نادر کاکوری اردو زبان کے نام وَر شاعر تھے جن کا تذکرہ آج شاذ ہی ہوتا ہے۔ نادر کاکوری بہترین شاعر اور مترجم بھی تھے۔
ادبی تذکروں کے مطابق ان کا پیدائشی نام شیخ نادر علی تھا۔ لیکن مالک رام نے پورا نام قاضی نادر علی خان عباسی لکھا ہے۔ تذکرۂ ماہ و سال میں ان کا سنہ پیدائش 1887ء درج ہے۔ لیکن ان کے مجموعہ کلام ’’جذباتِ نادر‘‘ کے مقدمہ میں 1857ء لکھا گیا ہے۔ تاہم ان پر اختلاف پایا جاتا ہے اور زیادہ درست 1867ء معلوم ہوتا ہے، کیونکہ بوقتِ وفات نادر کی عمر 45 یا 46 سال تھی۔ نادر کی وفات مرضِ خناق کے باعث 20 اکتوبر 1912ء کو ہوئی تھی۔
نادر کاکوری پڑھے لکھے تھے، وہ انگریزی جانتے تھے۔ پاکستان کے مشہور نقاد و محقق ممتاز حسن رقمطراز ہیں: ’’نادر اردو شاعری کی نئی تحریک میں ایک خاص مقام رکھتے ہے۔ یہ تحریک حالیؔ اور آزاد کی نیچرل شاعری سے شروع ہوتی ہے۔ اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ اردو شاعری کو زندگی کے حقائق اور واقعات سے قریب لایا جائے اور تصنع اور تکلف کو ترک کردیا جائے۔ یہ اہم کام نادرؔ اور سرورؔ نے کیا ہے ۔ دونوں کی شاعری مشاہدات فطرت اور قومی اور انفرادی جذبات سے مالا مال ہے‘‘۔
شیخ نادر علی خاں عباسی المعروف نادرؔ کاکوروی ضلع لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ حامد علی عباسی تھے۔ نادرؔ کی شادی شریف النساء بیگم عرف بندہ بی بی سے ہوئی جن سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹاپیدا ہوئے۔ نادر نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، فارسی اور انگریزی کی تعلیم مکمل کی۔ انہیں بچپن سے شاعری کا شوق تھا۔ ان کا کلام اس زمانہ کے مشہور اخبار و رسائل میں شائع ہوتا تھا۔ نادر کاکوروی کو جدید خیالات، ملکی حالات اور سیاست سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ ادب برائے زندگی کے قائل اور ترقی پسند سوچ کے حامل تھے۔ انھوں نے انگریزی نظموں کے منظوم تراجم بھی کیے۔
ان کے بارے میں اپنے وقت کے بڑے ادیب اور ناول نگار عبدالحلیم شرر لکھتے ہیں:
’’اردو شاعری کی دنیا میں نادر کاکوروی کی شاعری سب سے جداگانہ چیز ہے جس کے خیالات بالکل نئے اور جس کا اثر خاص قسم کا ہوگا۔ حضرت نادر نے کوشش کی ہے کہ انگریزی شاعری کے لطیف مذاق کو اردو میں پیدا کریں۔‘‘
اس خرابے سے کوئی گزرا ہے نادرؔ نام بھی
جابجا دیوار پر اشعار ہیں لکھے ہوئے