عام خیال ہے کہ کسی جریدے کا مدیر ہونا بے ثمر کام ہے، آدمی کتنی ہی جان مار لے، کوششیں رائیگاں جاتی ہیں، نہ تو مالی آسودگی ملتی ہے، نہ ہی شہرت۔
البتہ اگر معاملہ "نونہال” کی ادارت کا ہو، تو صورت حال بدل جاتی ہے کہ یہ پرچہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ نسلوں کے ادبی ذوق کی آب یاری کی اس نے۔
اب اگر کسی نے اس جریدے کی ادارت لگ بھگ نصف صدی سنبھالی ہو اور یوں سنبھالی ہو کہ لاکھوں، بلکہ کہہ لیجیے کروڑوں افراد کو گرویدہ بنایا ہو، تو وہ حق دار ہے کہ اسے اکیس توپوں کی سلامی پیش نہ بھی کی جائے، تب بھی احترام اور محبت کے ساتھ یاد رکھا جائے۔
آج جو ہم مسعود احمد برکاتی کو یاد کر رہے ہیں، علمی اور ادبی حلقے انھیں فیس بک اور ٹوئٹر پر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں ، ان کی بابت مضامین باندھے جارہے ہیں،تو سبب یہی ہے کہ انھوں نے دو نسلوں کی آب یاری کی۔
مدیرمسعود احمد برکاتی کی نمازِ جنازہ ادا*
اس نابغہ روزگار شخص کے انتقال کی خبر غیرمتوقع نہیں تھی کہ وہ عرصے سے بیمار تھے، مگر یہ خبر کتنے ہی دلوں کو سوگوار کر گئی۔ گیارہ دسمبر کو ان کی تدفین ہوئی، تو گویا ایک عہد تمام ہوا۔
آگے بڑھنے سے پہلے کیوں ناں ان کے حالات زندگی کھنگال لیے جائیں۔
ایک نظر حالات زندگی پر
مسعود احمد برکاتی ٹونک کے تھے۔ 1931 میں پیدا ہوئے۔ بٹوارے کے بعد ادھر چلے آئے۔ کچھ زمانہ حیدرآباد اور جام شورو میں گزرا۔
پھر کراچی پہنچے۔ باصلاحیت تھے، ضرورت ایک پلیٹ فورم کی تھی، جو مہیا کیا ہمدرد فاؤنڈیشن نے۔ 1953 میں ہمدرد نونہال کی ادارت سنبھالی، تو اس سفر کا آغاز ہوا، جو انھیں امر کرنے والا تھا۔
مترجم بھی تھے۔ کئی عظیم ناولز کی تلخیص ہم تک ان کے قلم سے یا ان کے وسیلے پہنچی۔ ڈوما کا ناول ’’تین بندوقچی‘‘ تو سب کو یاد ہوگا۔ بچوں کے لیے لکھی کتابیں ایک درجن سے زاید ہیں۔
بحیثیت ایڈیٹر مسعود احمد برکاتی ایک طویل عرصے تک ’’پہلی بات‘‘ کے نام سے نونہال کا اداریہ لکھتے رہے، جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول تھا۔ حکیم محمد سعید کی تحریروں کی نوک پلک بھی وہی سنوارتے تھے۔
ایک یادگار واقعہ
اوروں کی طرح ہم بھی ان کے معتقد تھے۔ ان سے چند ملاقات بھی ہوئیں، مگر جو واقعہ یہاں موضوع، وہ ان کے انٹرویو سے جڑا ہے۔
بڑی خواہش تھی کہ ان کا انٹرویو کیا جائے۔
فون پر خواہش ظاہر کی، تو بولے پہلے ملاقات کرلیجیے۔ ہم سمجھ گئے، وہ انٹرویو دینے سے پہلے ہمارا انٹرویو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ہم جب ان کے انٹرویو میں ’’پاس‘‘ ہوگئے، تو فرمانے لگے، آپ سوال نامہ بھجوا دیں، میں جواب لکھ کر بجھوا دوں گا۔
ہم سٹپٹا گئے ۔ ہم تو کہانی سننے کا ارادہ لیے گئے تھے اور وہ ہمیں کہانی پڑھوانے پر مصر تھے۔ جواز دل چسپ تھا۔ کہنے لگے، اسی طرح لکھنے میں سہولت ہے، یوں آپ اور ہم بولنے کی اذیت سے بچ جائیں گے۔
خیر! ہم نے جواز مان لیا اور لگ بھگ 30 سوالوں پر مشتمل سوال نامہ ارسال کر دیا۔ چند روز میں انھوں نے مطلع کیا کہ جوابات تیار ہیں۔ ہم دوڑے دوڑے پہنچے۔
انھوں نے مسکراتے ہوئے تیس پینتیس صفحات پر مشتمل پلندہ پکڑایا، تو ہم گھبرا گئے کہ یا خدا، اسے ایڈٹ کرنے والا مدیر کہاں سے لائیں گے، مگر جب جائزہ لیا، تو اندازہ ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔
دراصل انہوں نے ہر سوال کے لیے الگ الگ صفحات مختص کر لیے تھے۔ اب چاہے جواب ایک لفظ جیسے ہاں یا ناں پر مشتمل ہو یا تین چار پیراگراف پر، سب کے حصے میں پورا پورا صفحہ آیا۔ یہ سوالات پر برکاتی صاحب کی مہربانی تھی۔
اچھا، ساتھ اپنی کچھ یادگار تصاویر بھی دیں، جو لگ بھگ ایک صدی جینے والے اس شخص کی بصری کہانی بیان کرتی تھیں۔
افسوس، وہ سب زندگی کی بھاگ دوڑ میں کہیں گم ہوئیں. باقی رہ گئی فقط برکاتی صاحب کی یاد۔
اور یہ یاد کئی برس مہکتی رہے گی۔