ہفتہ, مئی 11, 2024
اشتہار

نظرؔ لکھنوی: ایک ادیب اور شاعر کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

یہ تذکرہ ہے نظرؔ لکھنوی کا جو ادب کی دنیا میں اپنی نثر نگاری اور شاعری کی بدولت مشہور ہوئے اور کئی رسائل کے مدیر رہے۔ آج نظرؔ کا نام اور اردو ادب میں‌ ان کے مقام کا ذکر شاذ ہی ہوتا ہے۔ ان کا ایک شعر دیکھیے۔

دیکھنا ہے کس میں اچھی شکل آتی ہے نظرؔ
اس نے رکھا ہے مرے دل کے برابر آئینہ

منشی نوبت رائے اردو ادب اور صحافت کی دنیا میں اپنے تخلّص نظرؔ لکھنوی سے پہچانے گئے۔ لکھنؤ میں ان کی پیدائش 1866ء میں ہوئی اور تاریخِ وفات 10 اپریل 1923ء ہے۔ ادیب اور شاعر نظر لکھنوی کا تعلق ایک کایستھ خاندان سے تھا۔ یہ خاندان لکھنؤ کے نوابوں کے زمانے سے ہی برسرِ اقتدار تھا۔ نظر نے اوائلِ عمر میں ہی فارسی اور اُردو کی تکمیل کرلی تھی۔ بعد ازاں انگریزی زبان میں بھی دسترس حاصل کی۔ نظر میں ادبی صلاحیتیں بدرجۂ اُتم موجود تھیں، اِسی سبب سے 1904ء میں خداداد ذہانت و قابلیت کو دیکھتے ہوئے منشی دیا نرائن نگم (ایڈیٹر رسالہ ’’زمانہ‘‘ کانپور) نے اپنے مقبولِ عام رسالہ ’’زمانہ‘‘ کا نائب مدیر بنا کر اپنے پاس کانپور بلا لیا، مگر جلد ہی 1910ء میں آپ رسالہ ’’ادیب‘‘ کے مدیرہو کر انڈین پریس، الہٰ آباد چلے گئے۔ الہٰ آباد بھی دو سال سے زیادہ قیام نہ کیا اور 1912ء میں کانپور واپس آ کر دوبارہ سالہ ’’زمانہ‘‘ سے منسلک ہوئے۔ آزادؔ کے اجرا میں آپ نے منشی دیانرائن نگم کا بہت ہاتھ بٹایا، پھر حامد علی خاں بیرسٹر ایٹ لا کی وساطت سے نول کشور پریس میں چلے گئے۔ یہاں پہلے تو ’’تفریح‘‘ کے مدیر رہے اور بعد میں ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیر ہو گئے۔ آخری دور میں نظر ’’اودھ اخبار‘‘ کے مدیر کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ بعض اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی عمر کا آخری حصہ زیادہ پُر آشوب تھا جس میں ان کو پے در پے صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ اپنی بیٹی اور پھر نواسی کے انتقال کے بعد نظر لکھنوی دل برداشتہ ہو گئے اور ’’ اودھ اخبار‘‘ سے قطع تعلق ہو گئے۔

- Advertisement -

نظر نے ایک ایسی فضاء میں آنکھ کھولی تھی جب انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں لکھنؤ میں ہر طرف شعر و شاعری اور بڑے بڑے ناموں کی سخن گوئی کا چرچا تھا۔ نظر کی طبیعت میں شعر و شاعری کا ذوق پیدا ہوا تو مظہر لکھنوی کے شاگرد ہو گئے اور لکھنؤ میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ منشی دیانرائن نگم نے کہا ہے کہ: ’’ فطرت سے انھوں نے علم و اَدب کے لیے نہایت موزوں طبیعت پائی تھی، قدرت نے انھیں نہایت شستہ و سلیم ذوقِ سخن عطاء کیا تھا۔ بچپن میں اُن کو بہت اچھی صحبت ملی تھی جس سے طبیعت میں رفعتِ مزاج میں تہذیب‘ متانت و سنجیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ اُن کا ذہن بھی بلا کا تھا جس بات کو اور لوگ مہینوں میں حاصل کرتے، اُس پر وہ چند دِنوں کی محنت میں حاوی ہوجاتے تھے۔ اُن کا معیارِ خیال بہت اونچا، اُن کا مطمح نظر بلند اور رفیع تھا۔ اُن کی پسند مشکل ہوتی تھی‘‘۔

نظر نے لکھنؤ ہی میں زندگی کے آخری ایّام بسر کیے اور وہیں انتقال ہوا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں