جمعہ, نومبر 15, 2024
اشتہار

ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

اشتہار

حیرت انگیز

وہاں سیکڑوں پنچھی تھے، جو  ٹیلے کی سمت کھنچے چلے آئے تھے کہ اُنھیں خبر ملی تھی کہ وہ فسوں گر  ادھر  موجود ہے۔ فسوں گر، جس کی بانسری کی دھن نے انھیں گرویدہ بنا لیا ہے.

وہ شخص ادھر موجود ہے، جس کے الفاظ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ ہیں، جس کی کہانیاں ان کی رگوں میں دوڑتی ہیں۔

تو وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کی سمت آتے تھے، جہاں گیارہویں عالمی اردو کانفرنس جاری تھی۔

- Advertisement -

[bs-quote quote=”فکشن بے یقینی کو معلق کرنے کا نام ہے، آپ کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے، مگر اس کی طاقت اسے معلق کر دیتی ہے، یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آپ بھٹکنے کو تیار ہوں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

یہ مستنصر حسین تارڑ کا ذکر ہے۔ تارڑ، جو ایک امکان کا نام ہے۔ امکان کہ ادیب کو بھی عالم گیر محبت مل سکتی ہے،امکان کہ اب بھی الفاظ جاود جگا سکتے ہیں،  امکان کہ لکھاری کو بھی دیوانہ وار چاہا جاسکتا ہے۔

لازوال ادیب گیبرئیل گارسیا مارکیز نے اساطیری شہرت کے حامل چے گویرا سے متعلق کہا تھا،’’میں اس کے بارے میں سیکڑوں برس تک لاکھوں صفحات لکھ سکتا ہوں۔‘‘ البتہ تارڑ صاحب سے متعلق ایسا کوئی بھی دعویٰ مناسب نہیں کہ ہمیں سیکڑوں برس میسر نہیں۔ البتہ اس بے بدل ادیب کے اس خصوصی انٹرویو سے قبل، جو ان کے تازہ ناول ’’منطق الطیر، جدید‘‘ کے گرد گھومتا ہے، تعارف ضروری ہے، چاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو۔

وہ، جو جھنڈے کی طرح ممتاز ہے


تارڑ صاحب آپ اپنا تعارف ہیں۔ 1939 لاہور میں آنکھ کھولی۔ گجرات کے ایک کاشت کار گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ اس قلم کار نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جو اِن سے پہلے گزرے، اُن میں سے بیش تر کی یاد ذہن سے محو ہوئی، اورجو بعد میں آئے، اُن میں سے اکثر کے سر احتراماً جھک گئے۔

آپ کی کئی جہتیں ہیں۔ سفرنامہ نویس، فکشن نگار، اداکار، اسکرپٹ رائٹر، ٹی وی میزبان، اور ہر شعبے میں اپنی مثال آپ۔ کہا جاسکتا ہے کہ تارڑ صاحب نے جس شے کو ہاتھ لگایا، اسے سونا بنا دیا۔

چار سو ڈراموں میں لیڈ، مقبول ترین مارننگ شو کی میزبانی، مگر شوبز کی کہانی کے لیے ایک الگ نشست درکار، سو اپنی توجہ ادب پر مرکوز رکھتے ہیں۔

ستر سے زاید کتب آپ کے قلم نکلیں، جو اپنے میدان میں مقبول ترین ٹھہریں۔ ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ نے اردو سفر نامے میں نئی جہت متعارف کروائی، ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ اردو ناول کی صنف میں بیسٹ سیلر ٹھہرا، اور ناول ”بہاﺅ “ نے اردو فکشن کو اوج پرپہنچا دیا، جسے پڑھ کر ایک ہندوستانی نقاد پروفیسر خالد اشرف نے کہا تھا:’’اردو کا مستقبل اب لاہور سے وابستہ ہے، جہاں تارڑ رہتا ہے۔‘‘ ادبی جریدے ”ذہن جدید“ کے سروے میں یہ اردو کے دس بہترین ناولز کا حصہ بنا، اور بی بی سی نے اس کا موازنہ مارکیز کے ”تنہائی کے سو سال“ سے کیا۔

[bs-quote quote=”’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل کام تھا۔ ’’بہاؤ ‘‘کے بعد اگر کسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا، تو  اسی پر کیا” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

ان کے ایک اہم ناول ’’اے غزال شب‘‘ کا ”لینن فور سیل“ کے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ ہوا، جو عالمی ادب کے قارئین کویہ خبر پہنچتا ہے کہ اردو فکشن کا بہاﺅ اورگہرائی کیا ہے۔ حساس موضوعات کو منظر کرتے ناول ”راکھ“ نے 1999 میں وزیراعظم ادبی ایوارڈ اپنے نام کیا۔ اسے ایک جرمن ریسرچ نے برصغیر کا نمایندہ ناول قرار دیا۔

ان کی کتب گذشتہ تیس برس سے شعبہ اردو، ماسکو یونیورسٹی میں پڑھائی جارہی ہیں، جہاں کے طلبا یہ کہتے ہیں کہ وہ اردو ادب کو فیض اور تارڑ کی وجہ سے جانتے ہیں۔

تارڑ صاحب کو دوحہ قطر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا،انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی پیش کیا گیا، ستارہ امتیاز پیش ہوا، مگر اصل اعزاز وہ عالم گیر محبت ہے، جو ان کے حصے میں آئی۔

سوال و جواب کی دنیا


سوال: فرید الدین عطار نے صدیوں، نسلوں کو گرویدہ بنایا، مولانا روم بھی ان سے متاثر تھے، آپ بھی انھیں مرشد کہتے ہیں، ایسے تخلیق کار کی تخلیق کردہ کائنات سے مماثل یا مشابہہ کائنات تخلیق کرنا کتنا بڑا چیلینج تھا؟

تارڑ: فکشن نگار بنیادی طور پر اس خواہش میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ  بھی چھوٹا سا تخلیق کار بن جائے، تاکہ وہ اپنے تخلیق کار (خدا) کو بتا سکے کہ وہ بھی کسی حد تک قادر ہے۔ فرید الدین عطار کا کلاسیک منطق الطیر گذشتہ پچاس برس سے میرے مطالعے ہے، میری بیش تر کتابوں میں اس کے پرندوں کا تذکرہ آتا ہے، میرے ناول ’’خس و خاشاک‘‘ کا ایک کردار دریا کے کنارے بیٹھا ہوا ہے، اور اچانک پرندہ بن کر اڑ جاتا ہے، میری کتابوں ’’فاختہ‘‘ اور ’’پکھیرو‘‘ میں بھی پرندے ہیں۔

[bs-quote quote=”جو محدود ذہن رکھتے ہیں، وہ عام طور کتابیں پڑھتے  ہی نہیں ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

اب سوال یہ ہے کہ یہ پرندے کیوں مجھے اپنی جانب کھینچتے ہیں؟ جیسے میں نے اردو کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم بھی عطار کی طرح سچ کے تلاش میں ہیں، سچ ملے نہ ملے، یہ الگ بات ہے، تو میرا ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ فرید الدین عطار کو ٹریبوٹ ہے، ساتھ یہ کہنے کی بھی ہے کہ ہم جو آپ سے متاثر ہوئے ہیں، ہم بھی ایک چھوٹے سے تخلیق کار ہیں، آپ ہی نقش قدم پر چل کر اپنے پرندوں کے ساتھ اپنے سچ کی جستجو میں ہیں۔

سوال: آپ کی کتابوں میں پرندے تو ابتدا سے ساتھ ہیں، لیکن یہ فیصلہ کب ہوا کہ انھیں ناول کی شکل دی جائے، کیا اس کے لیے ٹلہ جوگیاں کا سفر کیا گیا؟

تارڑ: دراصل پچاس برس میں ہر شے بدل جاتی ہے، معاشرتی اور اخلاقی اقدار بدل جاتی ہیں، سوچ بدل جاتی ہے، فیشن تو بدل ہی جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں خدا حافظ کہا جاتا تھا، اب اللہ حافظ آگیا، اس وقت لڑکیاں اگر ’’یار‘‘ کا لفظ استعمال کریں، تو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا، اب یہ عام ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ اخلاق تباہ ہوا ہے، بلکہ  اقدار تبدیل ہوگئیں۔ تو اسی طرح سچ کا تصور بھی بدلا ہے۔ تو ہر فرد یہ جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے کہ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں جاؤں گا؟ یعنی ہر شخص کو ان ہی سوالوں کی جستجو ہوتی ہے۔ اگر وہ خوش قسمت ہو، تو ایک آدھ کا جواب مل جاتا ہے، اور نہیں بھی ملتا، تو وہ جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ تو یہ ایک ایسی ہی کاوش ہے۔

’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل کام تھا۔ ’’بہاؤ ‘‘کے بعد اگر کسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا، تو  اسی پر کیا۔ کسی نے کہا  کہ اس میں عام طرز کے برعکس واقعات نگاری نہیں۔ تو میں نے جواب دیا کہ یہ اسی لیے مشکل ہے کہ کوئی واقعہ نہیں، ایک مسلسل کیفیت، ایک مسلسل واقعہ ہے۔ میں نے ٹلہ جوگیاں سے متعلق مطالعہ کیا، ویڈیوز دیکھیں، البتہ کوشش کے باوجود وہاں جا نہیں سکا، تو اپنے تخیل میں ایک ٹلہ جوگیاں بنا لیا، مگر احتیاط کی کہ کوئی ایسی شے نہ ہو، جو متصادم ثابت ہو۔ بعد میں ایک دوست نے ٹلہ جوگیاں چلنے کے لیے کہا، مگر تب میں نے منع کر دیا کہ اب مناسب نہیں۔ پھر ضروری نہیں کہ تخلیق کار وہاں جائے، جس جگہ کو اس نے موضوع بنایا ہو۔

سوال: آپ نے ایک حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، ادیان اور عشق، مردوں کے نمائندہ پرندے، عورتوں کے نمائندہ پرندے، ان کا سنجوگ؟

تارڑ: مجھے اس میں فرید الدین عطار کی سپورٹ حاصل تھی۔ میں نے لکھتے ہوئے ان حوالوں، سہاروں کو پیش نظر رکھا، جیسے منصور حلاج، قرۃ العین طاہرہ۔ پھر اپنا نظریہ شامل کیا۔ پھر اس میں تاریخی حوالے بھی ہیں۔ خوش قسمتی سے، جو محدود ذہن رکھتے ہیں، وہ عام طور کتابیں پڑھتے  ہی نہیں ہیں۔

سوال: ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ آپ کے دیگر ناولز سے نہ صرف ضخیم ہے، بلکہ اس کا کینوس بھی وسیع ہے، ہندوستانی فکشن نگار مشرف عالم ذوقی نے اسے کلاسیکی ناول سے میلوں آگے کی چیز قرار دیا، البتہ توقعات کے برعکس وہ زیادہ زیربحث نہیں آیا؟

تارڑ: دراصل ضخیم ناول لوگ پڑھنے سے گھبراتے ہیں۔ جب جب میرے تین بہترین ناولز کا انتخاب کیا گیا، تو ہر شخص نے اپنی پسند کے مطابق چناؤ کیا۔ آج کل میرے ناول ’’ڈاکیا اور جولاہا‘‘ پر بات ہو رہی ہے، گو اسے چھپے ہوئے دس برس ہوگئے۔ تو ناول نظم یا غزل کی طرح دھماکا نہیں کرتا، وہ آہستہ آہستہ اپنی جگہ بناتا ہے، آہستہ آہستہ قارئین میں سرایت کرتا جاتا ہے۔ اگر سکت ہوتی ہے، تو باقی رہتا ہے، ورنہ نہیں رہتا۔

[bs-quote quote=”لٹریچر میں واضح منزل سے انحراف کے حیران کن نتائج برآمد ہوتے ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

سوال: ’’منطق الطیر جدید‘‘ کی تکنیک پر بات کرتے ہوئے ممتاز نقاد اور دانش ور شمیم حنفی نے اس ضمن میں ’’یولیسس‘‘ کا حوالہ دیا تھا؟

تارڑ: ہاں، اس میں جیمز جوائس کے یولیسس کی طرح کوئی باقاعدہ واقعہ نہیں ہے، اس تناظر میں کہہ سکتے ہیں۔

سوال: آپ کے لکھنے کا ڈھب کیا ہے؟ ٹائپ کرتے ہیں، ہاتھ سے لکھتے ہیں؟

جواب: نہیں میں ٹائپ نہیں کرتا، انگریزی میں جب کالم لکھتا تھا، تو ٹائپ رائٹر پر لکھتا تھا، ورنہ میز پر قلم کے ساتھ لکھتا ہوں، جب تک قلم سے نہیں لکھتا، بات نہیں بنتی۔ قلم سے بھی کچھ برآمد ہوتا ہے۔ ساڑھے سات بجے اسٹڈی میں چلا جاتا ہوں، ساڑھے دس گیارہ بجے تک وہاں رہتا ہوں۔

سوال: آپ نے اپنی فکشن نگار ی سے متعلق ایک بار کہا تھا کہ آپ سفر سے قبل منزل سامنے رکھتے ہیں، مگر پھر نامعلوم کی سمت چلے جاتے ہیں؟

جواب: کئی برس پہلے کی بات ہے، اسلام آباد کی ایک ادبی تقریب میں ممتاز مفتی میرے پاس آئے، اور کہا کہ ’’ٹی وی کی شہرت تمھیں کھا جائے گی، تم میں بڑا ادیب بنے کی صلاحیت ہے۔‘‘ میں نے کہا،’’مفتی صاحب، میں اس شہرت کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔‘‘ کہنے لگے،’’نہیں، ٹی وی چھوڑو، ورنہ میں تم سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ خیر، بعد میں انھوں نے خط لکھا اور  تسلیم کیا کہ ان کا اندازہ  غلط تھا۔

کچھ عرصے بعد پروفیسر رفیق اختر کے گھر ایک ملاقات ہوئی، وہاں ممتاز مفتی کے علاوہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ بھی موجود تھے۔ تو وہاں ممتاز مفتی نے اچانک کہا، ’’تارڑ، یہ جو تم لکھتے لکھتے اچانک نئی سمت چلے جاتے ہو، یہ تکنیک پروفیسر رفیق اختر سے مستعار لی؟‘‘ میں نے کہا کہ میں پروفیسر رفیق اختر کی قادر الکلامی اور تفسیر کا بڑا قائل ہوں، مگر یہ میرا اپنا طریقہ ہے۔

ابتدا میں لکھنے والا بڑا محتاط ہوتا ہے، مگر بعد میں وہ نامعلوم کی سمت، اندھیری گلی کی سمت بھی چلا جاتا ہے۔ جس زمانے میں میں یورپ میں hitchhiking کرتا تھا، تو یوں ہوتا کہ کہیں اور جانا ہے، مگر جس شخص سے لفٹ لی، وہ کسی اور قصبے کی سمت جارہا ہے، تو اس سمت چل دیے، کیوں کہ اس کا اپنا چارم اور رومانس ہوتا ہے، یہی چیز لٹریچر میں ہوتی ہے کہ آپ جس واضح منزل کی سمت جارہے ہیں، اسے انحراف کر کے اس سمت چلے جاتے ہیں، جس کی آپ کو خبر نہیں، اور اس سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ فکشن بے یقینی کو معلق کرنے کا نام ہے، آپ کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے، مگر اس کی طاقت اسے معلق کر دیتی ہے، یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آپ بھٹکنے کو تیار ہوں۔

سوال: ’’اے غزال شب‘‘ کے بعد ایک طویل وقفہ تھا، ناول کی سمت آپ بارہ برس بعد آئے، تو اب پھر ایک وقفہ ہے، یا کسی ناول پر کام کر رہے ہیں؟

تارڑ: ’’اے غزال شپ‘‘ کے بعد میرا نہیں خیال تھا کہ پھر فکشن لکھوں گا، مگر پھر یہ (منطق الطیر جدید) سامنے آگیا، مگر فی الحال کوئی ناول ذہن میں نہیں ہے، ممکن ہے، یہ آخری ہو۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں