حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، حج کرنا ہرعاقل و بالغ مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، جو سفر حج کے لئے مالی اور بدنی استطاعت رکھتا ہو، حج کا آغاز 8 ذی الجہ یعنی یوم ترویہ سے ہوتا ہے، غسل کے بعد حج کے لئے احرام باندھا جاتا ہے پھر دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد نیت کی جاتی ہے اور تلبیہ لبیک اللھم لبیک پڑھا جاتا ہے۔
حاجی منیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور وہاں ظہر عصر مغرب عشاء اور 9 ذی الحج کی فجر کی نماز ادا کرتے ہیں، حجاج 9 ذی الحجہ کو طلوعِ آفتاب کے بعد عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں، عرفہ میں داخل ہونے سے قبل وادی نمرہ میں قیام کرتے ہیں اور وہاں ظہر اور عصر کی نماز جمع کرکے ادا کی جاتی ہیں۔
عرفات کا وقت دس ذی الحجہ کی صبح تک ہے، وقوف عرفہ حج کا رکن اعظم ہے، حجاج یہاں ذکر ودعا اور استغفار میں غروب آفتاب تک مصروف رہتے ہیں اوراس دن ان کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے، غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ کی طرف روانہ ہوا جاتا ہے اور وہاں مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کی جاتی ہے۔
حجاج یہاں پوری رات اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور فجر کے بعد طلوعِ شمس تک ذکر میں مشغول رہتے ہیں، یہاں حجاج کنکریاں بھی چن لیتے ہیں، 10 ذی الحجہ کو حجرہ عقبہ کے مقام پر شیطان کو کنکریاں مارنے کے لئے منیٰ کی طرف جاتے ہیں اور شیطان کو سات کنکریاں مارتے ہیں، اس کے بعد قربانی کی جاتی ہے۔
قربانی کے بعد مرد اپنا سر حلف کرواتے ہیں اور عورتیں تعصیہ یعنی ایک پور کے برابر بال کٹواتی ہیں اور حاجی احرام سے باہر آجاتے ہیں پھر حجاج طواف زیارت کے لئے مکہ جاتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔
یہ حج کا دوسرا رکن ہے، طواف کا آغاز حجر اسود سے کیا جاتا ہے، طواف میں سات چکر لگائے جاتے ہیں، ان سات چکروں میں مرد پہلے تین چکروں میں رحل کرتے ہیں یعنی پہلوانوں کی طرح شانے چوڑے کرکے تیز تیز چلتے ہیں، طواف کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے، یہ وہ پتھر ہے، جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانے کعبہ کی تعمیر فرمائی تھی۔
اس کے بعد سعی کی جاتی ہے یعنی صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا سات چکر لگائے جاتے ہیں، سعی میں مردوں کے لئے حضرت ھاجرہ علیہ اسلام کی سنت کو ادا کرتے ہوئے سبز بتیوں کے درمیان دوڑ لگائی جاتی ہے۔
ایام تشریف 11، 12، 13ذی الحج کی راتیں منی میں بسر کرتے ہیں اور تینوں جمرات پر سات سات کنکریاں شیطان کو ماری جاتی ہیں، منی سے پھر مکہ آتے ہیں اور طواف والوداع یعنی الوداعی طواف ادا کیا جاتا ہے، اس کے بعد مدینہ کے لئے روانگی ہوتی ہے، اس حج کی ادائیگی کے بعد حاجی ایسا گناہوں سے پاک ہوگیا، جیسے آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
منیٰ مکہ مکرمہ سے مشرق میں پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، حجاج کے قیام کی وجہ سے اسے خیموں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، عرفات مکہ مکرمہ کے جنوب مشرق میں ۱۶ کلو میٹر کے فاصلے پر جبل رحمت کے دامن میں واقع ہے۔
مزدلفہ یہ منی کے جنوب مشرق میں منی اور عرفات کے درمیان میں واقع ہے، جمرات جمرہ وسطی یہ مکہ سے قریب مسجد حنیف کے قریب ہیں۔