کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا
پر میرا جگر دیکھ کہ میں اف نہیں کرتا
کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میں اس کے
اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا
کچھ اور گماں دل میں نہ گزرے ترے کافر
دم اس لیے میں سورۂ یوسف نہیں کرتا
- Advertisement -
پڑھتا نہیں خط غیر مرا واں کسی عنواں
جب تک کہ وہ مضموں میں تصرف نہیں کرتا
دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے
دنیا کے زر و مال پہ میں تف نہیں کرتا
تا صاف کرے دل نہ مئے صاف سے صوفی
کچھ سود و صفا علم تصوف نہیں کرتا
اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا
*********