ضلع شکار پور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مسجد قائم ہے جسے پانی والی مسجد کہا جاتا ہے۔
یہ مسجد کھیر تھر کینال کے بیچ میں ہے اور یہ صرف ایک عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے تحریکِ آزادیٔ ہند کی اہم یادگار ہے اور ایک موقع پر اسی مسجد نے دینِ اسلام پر مَر مٹنے والوں کا جذبہ اور اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے کی سچی آرزو بھی دیکھی ہے۔
اس مسجد کو شمالی سندھ میں انگریزوں کے خلاف ایک سیاسی قوت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔
1932 میں برطانوی راج میں جب سکھر بیراج اور کینال پراجیکٹ کا کام شروع کیا گیا تو بلوچستان تک نہری پانی پہنچانے کے لیے کھیر تھر کینال کی کھدائی کی جانے لگی۔ اس وقت یہ چھوٹی سی مسجد کھیر تھر کینال کے منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھی گئی اور انگریز سرکار نے منہدم کرنے اور کینال پراجیکٹ کو اسی جگہ سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا، مگر حضرت مولانا تاج محمود امروٹی نے جو ایک عالم اور نہایت دین دار شخص مانے جاتے تھے، انھوں نے کینال کا رخ تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے مسجد کو شہید نہ کرنے کا کہا۔
انگریز انتظامیہ نے ان کا مشورہ مسترد کر دیا تو مولانا امروٹی نے متعلقہ امور کے ماہرین اور افسران کو تحریری طور پر اس مسئلے سے آگاہ کیا اور اپنا مشورہ ان کے سامنے رکھا، لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ تب مولانا امروٹی نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا۔ ان کی آواز پر ہزاروں لوگ جمع ہو گئے اور ایک ایسی دینی اور سیاسی تحریک شروع ہوئی کہ برطانوی سرکار مشکل میں پڑ گئی۔
مولانا صاحب کے حکم پر مسجد کی حفاظت کے لیے سیکڑوں لوگ گھروں سے نکل آئے۔ نوجوانوں نے مختلف اوقات میں مسجد کا پہرہ دینے کی ذمہ داری اٹھا لی۔ مسلمانوں کو یوں اکٹھا ہوکر مسجد کی حفاظت کرتا دیکھ کر انگریز انتظامیہ نے فیصلہ ترک کر دیا۔
ماہرین سے مشاورت اور منصوبے کے انجینئر کی ہدایت پر کھیر تھر کینال کو مسجد کے دونوں اطراف سے گزارا گیا اور یوں مسجد پانی کے بیچ میں آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پانی والی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔