جمعہ, مئی 17, 2024
اشتہار

مشفق خواجہ: ایک کھرا ادیب اور جری محقّق

اشتہار

حیرت انگیز

مشفق خواجہ نہ صرف فکاہیہ کالم نگاری میں بلکہ اردو طنز و مزاح کی تاریخ میں ایک نہایت اہم اور بڑا نام ہیں۔ انھوں نے موضوع، مواد اور اسلوب ہر سطح پر ندرت کی مثالیں اور انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ اردو صحافت کے ایک البیلے قلم کار تھے۔

موضو ع کی سطح پر ان کا سب سے اہم اضافہ تو یہی ہے کہ انھوں نے باضابطہ معاصر ادیب و شعرا اور تازہ ادبی مسائل کو اپنے فکاہیہ کالموں میں سمویا اور یوں ’’ادبی کالم نگاری‘‘ کی داغ بیل پڑی۔

کون تھا جسے انھوں نے اپنے قلم کی نوک سے نہ گدگدایا ہو اور شعر و ادب میں گروہ بندی، پست تحریروں، شہرت و جاہ اور انعامات کے لیے ادیب و شعرا کی قلابازیوں، داؤ پیچ اور سچ جھوٹ کے ساتھ ان کی بعض حرکتوں پر گرفت نہ کی ہو۔ غیر ادبی عناصر، رجحانات اور تحریکوں کے نام پر ادب کو بے ادبی سکھانے والوں کی نشان دہی اور صنفی تجربات کے نام پر مذاق کرنے والوں‌ کو انھوں نے خوب بے نقاب کیا۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔ 21 فروری 2005ء کو وہ کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ مشفق خواجہ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

- Advertisement -

ایک قصّہ پڑھتے چلیے: مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

مشفق خواجہ کو اردو ادب میں‌ ایک شاعر، ادیب، نقّاد اور بلند پایہ محقّق کی حیثیت سے پہچان ملی۔ ان کی وجہِ شہرت خامہ بگوش کے عنوان سے ان کے فکاہیہ کالم بنے۔ اس قلمی نام سے انھوں نے طنز و مزاح اور فکاہیہ نگاری میں اپنے تخلیقی جوہر اور فنی مہارت کا خوب اظہار کیا۔

ادبی موضوعات، سیاسی اور سماجی مسائل پر مشفق خواجہ ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ اپنے قارئین میں مقبول تھے۔ وہ ایک طرف طبقاتِ‌ عوام کی زندگی کے مسائل کو اجاگر کرتے تھے تو دوسری طرف مخصوص اور مفاد پرست ادبی ٹولے کی درگت بناتے تھے۔

ان کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ اور تخلص مشفق تھا۔ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔

مشفق خواجہ کا شمار ان اہلِ قلم اور تخلیق کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے تصنیف و تالیف کے میدان میں نہایت معیاری کام کیا۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے مختلف موضوعات پر فیچر بھی پسند کیے گئے۔

مشفق خواجہ نے عمر بھر قلم سے اپنا رشتہ استوار رکھا، اُنھیں بلاشبہ اُردو کا کھرا ادیب، اور میدان تحقیق کا جری قرار دیا جاسکتا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں