کراچی: انوکھےفقرے اور نت نئی تاویلات برتنے والے شاعر ِ بے بدل جون ایلیا کو پیوند ِخاک ہوئے پندرہ برس کا عرصہ ہو گیا،ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔
شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طرازہیں۔
”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، ’’جون کو زبانوں سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتے تھے۔ عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت حاصل کر لی تھی‘‘۔
جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پذیرائی نصیب ہوئی۔
جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے
جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنیفات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔
میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب
اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا
نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔
ایلیاء کا پہلا شعری مجموعہ
جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔
ایک سایہ میرا مسیحا تھا
کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا
جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائلِ اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کرسکیں۔
میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا
مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں
میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا
مرمٹا ہوں خیال پر اپنے
وجد آتا ہے حال پر اپنے
جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی حالت ابتر ہو گئی۔ وہ پژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔
کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا
وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ
جون ہی تو ہے جون کے درپے
میرکو میر ہی سے خطرہ ہے
کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے