بدھ, مئی 22, 2024
اشتہار

مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن کی کہانی جو امریکا کا مقبول ناول نگار بنا

اشتہار

حیرت انگیز

جیک لندن نے تکلیف دہ زندگی اور مشکلات کو شکست دے کر ادب اور صحافت کی دنیا میں شہرت پائی تھی۔ اس کا شمار امریکا کے مقبول ناول نگاروں‌ میں ہوتا ہے۔

ایک وقت تھا جب جیک لندن پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگوں کے آگے دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور تھا۔ جب قسمت نے یاوری کی تو وہ اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ آٹو گراف لینے کے لیے اس گرد جمع ہوجاتے۔ جیک لندن کے فن و تخلیق کو عالمی ادب میں سراہا گیا۔

جیک لندن کا تعلق امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے تھا۔ وہ 12 جنوری 1876ء کو پیدا ہوا۔ جیک لندن کی طبیعت میں تجسس اور مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ غربت اور افلاس کا عالم یہ تھا کہ جیک لندن نے نوعمری میں ایسے معمولی کام بھی کیے جنھیں ناگوار اور گھٹیا تصوّر کیا جاتا تھا۔ لیکن جیک لندن لوگوں کی پروا کیسے کرتا؟ اسے ایک وقت کی روٹی چاہیے تھی، سو اس نے ہر کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ غربت اور فاقوں سے تنگ آکر جیک لندن نے چوروں اور راتوں رات امیر ہونے کے لیے الٹے سیدھے کام کرنے والوں سے تعلق جوڑ لیا اور ان کے ساتھ وہ کبھی سونے کی تلاش میں نکلا اور کہیں سمندر سے بیش قیمت موتی ڈھونڈنے کے لیے جتن کیے۔

- Advertisement -

جیک لندن کی عمر 17 برس تھی جب وہ ایک بحری جہاز پر ملازم ہوگیا اور جاپان کا سفر کیا۔ اُس نے زندگی میں‌ کئی سنسنی خیز اور انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ یہ سب کچھ جیک لندن اپنا مقدر بدلنے کی خاطر کرتا رہا۔ حال یہ تھا کہ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کی، جیک لندن کو اس کا ہوش نہ رہتا۔ اس کا اکثر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرتا تھا۔

وہ ایک ذہین نوجوان تھا جس کا حافظہ قوی تھا۔ جیک لندن نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھا، 19 سال کی عمر میں‌ اُس وقت کام آیا جب اس نے کچھ لکھنے پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اس نے وقت گزارنے کے لیے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور یہ ایک بہترین مشغلہ ثابت ہوا۔ اسی زمانے میں اسے خیال آیا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔ اس کا یہ خیال غلط نہیں‌ تھا۔ جیک لندن نے جب قلم تھاما تو وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک ناول نگار اور صحافی کے طور پر شہرت پائے گا۔

جب روس اور جاپان کے درمیان جنگ چھڑی تو جیک لندن نے اخباری نمائندے کی حیثیت سے اپنی قسمت آزمائی۔ 1914ء میں اسے جنگی وقائع نگار کے طور پر منتخب کرلیا گیا اور جیک لندن نے بخوبی یہ ذمہ داری نبھائی۔ مگر اس سے قبل وہ ایک کہانی نویس کے طور پر شہرت پاچکا تھا۔ حیرت انگیز طور پر نہایت مختصر عمر پانے والے جیک لندن نے ایک ولولہ انگیز اور فعال شخص کے طور پر زندگی گزاری۔ مفلسی، مزدوری، سمندر کی دنیا اور اس کے تجربات و مشاہدات نے جیک لندن کو کہانی نویس اور صحافی بنا دیا۔

امریکہ میں بطور کہانی نویس اس نے 1900ء میں اپنی پہچان کا سفر شروع کیا تھا۔ اس کی کہانیاں امریکی رسائل میں شایع ہونے لگی تھیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جن کو امریکہ میں قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس ستائش نے جیک لندن کو جم کر لکھنے پر آمادہ کیا۔ شہرت اور مقبولیت کے اس عرصہ میں جیک لندن نے کتّے جیسے وفادار جانور کو اپنی کہانیوں میں‌ پیش کرنا شروع کیا اور واقعات کو اس عمدگی سے بیان کیا کہ لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔ مشہور ہے کہ جیک لندن کی بعض کہانیوں کے واقعات سچّے ہیں‌ اور ان کا تعلق مصنّف کی زندگی سے ہے۔ ان میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

امریکہ میں جیک لندن کی مقبولیت کو دیکھ کر اس زمانے کے مشہور اخبارات اور بڑے جرائد نے اسے کہانیوں کا معقول معاوضہ دینا شروع کر دیا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ قلم بند کی۔

جیک لندن نے 1916ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پائی۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔ اس کی کتابیں بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں