برلن: جرمن چانسلر کے اتحاد کو بڑا دھچکا لگا ہے، جرمنی میں جنگ عظیم دوم کے بعد پہلی بار انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘ انتخابات میں کامیابی ہو گئی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مشرقی جرمنی میں اینٹی امیگرینٹس جماعت انتخابات جیت گئی ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار دائیں بازو کی جماعت نے یہاں کامیابی حاصل کی ہے اور ایک تہائی ووٹ حاصل کیے ہیں۔
2013 میں تارکین وطن مخالف اور یورو شکن ایجنڈے کے ساتھ قائم ہونے والی ’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘ نے مشرقی ریاست تھورنگیا میں سب سے زیادہ 33.5 فی صد ووٹ حاصل کر لیے ہیں، جب کہ دائیں بازو ہی کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین کو 24.5 فی صد ووٹ ملے ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کی جماعت دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار جرمنی میں علاقائی انتخابات جیتنے کی راہ پر گامزن ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کسی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نے جرمن پارلیمان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس سے قبل اے ایف ڈی کو حریف جماعتوں کی جانب سے اقتدار سے باہر رکھا جانا تقریباً یقینی تھا۔
بی بی سی کے مطابق ریاست تھورنگیا میں آلٹرنیٹو فار جرمنی پارٹی قدامت پسند CDU سے 9 پوائنٹس آگے ہے، اور جرمنی کی تین حکومتی جماعتوں سے تو بہت آگے ہے۔ اسی طرح زیادہ آبادی والی پڑوسی ریاست سیکسنی میں اتوار کو ہونے والے انتخابات میں اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر آئی ہے، جب کہ CDU نے پہلے نمبر پر رہتے ہوئے 31.9 فی صد ووٹ حاصل کیے، اور اے ایف ڈی سے محض ایک پوائنٹ آگے رہی، جب کہ قومی حکومت چلانے والی تین جماعتوں – سوشل ڈیموکریٹس، گرینز اور لبرل FDP سے بہت آگے رہی۔
ادھر جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے کہا کہ یہ نتائج ’’تلخ‘‘ ہیں، انھوں نے مرکزی دھارے کی دیگر جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انتہائی دائیں بازو کے بغیر مل کر ریاستی حکومتیں بنائیں۔ انھوں نے روئٹرز کو ایک بیان میں کہا کہ اے ایف ڈی جرمنی کو نقصان پہنچا رہی ہے، یہ معیشت کو کمزور کر رہی ہے، معاشرے کو تقسیم کر رہی ہے اور جرمنی کی ساکھ کو خراب کر رہی ہے۔