اتوار, نومبر 3, 2024
اشتہار

قتیل شفائی:‌ بے مثال غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار

اشتہار

حیرت انگیز

قتیل شفائی کی ایک غزل کا شعر ہے

پھیلا ہے ترا کرب قتیلؔ آدھی صدی پر
حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے

قتیل شفائی بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے۔ ندرتِ خیال، رچاؤ اور غنائیت ان کے شعری اوصاف ہیں۔ غزل گوئی کے ساتھ قتیل شفائی نے بطور گیت نگار اپنے فن و تخلیقی صلاحیتوں کو بلاشبہ اس طرح منوایا کہ ان کے لکھے ہوئے نغمات سدا بہار اور لافانی ثابت ہوئے۔ آج بھی ان کے فلمی گیت بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ قتیل شفائی کی شاعری میں جمالیاتی طرزِ احساس جس بھرپور توانائی اور تنوع کے ساتھ نظر آتا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

- Advertisement -

اردو ادب میں قتیل شفائی ایک ایسے مشہور شاعر اور کئی مقبول نغمات کے خالق ہیں جن کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ قتیل شفائی کا فلمی سفر نصف صدی پر محیط تھا۔

ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تعلق رکھنے والے قتیل شفائی 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ کم سنی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘ ان کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا جب کہ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا اور اسی سے شہرت پائی۔

قتیل شفائی نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں متعدد بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت نگاری کی۔ ان کے تحریر کردہ متعدد مقبول فلمی گیتوں میں ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو…‘ شامل ہیں۔ قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے اپنے لگاؤ کے سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ان کے شعری مجموعے ’’ہریالی، گجر، جلترنگ، جھومر، مطربہ، چھتنار، گفتگو، پیراہن اور آموختہ کے نام سے شایع ہوئے۔ ’’مطربہ ‘‘ وہ شعری مجموعہ تھا جس پر قتیل شفائی کو آدم جی ادبی ایوراڈ دیا گیا۔

قتیل شفائی نے پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ کے گیت لکھے اور یہی فلمی دنیا میں ان کی اوّلین کاوش تھی۔ ان کے مقبولِ عام گیتوں میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔ پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے ان کے نغمات کو سرحد پار بھی مقبولیت ملی اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی فلموں‌ کے لیے بھی ان سے گیت لکھوائے گئے۔

پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے بطور گیت نگار عمدہ تخلیقات پر قتیل شفائی کو متعدد خصوصی اعزازات دیے گئے اور 1994ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

شاعر و نغمہ نگار قتیل شفائی نے ایک آپ بیتی بھی یادگار چھوڑی، وہ اس میں‌ اپنا ماحول اور ابتدائی حالات کچھ اس طرح بتاتے ہیں، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ خاندان کے اور گھریلو مشورے سے انہیں مجبوراً دوسری شادی کرنا پڑی۔ قتیل شفائی کے ہاں دوسری بیوی سے بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے جن میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں(والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

11 جولائی 2001ء میں قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے۔ انھیں علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

ان کی غزل کا ایک مشہور شعر دیکھیے:

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

قتیل شفائی کی یہ غزل بھی بہت مقبول ہوئی، ملاحظہ کیجیے:

گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں

خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں

ربطِ باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں