، دوسری طرف جوش جہاد، عباس علیہ السّلام پانی لینے کے لئے ایک مشک اپنے ساتھ لے کر فرات کی جانب متوجہ ہوئے- انہوں نے علم کی حفاظت بھی کی- دشمنوں سے مقابلہ کیا- فوج کو ہٹا کر نہر کا راستہ بھی صاف کیا اور مشک میں پانی بھی بھر لیا مگر افسوس کہ یہ پانی خیام حسینی تک پہنچ نہیں پایا تھا کہ بہادر عملدار علیہ السّلام کے شانے قلم ہوئے- مشک تیر سے چھدی اور پانی زمین پر بہا- عباس علیہ السّلام کی قوت ختم ہو گئی- گرز کے صدمے سے زمین کی طرف جھکے اور علم عباس علیہ السّلام کے ساتھ زمین پرآ گیا۔
امام حسین ؓ  کی کمر شکستہ ہوگئی، پشت جھک گئی مگر ہمت پھر بھی نہیں ٹوٹی- اب جہاد کے میدان میں امام حسین ؓ کے سوا کوئی نظر نہ آتا تھا مگر فہرست ُ شہدا میں ابھی ایک مجاہد کا نام باقی تھا جس کا جواب قربانی کی تاریخ میں نہ پہلے نظر آیا نہ بعد میں نظر آ سکتا ہے، یہ چھ مہینے کا بچہ علی اصغرؓ تھا جو گہوارہ میں پیاس سے جاں بلب تھا- امام حسین ؓ  در خیمہ پر تشریف لاے اور اس بچے کو طلب فرمایا بچہ کی عطش اور اس کی حالت کا مشاہدہ فرمایا- یقینایہ منظر ہر حساس انسان کو متاثر کرنے کے لئے کافی تھا مگر کیسے بے رحم تھے وہ سخت دل فوج شام کے سپاہی جنہوں نے حسین علیہ السّلام کے ہاتھوں پر اس معصوم بچے کو دیکھ کر بجائے اس کے کہ رحم کھاتے اور بچے کو سیراب کرتے, ظلم اور شقاوت کو انتہائی حد تک پہنچا دیا- سخت دل حرملہ کا تیر اور بچے کا نازک گلا- امام حسین علیہ السّلام نے یہ آخری ہدیہ بھی بارگاہ الہی میں پیش کر دیا –

اب امام بہ نفس نفیس جہاد کے لئے تشریف لاے اور فوجوں کا رخ پھیر دیا- آپ نے میدان میں وہ بہادری اور جان نثاری کا مظاہرہ فرمایا کہ عرش الہی بھی عش عش کر اٹھا- آخر آپ نے بھی اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی اور تاریخ انسانی میں ایک ایسا باب رقم کر دیا جس کی مثال قیامت تک ملنا ممکن نہ ہو گی۔

امام حسین ؓ  اور عاشورا

تحریک عاشورا در حقیقت ایک عظیم انقلاب تھا کہ جس کا مقصد احکام دین کا احیاء اور مختلف دینی اور سیاسی انحرافات کا خاتمہ تھا۔

امام حسین ؓ  رجب المرجب سنہ ساٹھ ہجری کو مدینۂ منورہ سے مکۂ معظمہ کی جانب کوچ کر گئے اور تقریباً چار مہینے تک مکے میں ٹہرے اور جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ یزید کے افراد حاجیوں کے بھیس میں انھیں قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انھوں نے حج کو عمرے میں بدل کر کوفے کا ارادہ کیا۔ کسی نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: یزیدی لشکر کے بعض گماشتے حرم کی حدود میں مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور میں پسند نہیں کرتا کہ میرے قتل کی وجہ سے حرم امن کی بے حرمتی ہو۔

امام حسین ؓ  اور ان کے ساتھیوں کے خون نے قیامت تک کے لیے اسلام کو ہر طرح کی سازش اور فتنے سے محفوظ کر دیا۔

دس محرم سنہ اکسٹھ ہجری میں امام حسین ؓ نے کربلا میں چھپن سال پانچ ماہ اور چھے دن کی عمر میں جام شہادت نوش کیا اور اسی مقام پر دفن ہوئے ۔

دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں

اہم ترین

مزید خبریں