اتوار, مئی 19, 2024
اشتہار

اکبر بادشاہ کے اتالیق اور مغل خاندان کے وفادار بیرم خان کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

مغلیہ دور کی مشہور شخصیت بیرم خان کو تاریخ‌ ایک ایسے سپاہ سالار کے طور پر یاد کرتی ہے جس نے مغلوں کے اقتدار کو بچانے کی کوشش کی۔ یہ وہ وقت تھا جب مغل بادشاہ ہمایوں آگرہ سے فرار ہو گیا تھا۔ بیرم بیگ یا بیرم خان کو اکبر کے اتالیق ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بیرم خان ترکی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتا تھا۔ اس نے ان دونوں زبانوں میں شاعری بھی کی۔ وہ علم کا رسیا بھی تھا اور اس کے دربار میں عالم اور اہلِ قلم موجود تھے۔

ترک نسل کے بیرم بیگ نے وسطیٰ بدخشاں کے علاقے میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ اس کا باپ سیفالی بیگ بہارلو اور دادا جنبالی بیگ شہنشاہ بابر کی فوج میں تھے۔ مغل بادشاہ ہمایوں نے اسے’’خانِ خاناں‘‘ کا لقب دیا جس کے معنی بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، اور اسی کے بعد وہ بیرم خان کے نام سے مشہور ہوا۔ بیرم خان 16 سال کی عمر میں بابر کی فوج میں شامل ہوا تھا اور ایک عرصہ تک مغلوں کی فتوحات میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ مؤرخین کے مطابق جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران روانہ ہوا تو بیرم خان بھی اس کے ہمراہ تھا۔ جب ہمایوں ایران سے فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو بیرم خان بادشاہ کی فوج کا سپہ سالار تھا۔

بادشاہ اکبر کے دور میں‌ بھی بیرم خان نے حکومت کے استحکام کے لیے ناقابلِ‌ فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ اکبر کو سازشوں سے آگاہ کرنے کے علاوہ اس کے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ بیرم خان ہی تھا جس نے اکبر کے خلاف اکثر مہم جوئی ناکام بنائی۔ بیرم خان کا سنہ پیدائش تاریخ کی کتابوں میں‌ 1501ء درج ہے جسے 31 جنوری 1561ء میں قتل کر دیا گیا۔

- Advertisement -

مؤرخ عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کا سلسلۂ نسب جہاں شاہ ولد قرا یوسف تک پہنچتا ہے۔ ہمایوں کے انتقال کے وقت اکبر کی عمر صرف چودہ برس تھی، لیکن بیرم خان نے اکبر کے اتالیق کی حیثیت سے اسے مسند اقتدار پر بٹھانے کے بے مثال کردار ادا کیا۔ کہنے کو تو اکبر بادشاہ تھا لیکن مؤرخین کہتے ہیں‌ کہ بادشاہت پانچ سال تک عملی طور پر بیرم خان کے ہاتھ میں تھی اور وہ ہمیشہ ایک وفادار سرپرست کی حیثیت سے امورِ سلطنت چلاتا رہا۔ اکبر 19 برس کا ہوا تو بیرم خان نے امورِ مملکت سے خود کو الگ کر لیا۔ بیرم خان نے پانی پت کی دوسری جنگ میں مغل فوج کی قیادت بھی کی۔ یہ 1556ء کی بات ہے۔

شاہانِ وقت سے قربت کے سبب درباری بیرم خان سے حسد کرتے تھے۔ لیکن بیرم خان سے بھی کچھ غلطیاں‌ بھی سرزد ہوئی تھیں‌ جس نے اس کی وفاداری کو مشکوک اور ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ کچھ مؤرخین کے نزدیک 1560ء میں اس کا زوال شروع ہوگیا اور اس کی وجہ اپنے اعزاء کو نوازنا تھا۔ جب اکبر نے بیرم خان کو سبک دوش کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ غیر متوقع طور پر بیرم خان نے اکبر کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کردیا اور اس کے خلاف فوجی بغاوت کر دی جس میں اسے شکست ہوئی۔ لیکن اس کی مغل خاندان سے وفاداری اور طویل رفاقت کی بنا پر اکبر نے اس کو بخش دیا۔ اکبر نے بیرم خان کو پیش کش کی کہ یا تو دربار سے رخصت لے کر باقی زندگی عیش سے گزار دے یا پھر حج کرنے مکہّ معظمہ چلا جائے۔ بیرم خان نے حج پر جانے کو ترجیح دی اور گجرات کے راستہ سے حرمین شریفین جانےکا قصد کیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ وہ راستے میں پٹن میں‌ چند دن ٹھیرا۔ ایک روز وہ سیر و تفریح کی غرض سے نکلا۔ وہ جس علاقہ میں تھا، وہاں ایک مبارک خان لوحانی نامی شخص بھی موجود تھا جس کا باپ ماچھی وارہ کی جنگ میں بیرم خان کے کسی سپاہی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اتفاق سے وہ اپنے چالیس افغان ساتھیوں کے ہمراہ اسی مقام پر سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا تھا۔ مبارک خان کو جب علم ہوا کہ بیرم خان یہا‌ں موجود ہے تو اس نے ملاقات کا پیغام بھجوایا اور جب وہ بیرم خان کی اجازت سے اس کے پاس پہنچا تو موقع پاکر اس کی پشت پر خنجر مار دیا۔ اس کا یہ وار ہلاکت خیز ثابت ہوا۔ خنجر سینے کے آر پار ہوچکا تھا۔ بیرم خان موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔

مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کو مقبرۂ شیخ حسام الدّین کے احاطہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔میر علی شیر قانع کا بیان ہے کہ بیرم خان کی لاش پٹن سے دہلی لائی گئی اور اسے امانتاً دفنایا گیا۔ بعد ازاں اس کی وصیت کے مطابق اس کی لاش کو مشہد لے جایا گیا اور وہاں‌ تدفین کی گئی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں