جمعہ, مئی 17, 2024
اشتہار

سیّد ممتاز علی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘نسوانی بیڑے کا ناخدا’ کہا گیا!

اشتہار

حیرت انگیز

متحدہ ہندوستان میں‌ شمسُ العلما مولوی سیّد ممتاز علی کا نام ان کے علمی، ادبی، صحافتی کاموں اور حقوق و تعلیمِ نسواں کے علم بردار کی حیثیت سے مشہور ہوا۔ انہی کے صحافتی ادارے دارُالاشاعت لاہور کا رسالہ ’تہذیبِ نسواں‘ ہندوستان کا سب سے پہلا خواتین کا ہفتہ وار اخبار تھا جیسا کہ اس کے سَر ورق پر درج ہے۔

اس رسالہ کی ادارت مولوی ممتاز علی کی دوسری بیوی نے سنبھالی تھی جو ڈرامہ انار کلی کے مصنّف امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ ان کا نام محمدی بیگم تھا جن کی ادارت میں اس رسالے کا پہلا شمارہ یکم جولائی 1898 میں منظرِ عام پر آیا۔ مولوی ممتاز علی کی پہلی بیوی کا چند برس قبل انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نے دوسری بیوی محمدی بیگم کو ذہین اور باصلاحیت پایا تو ان کی ضروری تعلیم کا بندوبست کیا اور انھیں اس قابل بنایا کہ وہ ایک رسالے کی مدیر بنیں۔

تہذیبِ نسواں رفتہ رفتہ ہندوستان کے مسلم گھرانوں اور اردو داں طبقے میں‌ خاصا مقبول ہوگیا۔ اس اخبار نے جہاں‌ ہندوستانی عورتوں کو بیدار مغز اور باشعور بنانے میں کردار ادا کیا، وہیں اس پرچے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں معمولی پڑھی لکھی عورتوں میں بھی تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ اخبار کی ادارت محمدی بیگم کے ذمّہ تھی جو سیّد ممتاز علی کی زوجہ تھیں۔ لیکن ایک بڑا طبقہ جن میں مسلمان ہی نہیں‌ ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہندوستانی شامل تھے، مولوی صاحب کے اس رسالے کے مخالف تھے۔ مولوی ممتاز علی نے تہذیب نسواں کے متعلق چھ جولائی 1935 میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’لوگوں کو حق اور اختیار تھا کہ وہ اخبار کو ناپسند کرتے اور نہ پڑھتے اور اپنے گھروں میں نہ آنے دیتے مگر انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گالیاں دینا شروع کیں۔ گالیاں بھی اگر بند خطوط کے اندر لکھی آتیں تو اس قدر ذلّت نہ ہوتی مگر وہ تو اخبار کے پیکٹوں پر بازاری گالیاں لکھ کر اخبار واپس کرتے تھے اور خطوں میں جو کچھ لکھتے تھے کہ وہ اس قدر شرمناک ہوتا تھا کہ خط کھولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ ہاتھ کانپتے اور دل سہما جاتا تھا۔‘ اس زبردست مخالفت کے باوجود مولوی ممتاز علی نے اپنا کام جاری رکھا۔

- Advertisement -

سیّد ممتاز علی کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ وقت نے شمسُ العلما کا خطاب دیا تھا۔ وہ 15 جون 1935ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو کے اس معروف مصنّف اور مترجم نے متعدد علمی و ادبی مضامین تحریر کیے۔ سیّد ممتاز علی رفاہِ عام پریس کے مالک تھے اور انھیں ناشر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ وہ 1860ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ انھوں نے انگریزی کی تعلیم بھی پائی۔ مولوی صاحب 1876ء میں لاہور چلے گئے اور تا دمِ مرگ وہیں‌ ان کا قیام رہا۔

1884ء میں ان کی ملازمت پنجاب میں عدالت کے مترجم کی حیثیت سے ہوئی تھی اور 1891ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1898ء کو لاہور میں چھاپا خانہ قائم کیا اور نہایت بلند پایہ کتابیں شایع کیں۔ اسی برس تہذیبِ نسواں بازار میں آیا تھا جو 1949ء تک جاری رہا۔ سیّد ممتاز علی نے 1909ء میں بچّوں کا جریدہ پھول بھی جاری کیا تھا اور یہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔

مولوی سیّد ممتاز علی علم و ادب میں ممتاز اور مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور مصلح سرسیّد احمد خان کے رفیق بھی تھے۔ ہر کام میں‌ ان سے صلاح و مشورہ کرتے اور ان کی طرح ہندوستانیوں‌ کے لیے جدید علوم اور تعلیم و تربیت کا حصول لازمی خیال کرتے تھے۔
ان کے اخبار تہذیبِ نسواں کا نام تہذیبُ الاخلاق سے مشابہ تھا جو سر سیّد احمد خان نے تجویز کیا تھا۔

سیّد ممتاز علی کے مطبع خانے سے جو تصانیف شایع ہوئیں، ان میں حقوقِ نسواں (1898ء)، مولوی مرزا سلطان احمد خاں کے متفرق مضامین کا مجموعہ ریاضُ الاخلاق (1900ء) اور سراجُ الاخلاق، تفصیلُ البیان، شیخ حسن (1930ء) اور دیگر شامل ہیں۔

محمدی بیگم کے 1908ء میں انتقال کرجانے کے بعد ان کی صاحب زادی وحیدہ بیگم نے اس اخبار کی ادارت سنبھالی جس کے بانی مولوی ممتاز علی تھے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وحیدہ بیگم 1917ء میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ کچھ عرصے کے لیے مولوی ممتاز علی کی بہو نے بھی اخبار کی ادارت کی اور پھر اسے مولوی ممتاز کے صاحب زادے امتیاز علی تاج نے آگے بڑھایا جو اس کے آخری مدیر تھے اور اردو کے نام ور ادیب اور ڈرامہ نگار تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں