پشاور: اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی 3 اپریل سےدوبارہ شروع ہورہی ہے، واپس جانیوالے ہرافغان مہاجر کو 200 ڈالر دیے جائیں گے.
یواین ایچ سی آر کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی 3 اپریل سے دوبارہ شروع ہورہی ہے،4 ماہ کے تعطل کے بعد واپسی کامرحلہ شروع ہورہا ہے، بلوچستان اورخیبرپختونخوا میں قائم دو مراکز سے افغان مہاجرین کی واپسی ہوگی.
واپس جانیوالے ہرافغان مہاجر کو 200 ڈالر دیے جائیں گے، خیبرپختونخوا سے 11 ہزارمہاجرین نے رجسٹریشن کی ہے.
یواین ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان بھرسے3لاکھ 80ہزارافغان مہاجرین واپس گئےہیں۔
پاکستان میں موجود افغان مہاجرین
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، گذشتہ 4 سال کے دوران پاکستان 10 لاکھ سے زائد مہاجرین کی میزبانی کرچکا ہے۔
2016 کےآخری نصف حصے میں ملک بدری کی دھمکیوں اور پولیس کی بدسلوکی کی وجہ سے 15 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین میں سے 3 لاکھ 65 ہزار افراد افغانستان واپس گئے اور اسی دوران 10 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین میں سے 2 لاکھ افغان مہاجرین بھی وطن واپس پہنچے۔
انسانی حقوق کے ادارے نے اس انخلاء کو ‘حالیہ دور میں دنیا کی سب سے بڑی غیرقانونی مہاجرین کی واپسی’ قرار دیا۔

واضح رہے کہ ریفاؤلمنٹ کے روایتی قانون کے تحت پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ لوگوں کو ایسی جگہ بھیجنے پر مجبور نہ کرے جہاں انہیں تشدد، نامناسب سلوک یا جان سے جانے کا خطرہ ہو۔

تاہم پاکستانی انتظامیہ نے عوامی بیانات میں اس بات کو واضح طور پر کہا کہ وہ 2017 میں بھی 2016 کے برابر افغان مہاجرین کو وطن واپس جاتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
علاوہ ازیں، اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین ہزاروں پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا، دسمبر 2016 میں یو این ایچ سی آر کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ اس کثیر تعداد میں واپس افغانستان لوٹنے والے افراد بڑے انسانی بحران کا باعث بن سکتے ہیں۔
جون 2016 کے مطابق پاکستان میں تقریباً پندرہ لاکھ کے قریب رجسٹرڈ افغان مہاجرین آباد ہے پاکستان کے چاروں صوبوں میں اور ان کو قیام کے لیے جو کارڈ حکومت پاکستان اور نادرا کی جانب سے جاری ہوئے تھے ان کی مدت صرف چھ مہینے کے لیے تھی جو جون کے آخر میں اختتام پذیر ہو رہی ہے تو یقینناً افغان مہاجرین میں اضطراب کی کیفیت ہے ان کو نہیں معلوم کہ 30 جون کے بعد ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے توسیع ملے گی یا نہیں ملے گی ۔۔۔ پھر جو بارڈر پر حالات ہیں یہ یو ان ایچ سی آر کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے اور یہ ہر افغان مہاجر کے لیے جو اس وقت پاکستان میں مقیم ہے ان کے لیے بھی یہ برابر تشویش کا باعث ہے۔
یاد رہے دو سال قبل اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے کہا تھا کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان گزشتہ 35 میں سے 22 سالوں تک مہاجرین کی میزبانی کے حوالے سے سر فہرست رہا۔
دوسری جانب جب پاکستان نے افغان مہاجرین سے ان کے ملک واپس جانے کی گذارش کی تو انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کے انخلاء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کو اس انخلاء میں سہولت کار قرار دے دیا۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 76 صفحات پر مشتمل ‘پاکستانی دباؤ، اقوام متحدہ کی مدد: افغان مہاجرین کی جبری واپسی’ کے نام سے شائع کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزاروں افغان باشندوں کو پاکستان سے وطن واپسی پر مجبور کیا جارہا ہے جس سے ان افراد میں غربت، بیروزگاری اور انتشار کی شرح میں اضافہ ہوگا اور یہ اُن 5 لاکھ سے زائد متاثرین کا حصہ بن جائیں گے جو افغانستان میں موجود ہیں.
یاد رہے 4 سال قبل اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین ہیں جس میں سے نصف خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں۔ سڑسٹھ فیصد افغان باشندے رجسٹرڈ ہیں اور بیاسی فیصد افراد پشتو بولتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پچپن فیصد مہاجرین دیہاڑی دار مزدور ہیں جبکہ کاروبار کرنے والوں نے پاکستان میں اٹھارہ ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ دس فیصد افغان مہاجرین کو سمندر پار رشتے داروں سے ماہانہ اٹھائیس لاکھ ڈالر ملتے ہیں۔ شرح خواندگی تینتیس فیصد ہے جبکہ اسکولوں میں داخلے کی شرح اکسٹھ فیصد ہے۔ ایک سو اٹھہتر افغان مہاجرین مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ تین سو چھپن لاپتہ ہیں۔ سولہ فیصد مہاجرین نے واپس جانے پر آمادگی ظاہر کی ہے.
رواںسال پاکستان کی وفاقی کابینہ نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور اُن سے متعلق ایک انتظامی پالیسی کی منظوری دی تھی، جس میں طے پایا کہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں قیام کے لیے جو (کارڈز) جاری کیے گئے ہیں اُن میں 31 دسمبر 2017 تک توسیع کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ جو غیر اندراج شدہ افغان مہاجرین ہیں وزارت داخلہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ جو رجسٹریشن کا عمل ہو رہا ہے اس پر عمل درآمد کی منظوری دی گئی۔
پاکستانی حکام کا یہ موقف رہا ہے کہ حکومت یہ نہیں چاہتی کہ کسی بھی افغان کو زبردستی اُن کے ملک واپس بھیجا جائے، تاہم حکام کی طرف سے تواتر کے ساتھ یہ بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ پاکستان افغان پناہ گزینوں کی جلد اُن کی آبائی وطن واپسی کا خواہاں ہے اور بظاہر اسی تناظر میں گزشتہ سال پاکستان سے افغانستان واپس جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔
افغان پناہ گزین کی پاکستان آمد
یاد رہے کہ 1979ء میں جب روس نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کیں تو افغان باشندوں نے پاکستان کا رخ کیا تھا، پاکستان نے بھی اپنے بردار مسلم ملک کا دل کھل کے ساتھ دیا تھا تاہم اب پاکستان کی خواہش ہے کہ وہ لوگ جو یہاں غیر قانونی طور پر آباد ہیں وہ اپنے وطن واپس جائیں.