جمعہ, دسمبر 27, 2024

شکیب جلالی

مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا

مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا ٹھہرو ٹھہرو مرے اصنام خیالی...

کیا کہیئے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی

کیا کہیئے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی شاید ہی کوئی آ سکے اس...

ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر

ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر تصویر...

ساتھی

میں اس کو پانا بھی چاہوں تو یہ میرے لیے نا ممکن ہے وہ آگے آگے تیز خرام میں اس کے پیچھے پیچھے افتاں خیزاں آوازیں دیتا شور...

گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا

گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی فسانہ جگر لخت...

Comments