جمعرات, مئی 23, 2024
اشتہار

عالمی یومِ‌ موسیقی: سائنسی تحقیق اور چند مقبول گیت

اشتہار

حیرت انگیز

راگ راگنیاں، لَے، تان یا سُر اور تال فنِ موسیقی کی وہ اصطلاحات ہیں‌ جن سے موسیقی کا ہر ادنیٰ شائق واقف ہے، لیکن عام لوگ اس فن کی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے کے جھنجھٹ میں نہیں‌ پڑتے بلکہ صرف موسیقی اور گائیکی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یوں‌ بھی انھیں سمجھنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں‌۔

آج نہ تو کلاسیکی اور خالص راگ راگنیوں پر مشتمل موسیقی باقی رہی ہے اور وہ گلوکار جن کے لیے کہا جاتا کہ آپ کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ اسی طرح وہ سازندے اور گلوکار بھی اب زندہ نہیں‌ رہے جن کے فن کا برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض‌ میں‌ شہرہ تھا۔

دنیا، آج موسیقی کا عالمی دن منا رہی ہے اور ہم جانتے ہیں‌ کہ موسیقی میں جدّت اور نئے طرزِ‌ گائیکی کے ساتھ اس فن کو کئی پلیٹ فارمز کی بدولت ایک نئی شکل اور نئی شناخت مل رہی ہے۔ یہاں‌ ہم جدید دور میں موسیقی کے حوالے سے راؤ محمد شاہد اقبال کے ایک مضمون سے کچھ مفید معلومات نقل کر رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

- Advertisement -

موسیقی انسانی جسم پر کس قسم کے مثبت اور منفی اثرات مرتب کرتی ہے، سائنس کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں موسیقی کے انسان کے احساسات، جذبات، معمولات اور کیفیات پر پڑنے والے غیرمعمولی اثرات کا اجمالی جائزہ سائنسی تحقیقات اور مطالعات کے تناظر میں پیشِ خدمت ہے۔

موسیقی چاہے کتنے بھی ہلکے سُروں کی کیوں نہ ہو، لیکن اگر آپ اُسے اپنے ایکو ساؤنڈ سسٹم پر تیز آواز پر بجانا شروع کر دیں گے تو وہ سننے والوں کی سماعت پر بہت بھاری یعنی ہتھوڑا بن کر بھی برس سکتی ہے۔ ویسے تو ہر زمانہ کے نوجوانوں نے ہمیشہ سے ہی موسیقی سننے کے لیے اونچی آواز کو ہی ترجیح دی ہے۔ لیکن آج کل نت نئے جدید ترین آلاتِ موسیقی کی دستیابی کے باعث تیز آواز موسیقی سے انسانی سماعت کو مستقل اور سنگین نقصان پہنچنا ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان اور سہل ہوگیا ہے۔ کینیڈا میں میک ماسٹر کے شعبہ میں نفسیات کے تحت نیورو سائنس پر کی جانے ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نو عمر افراد میں سماعت کی خرابی کے زیادہ تر امراض بلند آواز میں موسیقی سننے کے باعث پیدا ہورہے ہیں۔ اس تحقیقی مطالعے میں 170 بچوں کو زیر مشاہدہ رکھا گیا تھا۔ جن میں سے کچھ کو مخصوص عرصہ تک باقاعدگی کے ساتھ ہلکی آواز اور چند کو بلند آواز میں موسیقی سنانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نتائج کے مطابق جن بچوں کو بلند آواز موسیقی کے گروپ میں شامل تھے، اُن میں اکثر کو ”ٹنائٹس“ کی علامات کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ”ٹنائٹس“ سماعت کا ایک ایسا مرض ہے، جس کی علامت ایک کان میں عارضی یا مستقل طور پر سننی خیز آواز کا بجنا ہے اور یہ عموماً 50 سال سے زائد بالغ افراد میں ظاہر ہوتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ بچوں کے جس گروپ کو ہلکی آواز میں یا بالکل بھی موسیقی سنائی نہیں گئی تھی۔ اُن کی جانب سے دورانِ تحقیق کان بجنے کی ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ اس تحقیق کے مصنف، لیری رابرٹس (Larry Roberts) نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ ”اگر وہ چاہتے ہیں، اُن کے بچے عمر رسیدگی سے قبل سماعت کے مسائل کا شکار نہ ہوں تو پھر یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے بلند آواز میں موسیقی نہ سنیں۔“

نیز کانوں پر ہیڈ فونز لگا کر موسیقی سننے کے بھی بہت بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین علمِ سماعت (Audiologists) قوتِ سماعت کے نقصان کا براہ راست ذمہ دار ہیڈ فونز کو ٹھہراتے ہیں۔ نیز اونچی آواز میں موسیقی کو کسی بھی ذریعے سے لگاتار سننے سے انسان کی سننے کی صلاحیت مستقل طور پر ناکارہ ہو سکتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ موسیقی اونچی آواز میں سننے کے بُرے اثرات صرف کانوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اونچی آوازوں کے غیر سمعی (Non-auditory) اثرات بھی ہوتے ہیں جو قوتِ سماعت کو متاثر نہ بھی کریں لیکن انسانی جسم کو دیگر عوارض کا شکار بنا سکتے ہیں۔ مثلاً بلڈ پریشر کا بڑھ جانا، بے خوابی، سانس لینے میں دقّت، دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا اور خون کی شریانوں کا سکڑنا وغیرہ ایسے اثرات ہیں جو اونچی آواز میں موسیقی کو سننے سے پیدا ہوسکتے ہیں۔

فن لینڈ کے محققین نے جتنے سائنسی مطالعے موسیقی کے ‘نیک و بد اثرات’ جاننے کے بارے میں کیے ہیں بلاشبہ دنیا کے کسی اور ملک کے محققین اُس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکے۔ دراصل فن لینڈ کے سائنس دان انسانی دماغ پر موسیقی کے اثرات کو جاننے کے متعلق بہت زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں اُن کی جانب سے متعدد سائنسی مطالعات سامنے آچکے ہیں، جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موسیقی کے ذریعے انسانی جذبات کو موثر انداز میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے فن لینڈ کے محققین کی جانب سے 2015 میں کیے جانے والے ایک مطالعہ کا دنیا بھر میں بہت چرچا ہوا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ”اچھی موسیقی انسان میں نظم و ضبط کا سبب بنتی ہے۔“

یاد رہے کہ اس تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد موسیقی کے ذریعے تھراپی کے منفرد کاروبار کو خوب رواج ملا اور کئی ممالک میں تو باقاعدہ موسیقی تھراپی کے لیے کلینک قائم کر دیے گئے۔

وہ مثل تو آپ نے ضرور سنی ہوگی کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ بالکل اسی مصداق موسیقی کی بھی کئی اقسام ہیں، مثلاً کلاسیکی، پاپ، جاز وغیرہ۔ سائنس دان برسوں سے فقط موسیقی ہی نہیں بلکہ اُس کی اقسام اور دھنوں کے انسانی جذبات اور احساسات پر پڑنے والے اثرات کے سائنسی تجزیہ میں مصروف ہیں۔ دراصل وہ جاننا چاہتے ہیں کہ مختلف اقسام کی موسیقی میں کون سی دھن یا قسم انسانی احساسات کی نشوونما پر مثبت اور کون سی منفی انداز میں اپنا اثر ڈالتی ہے۔ اس حوالے سے موسیقی کی دنیا کے معروف محقق گریفتھ (Griffith) نے کئی برس قبل بلحاظِ اقسام موسیقی کی درجہ بندی کر کے ایک مطالعاتی جائزہ کا آغاز کیا تھا۔ جس میں اُس نے موسیقی کو پسند کرنے والے مختلف افراد کی عادت و اطور کا تفصیلی مشاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کئی برسوں کی تحقیق کے بعد گریفتھ کا کہنا ہے کہ ”پاپ میوزک پسند کرنے والے افراد سب سے کم تخلیقی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ پاپ موسیقی سننے والے بے وقوف ہوتے ہیں، بلکہ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاپ موسیقی پسند کرنے والے افراد شاذ ہی کبھی کسی قسم کے تخلیقی کام کی جانب رغبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔“ گریفتھ کے مطابق ”پاپ موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوگار، موسیقار اور فن کار بھی زیادہ تر ناخواندہ یا واجبی سی تعلیم کے حامل ہی ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاپ گلوگار اکثر و بیشتر ایسے سطحی قسم کے تنازعات میں خود کو شریک کر لیتے ہیں، جو عقلیت پسندی کے سخت برخلاف ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر پاپ گلوگار بڑی محنت سے کمایا ہو پیسہ پس انداز کرنے کے بجائے فضول خرچی میں اُڑا دیتے ہیں۔“ ضروری نہیں ہے کہ گریفتھ کی تحقیق سے مکمل اتفاق کیا جائے۔ البتہ، اس پر تفکر ضرور کیا جا سکتا ہے۔

راؤ محمد شاہد اقبال کا مضمون یہاں ختم کرتے ہوئے ہم وہ لافانی اور اپنے وقت کے مقبول ترین گیت آپ کو یاد دلاتے ہیں جو ہر پاکستانی نے سن رکھے ہیں‌ خواہ وہ قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی نسل سے تعلق رکھتا ہو یا کوئی اکیسویں‌ صدی میں اور انٹرنیٹ کی جادوگری کے ساتھ اس کی زندگی کا آغاز ہوا ہو۔

نور جہاں کی آواز میں یہ گیت آج بھی ہماری سماعتوں‌ میں‌ رس گھول رہا ہے….سانوں نہر والے پُل تے بلا کے، سوہنے ماہی کتھے…

نصرت فتح علی خان کی آواز میں‌ مشہور قوالی ‘دم مست قلندر مست مست اور ‘یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے…

شہنشاہِ‌ غزل مہدی حسن کی گائی ہوئی یہ غزل سرحد پار بھی مقبول ہوئی…. گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے، اور اسی طرح‌ فلمی گیت زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں….

احمد رشدی ایک مقبول گلوکار تھے جن کی آواز میں ‘بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، اور ایک گیت کو کو کو رینا…’ آپ نے بھی سنا ہو گا۔

عطا اللہ عیسی خیلوی کا گایا ہوا گیت ‘قمیض تیری کالی…’ آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔

عابدہ پروین کی آواز میں ‘یار کو ہم نے جا بجا دیکھا’ بڑی عمر کے لوگ اور نوجوان سبھی شوق سے سنتے ہیں۔

ان کے علاوہ مختلف لازوال دھنوں میں‌ نام ور گلوکاروں کے گائے ہوئے گیتوں میں آئے موسم رنگیلے سہانے، میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال، کاٹے نہ کٹے رے رتیا، آج جانے کی ضد نہ کرو، اکھیاں نوں رہن دے، انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، پتنگ باز سجنا، دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں، ابھی تو میں‌ جوان ہوں، گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے، ڈسکو دیوانے، پرانی جینز اور گٹار، تمھارا اور میرا نام جنگل میں…، اور قوالیوں میں بھر دو جھولی، تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے وغیرہ شامل ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں