ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

وہ معاملہ جس میں ہم یورپ و امریکہ کے ہمسر ہیں!

اشتہار

حیرت انگیز

نامہ بَر تُو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط ”جو پہنچائے جاتے ہیں“

خطوط کی ترسیل میں تاخیر یا ان کی گم شدگی صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں۔ ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ اس معاملے میں ہم یورپ و امریکہ کے ہمسر ہیں۔

ہماری جو سہیلیاں ہمیں امریکہ سے خطوط لکھتی ہیں وہ ہمیں آٹھ دس دن کے بجائے ہمیشہ ڈیڑھ دو ماہ بعد ملتے ہیں اور لندن سے آنے والی ڈاک اس اعتبار سے سب پر بازی لے گئی ہے کہ اوّل تو موصول نہیں ہوتی اور جو موصول ہوتی ہے تو لفافہ کسی کنواری اور اَن چھوئی دوشیزہ کے دامن کی طرح بے داغ ہوتا ہے۔

- Advertisement -

گزشتہ چھ ماہ میں ہمیں لندن سے صرف دو خطوط موصول ہوئے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ پہلا خط سپردِ ڈاک کئے جانے کے پورے ڈیڑھ ماہ بعد ملا تو اس طرح کہ نہ صرف اس پر چسپاں ٹکٹ بلکہ پورا لفافہ کورا تھا۔ اس پر پاکستان تو کجا لندن کے بھی کسی ڈاک خانے کی کوئی مہر نہیں لگی تھی۔ میں نے جوابی خط میں اپنی دوست عذرا کو وہ ٹکٹ اتار کر بھیجتے ہوئے لکھا کہ یہ خط نہ جانے کس طرح دونوں ممالک کے ڈاک خانوں سے نظریں بچا کر چُھپ چُھپا کر میرے گھر تک پہنچ گیا۔ شاید اسی لئے اس نے دس دن کا سفر ڈیڑھ ماہ میں طے کیا ہے۔ بہر کیف یہ میرے تو کسی کام نہیں آئے گا، تم دوبارہ استعمال کر لو مگر تاکید کر دینا کہ اس مرتبہ یوں چُھپتے چُھپاتے سفر نہ کرے۔ عذرا نے میرے لکھے پر عمل کیا مگر خط نے اس کی ایک نہ سنی اور پھر اسی طرح چُھپتے چُھپاتے مجھ تک پہنچا۔ اس مرتبہ اس کے سفر کا دورانیہ پورے دو ماہ پر محیط تھا۔ میں نے پھر اس ٹکٹ کو احتیاط سے اتار کر جوابی خط میں روانہ کر دیا کہ ”برکتی“ ٹکٹ ہے۔ ساری زندگی کام آئے گا۔

لگتا ہے دونوں ممالک کے محکمہ ہائے ڈاک تم سے بہت خوش ہیں۔ تمہارے سارے خطوط اسی ایک ٹکٹ پر بھیجنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ عذرا نے پھر اسی ”برکتی“ ٹکٹ کو استعمال کرتے ہوئے جواب ارسال کیا۔ پندرہ روز پہلے اس کا فون آیا تو معلوم ہوا کہ اسے اس ”برکتی“ ٹکٹ کے ساتھ جواب ارسال کئے دو ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر وہ ہنوز مفقود الخبر ہے۔مذکورہ خط کے بموجب مجھے اس عرصہ میں یہاں اس کے کچھ کام کروا کے ان کی رپورٹ بھیجنی تھی مگر یہاں چوں کہ خط ہی نہیں ملا تو کیسا کام اور کیسی رپورٹ؟ اب اس نے گھبرا کے فون کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ خط تو اب تک یہاں پہنچا ہی نہیں۔ یقیناً اسے پھر لندن اور کراچی کے محکمہ ہائے ڈاک کے اہلکاروں کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں دیر ہورہی ہے۔ اصل ماجرا تو اس کے موصول ہونے پر ہی معلوم ہوگا (اگرموصول ہوگیا۔) سرِدست ہم اسی بات پر خوش ہیں کہ کسی معاملے میں سہی، ہم انگریزوں کے برابر تو ہوئے۔ ہمارے اور ان کے محکمۂ ڈاک کی کار گزاری کا معیار یکساں ہے۔

بعض ناشکرے لوگ محکمۂ ڈاک کی اس کار گزاری پر ناراض رہتے ہیں اور اس نے جو اپنا معیار بڑھانے کی خاطر ارجنٹ میل سروس کا شعبہ بنایا ہے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب کھانے کمانے کے دھندے ہیں۔ ایک روپے کی جگہ سات روپے لیتے ہیں اور ڈاک پھر بھی وقت پر نہیں پہنچاتے۔ حالاں کہ دیکھا جائے تو اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر محکمۂ پولیس اپنی پرانی کار گزاری پر ایگل اسکواڈ، ہاک اسکواڈ اور پولیس سٹیزن لائژن کمیٹی قائم کرسکتا ہے تو محکمۂ ڈاک کو ایسا کرنے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ آخر وہ کیوں نہ کھائے کمائے؟

جہاں تک ڈاک کی بروقت ترسیل کا تعلق ہے تو اس کے لئے جگہ جگہ کوریئر سروس کمپنیاں قائم کردی گئی ہیں۔ اگر آپ اپنا خط واقعی پہنچانا چاہتے ہیں یا یوں کہئے کہ خط بھیجنے میں سنجیدہ ہیں تو ان کی خدمات حاصل کیجئے۔ ٹھیک ہے ان کا معاوضہ بھی زیادہ ہے مگر آپ یہ بات کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ ان کا اہل کار آپ کی ڈاک کو مکتوب الیہ کے ہاتھوں میں دے کر آتا ہے۔ نہ صرف ہاتھوں میں دے کر آتا ہے بلکہ ان سے وصولی کی سنَد بھی لکھواتا ہے تاکہ ان کے پاس مکرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ اس لحاظ سے کام کے مقابلے میں دام زیادہ نہیں۔

اوپر ہم نے لفظ واقعی کا استعمال یوں کیا ہے کہ بعض عاشق اسی مقولے پر عمل پیرا رہتے ہیں کہ

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

سوچئے۔ ایسے بے مقصد خطوط محبوب تک نہ بھی پہنچ پائیں تو کیا حرج ہے؟ لہٰذا، اگر آپ کا تعلق بھی ایسے ہی عاشقوں سے ہے اور آپ بغیر مطلب کے خط پہ خط لکھتے ہیں تو پھر انہیں بلا کھٹکے سپردِ ڈاک بھی کرتے جائیے۔ محکمۂ ڈاک انہیں وہیں پہنچائے گا جو ان کا اصل مقام ہونا چاہئے یعنی کوئی برساتی نالہ یا کچرا کنڈی۔۔۔ یوں جب آپ کے فضول اور بے مطلب کے محبت نامے محبوب تک نہیں پہنچ پائیں گے تو وہ آپ سے ناراض بھی نہیں ہوگا۔ لیجئے محکمۂ ڈاک کی ایک مثبت کار گزاری تو سامنے آئی کہ اس نے آپ کو محبوب کی ناراضگی سے بچالیا۔

اب جب کہ محکمۂ ڈاک کا ایک مثبت پہلو سامنے آہی گیا ہے تو اس کو مزید طعن و تشینع کا نشانہ بنانے کی بجائے بہتر ہوگا کہ اس کالم کو یہیں ختم کردیا جائے۔ یوں بھی اچھا ہے یا بُرا ہے پر محکمۂ ڈاک ہے تو ہمارا۔ اتنی گنجائش تو رہنی ہی چاہیے کہ وہ ہمارے خطوط دیر سے سہی، پہنچا تو دیا کرے۔

(حمیر اطہر سینئر صحافی، ادیب اور کالم نویس اور متعدد کتب کی مصنّف ہیں، پیشِ نظر اقتباسات ان کے 1992 کے مطبوعہ فکاہیہ کالم سے لیے گئے ہیں، جو حمیرا اطہر کی منتخب فکاہیہ تحریروں پر مشتمل کتاب "بات سے بات” میں بھی شامل ہے)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں