19.6 C
Dublin
جمعہ, مئی 24, 2024
اشتہار

این اے 239 لیاری: کیا پیپلزپارٹی اپنا مضبوط قلعہ واپس لے پائے گی؟

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی کی قدیم بستیوں پر مشتمل لیاری میں سیاسی جماعتوں کی بھرپور انتخابی مہم دیکھ کر لگتا ہے اس بار دلچسپ مقابلہ ہو گا۔

لیاری کو ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا رہا ہے تاہم 2018 کے انتخابات میں پی پی کا مکمل صفایا ہوا اور تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی نشست جیتی جب کہ جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی صوبائی اسمبلیوں سے کامیاب ہوئی۔

لیاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ (NA-239) اپنے مخصوص ووٹنگ کے رجحان کی وجہ سے انتخابی مبصرین کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا مرکز بنا رہا ہے۔

- Advertisement -

لیاری شہر کی قدیم ترین بستیوں میں سے ایک ہے اور یہ عوامی تصورات میں سرایت کر گیا ہے جو کبھی گینگ تشدد اور عدم تحفظ کا گڑھ تھاحالانکہ یہ ایک ایسی نشست تھی جہاں بھٹو خاندان کو کبھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے شکست سب سے بڑے جھٹکے میں سے ایک تھی جو پارٹی کو میٹرو سٹی میں اٹھانا پڑا تھی۔

ماضی میں لیاری سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے نبیل گبول اس بار پیپلزپارٹی کو اپنا کھویا ہوا مقام دلانے کے لیے خاصے پرُامید نظر آتے ہیں۔

پی پی پی کی شہید چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے 1988 میں یہاں سے کامیابی حاصل کی تھی اور سابق صدر آصف علی زرداری نے 1990 کے عام انتخابات میں یہ نشست جیتی تھی۔

تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوجوان ووٹروں اور سوشل میڈیا صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ تاثرات بدل گئے ہیں جس کا انتخابی نتائج پر اثر پڑ سکتا ہے۔

حلقہ 239 کی کل آبادی 7 لاکھ 83 ہزار 497 ہے جبکہ کل ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 22 ہزار 81 ہے جس میں مرد ووٹرز 2 لاکھ 33 ہزار 87 ہیں اور خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 88 ہزار 994 ہے۔

کل پولنگ اسٹیشن 181 ہیں جبکہ عوام کے مسائل بجلی، صاف پانی، گیس، سیوریج کا پانی، کچرے کے ڈھیر، تجاوزات اور ٹریفک جام ہیں۔

این اے 239 سے پیپلزپارٹی کے نبیل گبول اور جماعت اسلامی کے فضل الرحمان نیازی مدمقابل ہیں جبکہ ٹی ایل پی کے محمد شرجیل گوپلانی میدان میں ہیں، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار یاسر بلوچ بھی 19 امیدواروں میں شامل ہیں۔

لیاری کے ایک معمر شہری نے کہا کہ بجلی نہیں آتی، پانی نہیں ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، امیدوار ووٹ لے کر چلے جاتے ہیں پلٹ کر پوچھتے تک نہیں ہیں۔

ایک شخص نے کہا کہ لیاری پیپلزپارٹی کا گڑھ ہے اور ساتھ میں کھارادر ہے جہاں چوبیس گھنٹے بجلی آتی ہے، ہمارے یہاں 13 سے 14 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہے جس کے باوجود باقاعدگی سے بل ادا کررہے ہیں، گیس کبھی کبھار آتی ہے جس میں کچھ پکا نہیں سکتے، روڈ بلاک کرلیے احتجاج ریکارڈ کروادیا لیکن ان کو پروا نہیں ہے۔

ایک شہری نے کہا کہ ووٹ کس کو دیں عوام کے مسائل کی سیاست دانوں کو پرواہ نہیں ہے، کام کاج نہیں ہے، مہنگائی بڑھ گئی ہے اگر بجلی کا بل ادا نہ کریں تو کنکشن کاٹ دیے جاتے ہیں۔

خاتون نے کہا کہ ہم ووٹ نہیں دیں گے حکومت ہمارے لیے کچھ نہیں کررہی، جب ووٹ دیا تو کوئی رزلٹ نہیں آیا مسائل جوں کے توں ہیں۔

عبدالشکور شاد (لیاری الائنس)

سابق ایم این اے عبدالشکور شاد اس الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔ لیاری سے سابق ایم این اے نے اپنے حلقہ این اے 239 کے اہم مسائل پر اے آر وائی نیوز سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا کہ کرپشن نے ملک کو اتنا ہی تباہ کیا ہے جتنا کہ لیاری کو، جو کہ پاکستان کو درپیش ایک بڑا گورننس مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ منشیات نے علاقے کی نوجوان نسل کو متاثر کیا ہے منشیات نے نوجوانوں کو چور اور بھکاری بنا دیا ہے وہ بجلی کی تاروں سے لے کر مین ہول کے ڈھکن تک چوری کرتے ہیں، علاقے کے ہر کونے میں چھوٹے تاجروں کا ایک نیا طبقہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو چوری کا سامان خریدتے ہیں، اور انہیں معمولی قیمت پر چوروں سے خریدتے ہیں۔

گورننس میں بدعنوانی کے بارے میں ایک سوال پر شکور شاد نے کہا کہ وہ قومی اسمبلی کے 342 ارکان میں سے واحد رکن ہیں جنہوں نے نیب کو بطور ایم این اے ان کے لیے مختص کیے گئے ترقیاتی فنڈز کی انکوائری کرنے کا کہا تھا۔

آصفہ بھٹو کی لیاری آمد

آصفہ بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے لیے ٹاور سے لیاری تک پیپلز پارٹی کی انتخابی ریلی کی قیادت کی جہاں پارٹی کے حامیوں نے پیپلز پارٹی کے رہنما کا پرتپاک استقبال کیا۔

پارٹی کے روایتی گڑھ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آصفہ بھٹو نے لیاری کی آواز بننے کا وعدہ کیا۔ پی پی پی رہنما نے کہا کہ میں اور بلاول آپ کی آواز ہیں اور ہم خاموش نہیں رہیں گے ہم آپ کے حقوق کے تحفظ کا وعدہ کرتے ہیں آپ بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کے لیے 08 فروری کو ’تیر‘ پر مہر لگانے کا وعدہ بھی کریں۔

فضل الرحمان نیازی

جماعت اسلامی (جے آئی) نے فضل الرحمان نیازی کو این اے 239 کے لیے پارٹی امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا ہے جو اس علاقے میں دو بار یونین کونسل کے چیئرمین رہے اور مقامی مسائل کو بخوبی جانتے ہیں۔

لیاری کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے صفائی، منشیات، اسٹریٹ کرائمز، گیس کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کو بڑے مسائل قرار دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ سے لیاری کے مسائل پر توانا آواز اٹھاتے رہے ہیں اور تمام متعلقہ فورمز اور اداروں میں شکایات کے ساتھ ساتھ ان کے حل سے متعلق تجاویز بھی دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی نہ صرف عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عملی جدوجہد کرتی رہی ہے بلکہ لیاری کے نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتی آئی ہے۔

یاسر بلوچ

تحریک انصاف اپنے دیرینہ کارکن پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے نوجوان یاسر بلوچ کو میدان میں اتارا ہے جو پی ٹی آئی کے پرُجوش کارکنوں کے ساتھ مل کر بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

ڈور ٹو ڈور مہم کے ذریعے یاسر بلوچ اپنی انتخابی مہم کو مؤثر بنا رہے ہیں اور براہ راست ملاقتوں کے ذریعے ووٹرز سے اس بار بھی پی ٹی آئی کو کامیاب کروانے کا پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔

محمد شرجیل گوپلانی

آل سٹی تاجر اتحاد (اے سی ٹی آئی) کے صدر محمد شرجیل گوپلانی لیاری سے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار کے طور پر این اے 239 کے لیے انتخابی میدان میں ہیں۔

شرجیل کا مقابلہ پی پی پی کے نبیل گبول اور جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر اس حلقے میں آزاد امیدواروں سے ہوگا۔ انہوں نے ایک رپورٹ میں کہا کہ یہ حوصلہ افزا ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجر اپنے اور اپنے ہم وطنوں کے مسائل خود حل کرنے کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں